موت کے کنارے ۔ عظیم الرحمن عثمانی
یہ کئی سال پرانا واقعہ ہے۔ کچھ دن سے سینے میں درد تھا مگر اس دن لندن ٹرین میں سفر کے دوران دل میں درد اور سینے میں گھٹن دونوں بڑھتے ہوئے محسوس ہوئے۔ میں نے ایمرجنسی میڈیکل نمبر ملایا تاکہ کل صبح کا اپوائنٹمنٹ ڈاکٹر سے لے سکوں۔ فون پر میرے درد کی نوعیت، مقام، شدت اور خاندان کی میڈیکل ہسٹری سے متعلق کچھ سوالات پوچھے گئے۔ کہا کہ اگلے ٹرین اسٹیشن پر اتر جائیے کیونکہ قوی امکان ہے کہ آپ کو اس وقت کارڈیئک اریسٹ یعنی ہارٹ اٹیک کا سامنا ہے۔ اسٹیشن پر ٹرین کا دروازہ کھلتے ہی دو اسٹاف میمبرز میرے منتظر تھے۔ انہوں نے بڑھ کر مجھے تھامنا چاہا تو میں نے مسکرا کر اشارے سے منع کیا کہ میں ٹھیک ہوں۔ پلیٹ فارم پر ہی کرسی منگوائی گئی اور مجھے پانی پلا کر بِٹھا دیا گیا۔ ابھی کوئی پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک وین نما بڑی ایمبولینس مجھے لینے پہنچ گئی۔ ایمبولینس کے اندر ہی جیسے چھوٹا سا کلینک بنا ہوا تھا جہاں ای سی جی سمیت طرح طرح کی مشینیں موجود تھیں۔ اندر ہی ٹیسٹ ہوئے اور رزلٹ دیکھ کر میڈیکل اسٹاف کے دوستانہ چہرے پر تشویش کے سائے لہرائے۔ مجھے بتایا گیا کہ آپ کو اسی وقت ہارٹ اسپیشلسٹ ہاسپٹل میں لے جانا ہوگا، جہاں آپ کے صحیح سے ٹیسٹ ہوسکیں گے۔
میں نے حامی بھری اور فون کرکے اپنے ایک رشتے دار اور ایک قریبی دوست کو مطلع کر دیا۔ مجھے تیزی سے کسی ایمرجنسی کی مانند اسپتال اور پھر وارڈ میں لے جایا گیا۔ پورے سینے پر ٹیسٹنگ کیلئے مختلف آلات چپکا دیئے گئے جو ایک بڑی مشین سے جڑے تھے۔ تیزی سے بلڈ ٹیسٹ ہونے لگے۔ اس دوران مجھے یقین تھا کہ میں ہارٹ اٹیک سے دوچار ہوں جو شاید جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔ ٹھیک اس حال میں جب میں نے اپنے اندر جھانک کر خود سے پوچھا کہ عظیم میاں! کیسا محسوس کر رہے ہو؟ کیا ہو جو لندن کے اس انگریز اسپتال میں بنا کسی اپنے کے سرہانے تمہارا موت کا بلاوہ آگیا ہو؟۔۔۔ مجھے ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ میں موت کے امکان سے ذرا بھی نہیں گھبرا رہا بلکہ سینے میں درد کے باوجود مسکرا رہا ہوں۔ اللہ سے بدستور دعا کر رہا ہوں کہ اے رب اگر میرا وقت آگیا ہے اور آپ مجھ سے راضی ہیں تو مجھے زندگی کی کوئی حرص نہیں! ایسا قطعی نہیں کہ میں زندگی سے تنگ ہوں۔ نہیں بالکل نہیں۔ الحمدللہ مجھے کوئی شکایت نہیں، کوئی پچھتاوا نہیں۔ میرا بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی اور اب پختہ عمر سب نعمتوں اور خوشیوں سے لبریز گزرے ہیں۔ مجھے زندگی کی رنگا رنگی بہت پسند ہے اور میں حتی الامکان کھل کر جیتا آیا ہوں۔ مگر ساتھ ہی میں جانتا ہوں کہ موت اختتام نہیں، ایک نیا آغاز ہے۔ پھر کیا فرق کہ کل جاتا ہوں یا آج اسی لمحے؟ اگر رب عظیم اس عظیم نامی گنہگار سے راضی ہے تو پھر کیسا تامل؟
میں نے خود سے پوچھا کوئی دنیاوی حسرت؟ والدین، بیوی بچوں یا مال وغیرہ سے متعلق؟ جواب صاف ملا کہ نہیں کوئی نہیں۔ ہاں ندامت ہے تو ان بیشمار گناہوں پر جو میں ساری زندگی کرتا رہا، افسوس ہے تو خیر کے ان موقعوں پر جو میں نے دانستہ گنوا دیئے، ملال ہے تو اپنی نالائقی اپنی کاہلی پر جو میں فرائض و نوافل میں کرتا رہا۔ پھر بھی دل میں ایک اطمینان، ایک ڈھارس، ایک سرور سا ہے کہ اگر یہی میرا وقت ہے تو ان شاء اللہ فکر کی بات نہیں۔ ان ہی سوچوں میں ڈاکٹر نے خبر دی کہ ان کا ابتدائی اندازہ غلط تھا۔ ٹیسٹوں سے صاف ظاہر ہے کہ میرا ہارٹ اس وقت فلی فنکشنل ہے۔ اس درد کی وجہ سانس کی نالی سے ملتا ہوا پسلیوں کے پنجرے کا وہ آخری حصہ ہے جہاں زخم ہوگیا ہے۔ اس کا علاج ہفتہ دس دن ہوا اور درد الحمدللہ ختم ہوگیا۔ کبھی سوچتا ہوں کہ شاید اچھا ہی ہوتا اگر ایمان کی اس اچھی کیفیت میں دنیا سے رخصت ہوجاتا۔ ورنہ مجھ جیسے کمزور انسان کے ایمان و قلب کی کیفیت بدلتی رہتی ہے۔ کسے معلوم کہ وقت رخصت اس کا نفس حالت معصیت میں ہو یا حالت اطاعت میں؟ پھر خیال جھٹکتا ہوں اور رحمن سے ایمان پر استقامت اور اسی پر موت کی دعا کرتا ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