مہربانی کی مہک ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں میری والدہ سے ملنے ہمارے پرانے محلے سے کچھ خواتین آئیں۔ میں ان کو پہچان نہیں سکا تھا۔ مگر جب میری والدہ نے ان کا تعارف کرایا تو میں انہیں پہچان گیا۔ چودہ پندرہ برس پہلے یہ سب چھوٹی چھوٹی بچیاں تھیں۔ مگر اب ماشاء اللہ یہ تینوں بڑی ہوگئی تھیں اور ان میں سے ایک کی شادی اور دوسری کی منگنی ہوچکی تھی۔
میں گرچہ انہیں نہیں پہچانا تھا مگر وہ سب مجھے پہچان گئی تھیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو میں انہیں اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھمایا کرتا تھا۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا۔ میں نے نئی نئی موٹر بائیک خریدی تھی۔ میں اپنے خاندان کے چھوٹے بچوں کو اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھماتا تھا۔ ایسے میں وہ مجھے اپنے دروازے پر کھڑی ہوکر حسرت بھری نظروں سے دیکھتی تھیں کیوں کہ ان کے گھر میں کسی کے پاس موٹر بائیک نہ تھی۔ ان کی معصوم سی خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں انہیں بھی ساتھ لے جایا کرتا تھا۔
میرے لیے یہ ایک بہت معمولی سی بات تھی۔ مگر محبت اور مہربانی کی یہ بات انہیں ایک طویل عرصے بعد بھی یاد رہی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان نہ نفرت کو بھول پاتا ہے اور نہ محبت اور مہربانی کو فراموش کر پاتا ہے۔ خاص کر جب یہ مہربانی بغیر کسی وجہ اور سبب کے کی جائے۔
آج ہمارے معاشرے میں لوگوں کے دکھ بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے چھوٹی چھوٹی مہربانیاں کرنی چھوڑ دی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ہماری ایک مسکراہٹ، ایک درگزر، ہمدردی کا ایک کلمہ، مہربانی کا ایک عمل چاہے کسی کو کتنا بھی چھوٹا لگے کبھی چھوٹا نہیں ہوتا۔ یہ عمل ایک کمزور اور محروم انسان کے دل میں ہمارا وہ عکس قائم کرتا ہے جو مدتوں نہیں بھلایا جاتا۔ یہ عکس کبھی ایک انسان تک نہیں رکتا بلکہ روشنی بن کر دوسروں میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ انسان اس مہربانی سے دوسروں کے ساتھ مہربانی کرنا سیکھتا ہے۔ یہاں تک کہ پورا معاشرہ محبت کے پھولوں سے مہک اٹھتا ہے۔