نصیر الدین شاہ اور اسلام ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں بھارت کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ کا ایک انٹرویو نظر سے گزرا جس میں انھوں نے اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا :
عاقبت کی فکر ہے لوگوں کو، دنیا میں کیا ہورہا ہے اس کی نہیں۔۔۔ کہ میں جنت میں جاؤں گا کہ نہیں۔ اوپر والا میرے اچھے کرم نوٹ کر رہا ہے یا نہیں۔ مجھے تو ہمیشہ سے ہی یہ بات بے وقوفی کی لگی کہ اللہ میاں بیٹھے ہوئے ہیں اوپر اور وہ ہر ایک کو دیکھ رہے ہیں اور ہر ایک کے بارے میں نوٹ کر رہے ہیں کہ اس نے کیا کیا۔۔ بہت ہی بزی رہتے ہوں گے وہ۔ ان کو فرصت ہی کہاں ہوتی ہوگی کچھ اور کرنے کی۔ تویہ باتیں تو مجھے تب بھی نہیں سوجھیں جب پانچ چھ سال کی عمر میں مجھے یہ کہانیاں بتائی جاتی تھیں۔ اور اب تو میں نے بالکل ہی۔۔
I am a lapsed muslim.
جاوید اختر اور نصیر الدین جیسے لوگ جنھوں نے بھارتی فلم انڈسٹری میں بہت نام کمایا، انھیں بھارتی سماج مسلمان ہی سمجھتا ہے اگرچہ وہ خود کو کلچرل مسلمان ہی کہتے ہیں۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی بنا پر انھیں بار بار یہ بتانا پڑتا ہے کہ ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ نصیرالدین شاہ کا یہ انٹرویو بھی بظاہر ایسی ہی ایک چیز ہے جسے اصولاً نظرانداز کر دینا چاہیے، مگر چونکہ انھوں نے اپنے نقطہ نظر کا استدلال بھی بیان کیا ہے تو ضروری ہے کہ اس پر تبصرہ کیا جائے۔
ان کی پہلی بات کا تعلق اسلام سے نہیں مسلمانوں کے اس رویے سے ہے جس میں عام طور پر مذہبی مسلمانوں کو دنیا کی خبر ہوتی ہے نہ پرواہ۔ اس پر مستزاد مسلمانوں میں پھیلی ہوئی فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی اور وہ دہشت گردی ہے جس نے پچھلی کئی دہائیوں سے دنیا میں اسلام کا بدترین تعارف کرایا ہے۔چنانچہ اس معاملے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا اعتراض اگر درست ہے تو مسلمانوں پر ہے، اسلام پر نہیں جس میں نجات کا معیار ہی یہ ہے کہ انسان دنیا میں بھلے کام کرے۔
جہاں تک دوسری بات کا سوال ہے اس کا تعلق ایمانیات سے ہے۔ نصیر الدین شاہ کو جو چیز سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ ہر وقت لوگوں کے حال سے باخبر رہتےہیں ان کے پاس کسی اور کام کی فرصت کہاں ہوتی ہوگی۔ یہ رویہ خدا کو مخلوق پر قیاس کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان یا کسی بھی مخلوق کے بارے میں یہ اعتراض بالکل درست ہے کہ وہ ایک کام کرتا ہے تو دوسرا کام نہیں کر پاتا۔ مگر خدا کے بارے میں ان کے یا کسی کے پاس کیا ذریعہ ہے جس کی بنیاد پر وہ قطعیت سے کہہ سکتے ہیں کہ خدا سارے کام ایک ساتھ نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانوں نے خود ایسی چیزیں بنا لی ہیں جن میں یہ صلاحیت ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کا سسٹم ہے جیسے بینکوں کا اے ٹی ایم۔ بینک کے تمام صارفین کے اکاؤنٹ میں کتنے پیسے ہیں، یہ معلومات بینک کے مرکزی کمپیوٹر یا سرور کے پاس ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے لاکھوں لوگ بھی اگر ایک ساتھ اپنے پیسے نکلوانا چاہیں تو کمپیوٹر اتنی تیز رفتاری سے کام کرتا ہے کہ ایک وقت میں تمام لوگوں کا معاملہ ایک ساتھ نمٹا سکتا ہے۔
جب انسان کی اپنی بنائی ہوئی تخلیق میں یہ طاقت موجود ہے تو جو ہستی انسانوں کی خالق ہے، اس کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ ایک کام کرتے ہوئے دوسرے کام سے عاجز ہوجائے گا، ایک بہت کمزور بات ہے۔ اور اس بات پر اسلام کو چھوڑ دینا اس سے بھی زیادہ کمزور چیز ہے۔
تاہم ہمیں یقین ہے کہ جو لوگ اسلام چھوڑتے ہیں وہ اس طرح کے سوالات کے بعد اسلام نہیں چھوڑتے۔ اکثر و بیشتر اس کی وجہ مسلمانوں کا غلط رویہ ہے جو اسلام کا ایک نامناسب تصور ذہنوں میں بٹھاتا ہے اور پھر یہیں سے اسلام سے دوری پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں پر تنقید کے بجائے اسلام کے نام لیواؤں کی اصلاح، کرنے کا زیادہ بڑا کام ہے۔