مضامین قرآن (81) شخصی رویے: تعصب اور معقولیت ۔ ابویحییٰ
انسان، عقل اور عصبیت
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جب پیدا کیا تو اس کو کرہ ارض پر پائے جانے والے گوناگوں حالات اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے بہت سی خصوصیات عطا کیں۔ ان میں سے پہلی خصوصیت یا صلاحیت انسان کا عقلی وجود، غور و فکر کا ملکہ، سیکھنے اور سمجھنے کی استعداد ہے۔ انسان کو دی جانے والی ایک دوسری اہم چیز انسان کا سماجی اور گروہی طرز زندگی ہے۔ انسان عقلی طور پر دیگر مخلوقات سے بہت بلند ہے، مگر جسمانی طور پر حیوانات سے بہت کمزور ہے۔ اس کی تلافی انسان اس طرح کرتا ہے کہ وہ تنہا رہنے کے بجائے عمر بھر کے لیے جوڑے بناتا ہے اور پھر جوڑوں سے خاندان اور خاندان سے قبیلے اور برادری کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ اجتماعیت انسانی کمزوری کی تلافی کر دیتی ہے اور عقل کے ساتھ مل کر اسے کرہ ارض کی طاقتور ترین مخلوق بنا دیتی ہے۔
انسان کی اس سماجی طرز زندگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان کے جذبات اپنے لوگوں، اپنے علاقے، اپنی روایات و اقدار اور اپنے مذہب و تہذیب سے بہت قوت کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں۔ انسان ان کی حمیت میں جان دے بھی سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے۔ اپنے گروہی مانوسات سے اس طرح وابستہ ہوجانے کا یہ جذبہ حمیت و عصبیت کہلاتا ہے اور یہ ایک ضروری انسانی خصوصیت ہے۔ مگر جب عصبیت کا یہ جذبہ اخلاقی حدود اور عقلی پیمانوں سے ماورا ہوجائے تو تعصب کے اس منفی رویے میں بدلتا ہے جس میں انسان باطل کی حمایت کرتا، سچائی کو رد کرتا، ہر ظلم کا ارتکاب کرتا، ہر معقول کا انکار کر دیتا اور ہر نصیحت کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید تعصب اور معقولیت کے انسانی اوصاف اور شخصی رویوں کو مختلف حوالوں سے زیر بحث لاکر انسان کو حق کے معاملے میں اپنے تعصبات ترک کرکے معقول رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
انبیا کی دعوت کے خلاف تعصب اور ان کا انکار
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی قوموں کی طرف رسول بھیجے گئے تو انھیں اپنی دعوت کے جواب میں انکار اور استہزا کے سوا کچھ نہ ملا۔ اس کفر کی جہاں اور کئی وجوہات تھیں وہاں ایک بنیادی اور اہم ترین وجہ یہ رہی کہ صدیوں کے گزرنے کے بعد لوگ اپنے قدیم معتقدات، خود ساختہ توہمات، جاہلانہ تصورات اور قدیم روایات سے اس درجہ میں مانوس ہوجاتے تھے کہ جب ان پر ان چیزوں کا باطل ہونا، خلاف واقعہ ہونا اور عقل و فطرت کے خلاف ہونا واضح کیا جاتا تو یہ لوگ ایسی نئی اور غیر مانوس دعوت کو سننے ہی سے انکار کر دیتے۔ ان کا صاف صاف کہنا یہ ہوتا تھا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے۔ قرآن مجید نے تقلید آبا اور اسلاف کو سرے سے قابل اعتبار ہی نہیں سمجھا بلکہ صاف کہاکہ اگر پچھلوں کے ہاں کوئی چیز غیر عقلی اور وحی کی ہدایت پر مبنی نہ ہو تو پچھلے کا اس پر ہونا اسے اگلوں کے لیے کوئی حجت نہیں بنا سکتا۔
تعصب کی یہ دیوار اتنی بلند ہوتی ہے کہ کم ہی لوگ اس کو عبور کرنے کی ہمت اپنے اندر پاتے ہیں۔ جو لوگ تعصب کی یہ دیوارعبور کرکے ایمان کی گھاٹی پر چلنے کا حوصلہ کرتے ہیں وہ زیادہ تر جوان لوگ ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن پر ابھی سماجی معتقدات کا رنگ پوری طرح نہیں چڑھا ہوتا۔ قرآن مجید میں اصحاب کہف کا ذکر ایسے ہی نوجوانوں کے طور پر کیا گیا ہے۔ صحابہ کا معاملہ بھی یہی تھا کہ تمام سابقون کی عمر قبول اسلام کے وقت سماج کی لیڈرشپ کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ عمر کے علاوہ لیڈرشپ کا ایک دوسرا مسئلہ ان کے مفادات اور انانیت بھی ہوتے ہیں۔ حق کے اعتراف کی قیمت عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ انسان کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ قیمت دینا آسان نہیں ہوتا اور اس کے برعکس انسان اپنے تعصبات کی آڑ میں چھپنے میں راحت محسوس کرتا ہے۔ تعصبات میں چھپنے کی ایک دوسری وجہ لیڈرشپ کی انانیت ہوتی ہے جو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ حق کا اعتراف کیا جائے کیونکہ ایسا کرنا بظاہر کسی کمتر شخص کی بڑائی کا اعتراف کرکے اپنے مقام و مرتبے سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہوتا ہے۔ چنانچہ ان تمام وجوہات کی بنا پر لوگ اپنے تعصب کو آخری سچائی کے طور پر اختیار کیے رہتے ہیں۔
معقولیت پر مبنی قرآنی دعوت اور متعصبین کا رویہ
قرآن لوگوں کو ان کے تعصبات سے بلند ہوکر تفکر، تذکر، تدبر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے۔ وہ اولو الباب، اولو الابصاراور اصحاب ذی حجر یعنی صاحبان عقل و بصیرت کے سامنے انفس و آفاق اور عقل و فطرت کے روشن دلائل رکھتا ہے۔ وہ حق کا دلیل کی بنیاد پر حق ہونا اور باطل کا عقل و فطرت کی بنیاد پر باطل ہونا ثابت کرتا ہے۔ قرآن مجید کا بیشتر حصہ انھی عقلی دلائل سے بھرا ہوا ہے۔ تعصب میں مبتلا کفار کے پاس قرآن مجید کے ان عقلی دلائل کا کوئی جواب نہیں تھا سوائے تقلید آبا کے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں، دلوں کو بند کرلیا اور حق کی بات کو سننے اور سمجھنے سے انکار کر دیا۔ قرآن مجید اس رویے پر تبصرہ کرتا ہے کہ یہ اندھے بہرے ہیں کہ حق کو پہچان سکیں اور گونگے ہیں کہ اس کا اعتراف کرسکیں۔ یہ وہ رویہ ہے جس پر قرآن مجید جہنم کی وعید سناتا ہے۔
تاہم یہ بات چونکہ ہر شخص پر واضح ہے کہ دلیل کے جواب میں تقلید کو کسی معقول دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا کفار حق کی دعوت کے انکار کی کوئی عقلی اور اخلاقی توجیہ کرنے کے لیے اپنی عقل کا کچھ نہ کچھ استعمال کیا کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں دلیل تو وہ کوئی نہ پیش کر پاتے البتہ کچھ اعترضات، کچھ شبہات اور کچھ نکتہ آفرینیاں کرنا ان کی عقل کی آخری حد تھی۔ چنانچہ کبھی وہ یہ کہتے کہ ہماری من پسند نشانیاں ہمیں دکھا دو اگر تم واقعی دعویٰ رسالت میں سچے ہو۔ اس لیے کہ خدا تو جو چاہے کرسکتا ہے۔ اسی طرح وہ کبھی یہ اعتراض کرتے کہ یہ ہمیں اور ہمارے معبودوں کو جہنم کی وعید دیتے ہیں اور دوسری طرف عیسیٰ کو نبی کہتے ہیں۔ جبکہ عیسی تو مسیحیوں کے معبود ہیں۔ یوں گویا وہ اپنے لوگوں کا تعصب بھڑکاتے کہ انھیں خدا کے سوا دیگر معبودوں سے مسئلہ نہیں بلکہ خاص ہمارے معبودوں سے مسئلہ ہے۔ اسی طرح اپنی باطل دلیلوں اور باتوں سے جدال کرنا، حق کی مخالفت کرنا اور دوسروں کو اس سے روکنا وہ رویے تھے جو قرآن کے منکرین نے اور انبیا کے منکرین نے ہمیشہ اختیار کیے۔ ان سب کے ساتھ خود کو نجات کا مستحق بھی سمجھا اور اپنی حمیت کو حق کی حمیت بھی سمجھتے رہے۔ مگر قرآن مجید نے آخری درجہ میں یہ واضح کیا کہ یہ رویہ باطل ہے اور صرف معقولیت پر مبنی سوچ ہی خدا کے ہاں قابل قبول ہے۔
قرآنی بیانات
”اور (بڑی رعونت کے ساتھ) کہتے ہیں کہ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو، ہمارے دل اُس سے پردوں میں ہیں اور جو کچھ ہمیں سنا رہے ہو، ہمارے کان اُس سے بہرے ہیں اور ہمارے اور تمھارے درمیان ایک حجاب حائل ہے۔ سو جو کچھ تمھیں کرنا ہے، کر گزرو، ہم بھی، جو کچھ کرنا ہے، کر کے رہیں گے۔“ (فصلت5:41)
”اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ اتارا ہے، اُس کی طرف آؤ اور اللہ کے رسول کی طرف آؤ تو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اُس صورت میں بھی جب کہ اُن کے باپ دادا کچھ نہ جانتے ہوں اور نہ راہ ہدایت پر رہے ہوں؟“ (مائدہ104:5)
”یہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہوسکے گا، جب تک وہ یہودی یا نصرانی نہ ہو۔ یہ اِنھوں نے محض آرزوئیں باندھ لی ہیں۔ اِن سے کہو، تم سچے ہو تو (اِس کے لیے) اپنی کوئی دلیل پیش کرو۔ (اِن کی اِس بات میں کوئی حقیقت نہیں)۔“ (البقرہ111:2)
”اِس کے برخلاف جن لوگوں نے اِس کتاب کو نہ ماننے کا فیصلہ کرلیا ہے، اُن کے لیے برابر ہے، تم اُنھیں خبردار کرو یا نہ کرو، وہ نہ مانیں گے۔ اُن کے دلوں اور کانوں پر اب اللہ نے (اپنے قانون کے مطابق) مہر لگا دی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ ہے، اور (قیامت کے دن) ایک بڑا عذاب ہے جو اُن کے لیے منتظر ہے۔“ (البقرہ2 :6-7)
”یہ یہود و نصاریٰ تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے، جب تک اِن کا مذہب اختیار نہ کر لو۔ (لہٰذا) کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے، اور (جان لو کہ) اگر تم اُس علم کے بعد جو تمھارے پاس آچکا ہے، اِن کی خواہشوں پر چلے تو اللہ کے مقابلے میں تمھارا کوئی دوست اور کوئی مدد گار نہ ہوگا۔“ (البقرہ120:2)
”(یہ متنبہ ہو جائیں)، جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اُن کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ہیں۔ اُن کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ہیں۔ اُن کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ہیں۔ وہ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ وہی ہیں جو بالکل غافل ہیں۔“ (الاعراف179:7)
”اُنھوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم تمھاری بات نہ مانیں گے، جب تک تم ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ نہ جاری کر دو۔ یا تمھارے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ پیدا نہ ہو جائے، پھر اُس کے بیچ میں تم بہت سی نہریں نہ دوڑا دو۔ یا جیسا کہ تم کہتے ہو، ہمارے اوپر ٹکڑے ٹکڑے آسمان نہ گرا دو یا اللہ اور اُس کے فرشتوں کو لا کر ہمارے سامنے کھڑا نہ کر دو۔ یا تمھارے پاس سونے کا کوئی گھر نہ ہو جائے یا (ہماری آنکھوں کے سامنے) تم آسمان میں نہ چڑھ جاؤ۔ اور ہم تمھارے چڑھنے کو بھی ماننے کے نہیں ہیں، جب تک تم (وہاں سے) ہم پر کوئی کتاب نہ اتارو جسے ہم پڑھیں اِن سے کہو، پاک ہے میرا پروردگار، کیا میں ایک انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟“ (بنی اسرائیل 90-93:17)
”پھراُس کے نوک پلک سنوارے اور اُس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا اور تمھارے(سننے کے) لیے کان اور (دیکھنے کے لیے) آنکھیں اور (سمجھنے کے لیے) دل بنا دیے تم کم ہی شکرگزار ہوتے ہو!“ (السجدہ32:9)
”(اِن کے بزرگوں کی روایت تو یہ ہے) اور اِدھر اِن کا اصرار ہے کہ یہودی یا نصرانی بنو تو ہدایت پاؤ گے۔ اِن سے کہہ دو: بلکہ ابراہیم کا دین اختیار کرو جو (اپنے پروردگار کے لیے) بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔“ (البقرہ135:2)
”اور کہتے ہیں کہ (اُس کے پیرو بھی تو اُسے اپنا معبود سمجھتے ہیں، پھر) ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ وہ تمھارے سامنے یہ بات محض کج بحثی کے لیے اٹھاتے ہیں، بلکہ یہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ۔“ (الزخرف58:43)
”اور جب اِنھیں دعوت دی جاتی ہے کہ (اپنی اِن باتوں کو چھوڑ کر) اُس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے اتاری ہے تو کہتے ہیں کہ نہیں، بلکہ ہم تو اُسی راہ پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو چلتے پایا ہے۔ کیا اُس صورت میں بھی کہ اگر اِن کے باپ دادوں نے نہ اپنی عقل سے کچھ کام لیا ہو اور نہ راہِ ہدایت پائی ہو؟“ (البقرہ170:2)
