مسلمان کیوں متحد نہیں؟ ۔ ابویحییٰ
مسلمانوں کی جدید تاریخ میں جو نعرہ سب سے زیادہ مقبول رہا ہے وہ مسلمانوں کے اتحاد کا نعرہ ہے۔ جمال الدین افغانی (1897-1838) کے پان اسلامائزیشن سے لے کر موجودہ دور کی احیائے خلافت تک کی تحریکوں تک سب کا مرکزی خیال یہی خواہش ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان متحد ہوجائیں اور دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام بحال کریں۔
یہ خواہش یا خیال اپنی ذات میں بہت محمود ہے۔ مسلمانوں کے اتحاد اور دنیا پر ان کے اقتدار کا کون مخالف ہوسکتا ہے۔ مگر انیسویں صدی سے آج تک یہ خواہش ایک خواب ہی بنی رہی ہے اور نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر مسلمان درجنوں ریاستوں میں اپنے اپنے سیاسی، تہذیبی، سماجی اور مسلکی اختلافات کے ساتھ منتشر ہیں۔
اس کے برعکس جدید دنیا میں لوگوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے یہ واقعہ رونما ہوتے ہوئے دیکھا ہے کہ ہزاروں سال سے بہت سی ریاستوں میں منقسم اور شدید ترین نوعیت کی باہمی جنگوں اور رقابتوں کا شکار یورپ، یورپی یونین کی شکل میں بتدریج ایک اکائی بننے کی سمت میں اپنا سفر کامیابی سے طے کر رہا ہے۔
جمال الدین افغانی جیسے داعی، علامہ اقبال جیسے مفکر اور شاعر، حسنا البنا جیسے مرشد، مولانا مودودی جیسے مصنف، اخوان اور جماعت اسلامی جیسی منظم جماعتوں اور احیائے خلافت کی متعدد تحریکوں کی موجودگی، عربوں کی بے پناہ دولت اور مسلمانوں کی مسلسل خواہش کے باوجود یہ خواب ہنوز اپنی تعبیر سے محروم ہے تو یقینا اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی۔
ہمارے نزدیک اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی وہ الٹی تربیت ہے جو امت مسلمہ میں اتحاد تو کیا پیدا کرے گی، جو تھوڑا بہت اتحاد مسلمانوں میں باقی ہے، اس کو بھی تقسیم در تقسیم کیے جا رہی ہے۔ یہ الٹی تربیت اپنے تعصبات سے جکڑے رہنے اور اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی تربیت ہے۔ ہمارا سانحہ یہ ہے کہ جو لیڈر اور بڑا آدمی پیدا ہوجاتا ہے وہ باتیں تو اتحاد و اتفاق کی کرتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے میں اس کی اپنی شخصیت، اپنی جماعت، اپنا فرقہ، اپنا گروہ عین مطلوب بن جاتا ہے جس سے اختلاف رائے کرنا ممکن نہیں رہتا۔
آپ کسی شخصیت سے وابستہ ہوجائیں تو اس سے اختلاف رائے کرنا ایک جرم بن جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ اس کے ساتھ مل کر کوئی کام کرسکیں۔ آپ کسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوجائیں تو اس کا پہلا مشن آپ کی انفرادیت کو کچل کر اپنا ذہنی لونڈی غلام بنانا ہوگا۔ آپ مزاحمت کریں گے تو یہ گروپ آپ کو اٹھا کر باہر پھینک دے گا۔ آپ کسی مسلک میں پیدا ہوگئے ہیں تو ذرہ برابر اختلافی بات آپ کو بددین اور گمراہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہوگی۔
اس رویے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی ذہین اور باصلاحیت آدمی کسی اجتماعیت سے وابستہ نہیں رہ پاتا۔ نتیجتاً وہ ہر طرح کے وسائل سے محروم ہوکر اپنی صلاحیتوں کے استعمال سے قاصر رہ جاتا ہے۔ جو لوگ باقی رہتے ہیں ان کے پاس وسائل بہت ہوتے ہیں صلاحیت نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے بے صلاحیت لوگ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے۔ ہاں وہ دین کے کام کو دوکانداری میں ضرور تبدیل کر دیتے ہیں۔
باقی جو کوئی باصلاحیت آدمی کسی طور اپنی الگ شناخت بنانے لگتا ہے اس کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈا مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں تعصب کا زہر جو پہلے ہی معاشرے کو تقسیم کیے ہوئے ہے وہ مزید نئی تقسیم پیدا کر دیتا ہے۔ تعصب کا شکار یہ شخص اگر بہت باصلاحیت ہے تو تھوڑے عرصے میں اپنی شناخت پیدا کرلیتا ہے، مگر پھر وہی اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کا مرض اسی نئے گروہ اور جماعت میں جنم لے لیتا ہے اور پھر ایک دفعہ وہی کہانی شروع ہوجاتی ہے۔
اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بتدریج مسلمانوں میں یہ رویے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ مثلاً جمال الدین افغانی اور علامہ اقبال کی صلاحیت اپنی جگہ مگر ان کے دور میں یہ رویے اس قدر شدید نہ تھے۔ جمال الدین افغانی اگر آج زندہ ہوتے تو اہل تشیعہ کے ایجنٹ کہلاتے۔ علامہ اقبال پر گرچہ ان کی زندگی ہی میں کفر کا فتوی لگ گیا تھا، مگر آج کے دور میں ہوتے تو ان کے خلاف اتنا شدید پروپیگنڈا ہوتا کہ’’کافر اور گمراہ اقبال‘‘ کے اشعار پڑ ھنے کے بجائے لوگ ان کا نام سن کر کانوں پر ہاتھ لگا لیتے۔ مولانا موددی بھی گرچہ اپنی زندگی میں ’’امریکہ کا ایجنٹ‘‘ اور ایک عظیم ’’فتنہ‘‘ ہونے کا خطاب پا چکے تھے، مگر اِس دور میں ہوتے تو طبعی عمر پوری کرنے کے بجائے کسی خود کش حملے میں جام شہادت نوش کر چکے ہوتے۔
اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ مسلمانوں میں تعصب اور اختلاف رائے کو مٹا دینے کی سوچ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ سوچنے والے باصلاحیت اذہان اختلاف رائے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ یہ کرتے رہیں گے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ تعصب ایک زہر ہے۔ یہ زہر جس کے دماغ میں پکتا ہے آخر کار اسی برتن کو کھا جاتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ خود قوم و ملت کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ یہ مسلمانوں کے اتحاد کا سب سے بڑا قاتل ہے۔ اس کی موجودگی میں مسلمانوں کے اتحاد کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
اتحاد پیدا کرنا ہے تو اختلاف رائے کو برداشت کرنا ہوگا۔ امت کو ایک کرنا ہے تو تعصب کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ ان چیزوں کے بغیر اتحاد کا راگ کتنا بھی الاپا جائے عملی زندگی میں کبھی معنی خیز تبدیلی نہیں لا سکتا۔