یہ موقع ختم ہوا چاہتا ہے ۔ ابویحییٰ
انسان کیا چاہتا ہے؟ عیش جاوداں…… حیات ابدی…… حسن لازوال اور…… ختم نہ ہونے والی بادشاہی۔ یہ تو وہی دے گا جس کے پاس یہ سب کچھ ہو یا پھر وہ یہ سب تخلیق کرسکتا ہو۔ ایسا کون ہے؟ ایسا ہمیشہ سے ایک ہی تھا…… ایسا ہمیشہ ایک ہی رہے گا…… احد احد۔
مگر انسان نے اس احد کے ساتھ کیا کیا ہے۔ ہر دور میں اس کے شریک ٹھہرا کر اسے گالی دی ہے۔ اس کی توہین کی ہے…… اور آج جب اس نے عیش و لذت کے ان گنت اسباب اسی دنیا میں عطا کر دیے ہیں تو اسے نہ مان کر شرک سے بڑی گالی اسے دے رہا ہے۔
مانا کہ وہ حلیم ہے…… بہت حلیم ہے۔ مگر کب تلک وہ یہ گستاخی برداشت کرے گا۔ سو اس نے انجام کا آغاز شروع کر دیا ہے۔ فاصلے سمٹ رہے ہیں۔ دنیا ایک عالمی بستی بن رہی ہے۔ یہ انتظام اس بات کا ہے کہ اس بستی کے مکینوں کو اس کریم کا آخری پیغام پہنچا دیا جائے۔ یہ بتا دیا جائے کہ خدا کو سب سے بڑھ کر چاہنا اور اس کا بندہ بن کر رہنا نجات کی بنیادی شرط ہے۔ دوسری شرط بندوں کے ساتھ خیرخواہی ہے۔ یہی ایمان ہے۔ یہی اخلاق ہے۔ یہی راہ نجات ہے۔
یہ اس کے عدل کا تقاضا ہے کہ وہ ہر انسان کو بتا دے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ سو اس نے اپنی بات کا ابلاغ آخری دفعہ شروع کر دیا ہے۔ خوش نصیب ہیں جو ہر کام چھوڑ کر ایمان و اخلاق کی اس دعوت کو دنیا تک پہنچانا اپنا مشن بنا لیں۔ خوش نصیب ہیں وہ جو ایمان و اخلاق کی اس دعوت کو زندگی بنا لیں۔ کیونکہ فیصلے کا وقت آرہا ہے۔
اب زیادہ دیر نہیں کہ یہی لوگ خدا کی فردوس میں عیش جاوداں، حیات ابدی، حسن لازوال اور ختم نہ ہونے والی بادشاہی کے وارث بنا کر بسائے جائیں گے۔ اس بستی میں داخلے کا یہ آخری موقع ہے۔ ہوش و گوش والو! آگے بڑھو یہ موقع ہمیشہ کے لیے ختم ہوا چاہتا ہے۔