”(یہ اس لیے ہوا) کہ اللہ اُس معاملے کا فیصلہ کر دے جس کو ہوکر رہنا تھا تاکہ جس کو ہلاک ہونا ہے، وہ حجت دیکھ کر ہلاک ہو اور جسے زندگی حاصل کرنی ہے، وہ حجت دیکھ کر زندگی حاصل کرے۔ اور اِس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ اللہ سمیع و علیم ہے۔“،(الانفال8:42)
”اور اِن اہل کتاب کے سامنے، (اے پیغمبر)، تم اگر ہر طرح کی نشانیاں بھی پیش کر دو تو یہ تمھارے قبلے کی پیروی نہ کریں گے۔“،(البقرہ145:2)
”ہم اُن کی سرگذشت تمھیں ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے اور اُن کی ہدایت میں ہم نے افزونی عطا فرمائی۔“ (الکہف13:18)
”حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بغیر کسی سند کے، جو اُن کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیتوں میں جھگڑے نکال رہے ہیں، اُن کے دلوں میں تو صرف بڑائی کی ہوس سمائی ہے جس کو وہ کبھی پانے والے نہیں ہیں۔ سو (اِن سے بے پروا ہو جاؤ اور) اللہ کی پناہ مانگتے رہو۔ وہی درحقیقت سننے والا، دیکھنے والا ہے۔“ (المومن40:56)
”(یہ حقیقت ہے تو پھر اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے، (اِس لیے کہ وہی اللہ کو ا ِس طرح ماننے کی دعوت دیتا ہے)، اور جنھیں کتاب دی گئی، اُنھوں نے تو (اللہ کی طرف سے) اِس حقیقت کا علم اُن کے پاس آجانے کے بعد محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے اِس میں اختلاف کیا ہے۔ (یہ صریح انکار ہے)، اور جو اللہ کی آیتوں کے اِس طرح منکر ہوں، وہ اُس سے بے خوف نہ رہیں، اِس لیے کہ اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔“ (ال عمران19:3)
”(تم یہ کرو)اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو فرقوں میں بٹ گئے اور جنھوں نے نہایت واضح ہدایات اپنے پاس آجانے کے بعد اختلاف کیا اور (اب) وہی ہیں کہ جن کے لیے بڑی ہول ناک سزا ہے۔“ (ال عمران105:3)
”اِن سے پوچھو، اے اہل کتاب، تم اُن لوگوں کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہو جو ایمان لائے ہیں؟ تم اِس میں عیب ڈھونڈتے ہو، دراں حالیکہ تم اِس کے گواہ بنائے گئے ہو؟ (اِس پر غور کرو) اور (یاد رکھوکہ) جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے۔“ (ال عمران99:3)
”(یہ عقل کے اندھے ہیں، اِس لیے پیغمبر پر ایمان کے لیے نشانی مانگتے ہیں، ورنہ) حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کے بنانے میں اور دن اور رات کے باری باری آنے میں اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو بصیرت والے ہیں۔“ (ال عمران190:3)
”اور (تمھیں اگر ہماری اِس بات میں کوئی تردد ہے تو) جن دو گروہوں میں مڈ بھیڑ ہوئی، اُن کی سرگذشت میں تمھارے لیے ایک بڑی نشانی ہے۔ ایک ماننے والوں کا گروہ جو اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا نہ ماننے والوں کا جو شیطان کی راہ میں لڑ رہا تھا۔ وہ (بدر کے میدان میں) ماننے والوں کو کھلم کھلا اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جس کی چاہتا ہے (اِسی طرح) اپنی تائید سے مدد فرماتا ہے۔ اِس میں اُن کے لیے یقینا بڑی بصیرت ہے جو آنکھوں والے ہوں۔“ (ال عمران13:3)
”فجر گواہی دیتی ہے، اور چاند کی ہر دس راتیں، اور جفت اور طاق مہینا، اور رات بھی جب وہ رخصت ہوتی ہے کہ صبح قیامت ہونی ہے۔ اِس میں کسی عاقل کے لیے کیا ہے کوئی بڑی گواہی؟“ (الفجر89:1-5)
