مرے دشمن مرے قاتل، مرے احباب نثار ۔ ابویحییٰ
خدا اس دنیا کی سب سے باکمال ہستی ہے۔ اس کے جمال و کمال کے نقشے اس کائنات میں ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ مگر اس کے کمال کا سب سے بڑا جلوہ خود انسان کی اپنی ہستی ہے۔ وہ انسان جسے الرحمن نے صفت بیان سے نوازا۔ وہ جو ایک پھول کو دیکھ کر گلزار اور ایک مسکراتی نظر پرتلوار کا مضمون باندھ سکتا ہے۔ وہ احساسات کی وادی میں جمالیات کے ایسے پھول کھلا سکتا ہے جن کی مہک سے ہر صاحب ذوق کی روح جھوم اٹھتی ہے۔
اس انسان پر خدا اگر احسان کر کے اپنی تعریف کا موقع دیدے تو یہ حاصلِ زیست ہے۔ غافلوں کو عہد بندگی یاد دلانا، غیر اللہ کی محبت کے نشے میں مست لوگوں کو مئے توحید کے جام پلانا، گمراہی کے اندھیرے میں ہدایت کی شمع جلانا، یہ وہ اعزاز ہے جس سے بڑا اعزاز کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
لوگ مال و دولت کے لیے جیتے ہیں۔ نام و جاہ کے لیے مرتے ہیں۔ قوم و ملت کے لیے لڑتے ہیں۔ فرقہ و تعصب کے لیے جھگڑتے ہیں۔ حالانکہ جینے کا اگر کوئی مقصد ہے تو یہی ہے۔ یہ ہے تو فقیر بھی بادشاہ ہے اور نہیں ہے تو بادشاہ بھی فقیر ہے۔
کیا یہ کم ہے کہ ترے حسن کی رعنائی سے
میں نے وہ شمعیں جلائی ہیں کہ مہتاب نثار
تیرے پیمانِ وفا سے مرے فن نے سیکھی
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار
تیرے غم نے مرے وجدان کو بخشی وہ کسک
مرے دشمن مرے قاتل، مرے احباب نثار
ایسے خدا میں جینا عجیب چیز ہے مگر ایسے خدا کو بھول کر جینا عجیب تر ہے۔