نفس کی تربیت ۔ پروفیسر محمد عقیل
میں اور آپ جس ظاہری بدن کے ساتھ اس دنیا میں موجود ہیں یہ محض ایک ڈھانچہ ہے۔ اس ڈھانچے کے اندر ہماری اصل شخصیت ہے جسے ہم خودی کا نام دیتے ہیں۔ ہمارا ظاہری وجود عام طور پر ہر دس سال کے بعد تبدیل ہوجاتا ہے اور ہمارے جسم کے سارے خلیات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہماری خودی وہی رہتی ہے۔
یہ ہماری باطنی شخصیت یا نفس بظاہر ہمارا اپنا ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک سرکش، تندخو اور آزاد منش کی مانند ہے۔ یہ ایک آوارہ بادل کی طرح اپنی مرضی سے ادھر ادھر گھومنا، اپنی مرضی سے گرجنا برسنا اور تحلیل ہونا چاہتا ہے۔ لیکن اگر اسے آزاد چھوڑ دیا جائے تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔
یہ نفس بے شمار داخلی اور خارجی عوامل سے متاثر ہوتا ہے۔ ہمارے اندر بھوک، پیاس، شہوت، غصہ، چاہے جانے کا احساس اور دیگر داعیات ہوتے ہیں۔ اگر ان پر قابو نہ پایا جائے تو یہی ہمارے نفس کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنسی شہوت ایک جبلی اور فطری تقاضا ہے جو انسان کی بقا کے لئے لازمی ہے۔ لیکن اگر اس تقاضے کو کھلی چھٹی دے دی جائے تو کسی کی عزت محفوظ نہیں رہتی اور انسان چوپائے کی طرح ہر جگہ منہ مارتا پھرتا ہے۔ یہی معاملہ باقی تقاضوں کا بھی ہے۔
دوسری جانب ہمارا نفس باہر کے عوامل سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس خارج کے ماحول میں ماں باپ، بہن بھائی، دوست احباب اور دیگر لوگ اس نفس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھی اسی خارج کے ماحول سے دراندازی کرتا ہے۔
یہ داخلی اور خارجی ماحول مل کر انسان کی اصل شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ نے انسان کو اس پورے معاملے میں تنہا نہیں چھوڑا۔ کہیں انسان کے اندر ہی ضمیر یا نفس لوامہ کی ایک چھوٹی سی عدالت لگا دی جو قدم قدم پر اسے اس کی غلطیوں پر متنبہ کرتی رہتی ہے۔ دوسری جانب وحی کے ذریعے انسان کو ان امور پر متعین طور پر راہنمائی فراہم کر دی جس میں اسے ٹھوکر لگنے کا اندیشہ تھا۔
انسان کی شخصیت یا نفس کی مثال ایک سرکش گھوڑے کی مانند ہے جس پر سوار بیٹھا ہے۔ گھوڑے کا داخلی نقص اس کی سرکشی ہے جس کی بنا پر ہر دم یہ خطرہ ہے کہ یہ سوار کو منزل مقصود پر لے جانے کی بجائے راستے ہی میں پٹخ دے۔ گھوڑے کے خارجی ماحول میں پرخطر راستے ہیں جن پر چلنے سے گھوڑا انکار کر دے اور بدک جائے۔ ان خطرات سے نبٹنے کے لئے گھوڑے کو تربیت دینا اشد ضروری ہے تاکہ اس کی سرکشی کو ختم کیا جا سکے اور ساتھ ہی ساتھ اسے پرخطر راستوں کا عادی بنایا جا سکے۔ چنانچہ وحی کی روشنی اور ضمیر کی رہنمائی میں اپنی تربیت ہمارے کرنے کا اصل کام ہے۔ یہی وہ کام ہے جس کا بدلہ جنت کی ابدی بادشاہی ہے۔