”(اپنے گروہ سے باہر یہ کسی حق کو نہیں مانتے، لہٰذا) یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کی کوئی بنیاد نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی بنیاد نہیں، دراں حالیکہ دونوں کتاب الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں۔ اِسی طرح بالکل اِنھی کی سی بات اُن لوگوں نے بھی کہی جو (خدا کی کتاب کا) کوئی علم نہیں رکھتے۔ چنانچہ اب اللہ اِن کے درمیان قیامت کے دن ہی اِس معاملے کا فیصلہ کرے گا جس میں یہ جھگڑ رہے ہیں۔“،(البقرہ113:2)
”بلکہ یہ منکرین سخت تکبر اور ضدم ضدا میں مبتلا ہیں۔ (اِن کا خیال ہے کہ اِن کے لیے عذاب کہاں! اِن سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کر دیں تو اُنھوں نے ہائے پکار کی (کہ اپنے آپ کو بچالیں)، مگر وہ بچنے کا وقت نہیں تھا۔ اِنھیں تعجب ہے کہ اِن کے پاس ایک خبردار کرنے والا اِنھی میں سے آگیا ہے۔ اور اِن منکروں نے کہہ دیا کہ یہ ساحر ہے، سخت جھوٹا ہے۔ کیا اِس نے اتنے خداؤں کو ایک خدا بنا دیا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ اِن کے سردار اٹھ کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔ بے شک، یہی چیز مطلوب ہے۔ ہم نے یہ بات اِس آخری ملت میں تو کبھی سنی نہیں۔ کچھ نہیں، یہ (اِس کی) گھڑی ہوئی ہے۔ کیا یہ یاددہانی ہم میں سے اِسی پر نازل کی گئی ہے؟ نہیں، یہ باتیں کچھ نہیں، بلکہ یہ میری یاددہانی کی طرف سے شک میں ہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اِنھوں نے اب تک میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا ہے۔“ (ص2-8:38)
”افسوس بندوں پر، اُن کے پاس جو رسول بھی آیا، وہ اُس کا مذاق ہی اڑاتے رہے ہیں۔“،(یسین30:36)
”اُس وقت کو یاد رکھو، جب اِن منکروں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کرلی، زمانہ جاہلیت کی سی حمیت تو اللہ نے اپنے رسول پر اور اُس کے ماننے والوں پر اپنی طمانیت نازل فرمائی اور اُنھیں تقویٰ کی بات کا پابند رکھا اور وہ اُس کے حق دار اور اُس کے اہل بھی تھے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔“ (فتح 26:48)
”اِسی طرح، (اے پیغمبر)، ہم نے تم سے پہلے جس بستی میں بھی کوئی خبردار کرنے والا بھیجا ہے، اُس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک برتر طریقے پر پایا ہے اور ہم اُنھی کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔“،(الزخرف43:23)
”سو کیا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھاری طرف اتارا گیا ہے، وہ حق ہے، اُس شخص کے مانند ہو جائے گا جو اندھا ہے؟ (یہ ایک یاددہانی ہے اور) یاددہانی تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔“، (الرعد19:13)
”اور وہی ہے جس نے زمین کو بچھایا اور اُس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑے اور ندیاں بہا دیں اور اُس میں ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے۔ وہ رات کو (چادر کی طرح) دن پر اُوڑھا دیتا ہے۔ یقیناً اِن سب چیزوں میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کریں۔ اور زمین میں پاس پاس کے قطعے ہیں، انگوروں کے باغ ہیں، کھیتی ہے، کھجور کے درخت ہیں، جن میں جڑواں بھی ہیں اور اکہرے بھی۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب کیے جاتے ہیں، لیکن اُن کے پھلوں میں ہم ایک کو دوسرے پر برتری دے دیتے ہیں۔ یقیناً اِن سب چیزوں میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں۔“ (الرعد3-4:13)
”(ہرگز نہیں، یہ قرآن اِسی حقیقت کی یاددہانی کرتا ہے)، یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے، (اے پیغمبر)، تمھاری طرف نازل کی ہے۔ اِس لیے کہ لوگ اِس کی آیتوں پر غور کریں اور اِس لیے کہ عقل والے اِس سے یاددہانی حاصل کریں۔“ (ص29:38)