مضامین قرآن (75) اخلاقی طور پر مطلوب و غیر مطلوب رویے: قول احسن یا اچھی گفتگو ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید نے لوگوں کو جہاں اور بہت سے اخلاق عالیہ کی تعلیم دی ہے وہیں انھیں اچھی گفتگو کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ اس لیے کہ گفتگو ہی اعلیٰ اخلاق کا پہلا اظہار ہوتی ہے۔ اس کے لیے قرآن مجید نے تین طریقے اختیار کیے ہیں۔ ایک اچھی گفتگو کے لیے کچھ تعبیرات استعمال کی ہیں جو اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اچھی گفتگو کے خصائل کیا ہوتے ہیں۔ دوسرے قرآن مجید نے اچھی گفتگو کے کچھ متعین اوصاف بیان کیے ہیں یا ان منفی چیزوں کو بیان کیا ہے جو گفتگو کو اچھا نہیں رہنے دیتیں۔ تیسرے قرآن مجید نے اس طرز گفتگو کی طرف توجہ دلائی ہے جس کا اظہار زبان قال سے نہیں بلکہ زبان حال سے ہوتا ہے اور جسے آج کل کی اصطلاح میں باڈی لینگویج کہا جاتا ہے۔ ذیل میں ہم الگ الگ ان تینوں کو بیان کریں گے۔
اچھی گفتگو کے لیے قرآنی تعبیرات
اچھی گفتگو کو بیان کرنے کے لیے قرآن مجید نے جو تعبیرات اختیار کی ہیں ان میں سے پہلی قول احسن ہی ہے۔ اس کا مطلب ہی اچھی بات کہنا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب بھی انسان بات کرے تو نیکی اور اچھائی کی بات کرے گرچہ یہ بھی اس میں شامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان حالات اور ضروریات کے لحاظ سے لوگوں سے ہر طرح کی گفتگو کرتا ہے۔ قول احسن میں اصل زور اس پر ہے کہ بات اچھے طریقے سے کی جائے۔ اسے ہم اپنی زبان میں شائستہ گفتگو کہتے ہیں۔ یہ وہ گفتگو اور لب ولہجہ ہوتا ہے جو سننے والے پر اچھا تاثر ڈالتا ہے۔ اس طرز تخاط بمیں الفاظ کا چناؤ اور انداز گفتگو دونوں ایسے ہوتے ہیں کہ سننے والے کو کسی پہلو سے برا نہیں لگتا۔
قول احسن کے علاوہ ایک اور تعبیر قول معروف کی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی معاشرے میں تہذیب اور شرافت کے ساتھ گفتگو کے جو معیارات اچھے سمجھے جاتے ہیں، ان کو ملحوظ رکھ کر گفتگو کی جائے اور غیر شریفانہ اور غیر معیاری زبان سے پرپیز کیا جائے۔ ایک اور تعبیر قول سدید کی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بات سیدھی کی جائے۔ وہ بات کی جائے جو حق و انصاف پر مبنی ہو۔ جو کسی ظلم، زیادتی، نافرمانی یا منکر پر مبنی نہ ہو۔ اس ضمن کی ایک اور تعبیر جو قرآن نے استعمال کی ہے وہ قول میسور ہے۔ اس سے مراد وہ انداز گفتگو ہے جو تلخی، ترشی، سختی، بدتمیزی اور بد تہذیبی جیسی چیزوں سے پاک اور نرمی اور ہمدردی پر مبنی ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید جب قول احسن یا اچھی بات کی تلقین کرتا ہے تو اس میں یہ تمام چیزیں شامل ہوتی ہیں جو قول معروف، قول سدید اور قول میسور کی تعبیرات سے ظاہر ہوتی ہیں۔
گفتگو کے اوصاف
اچھی گفتگو کی تلقین کے ضمن میں قرآن مجید کا دوسرا طریقہ ان اوصاف کی نشان دہی ہے جو گفتگو کو اچھا یا برا بناتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس ضمن میں گفتگو کے آہنگ اور لب و لہجہ ہے کو بہت نمایاں کیا ہے۔ قرآن مجید نے سورہ لقمان(19:31) میں گدھے کی آواز کو بطور مثال پیش کرکے یہ بتایا ہے کہ اس طرح کا چیخنے چلانے والا لہجہ جب انسان اختیار کرتے ہیں تو یہ کتنا برا رویہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ نرم لب و لہجے میں گفتگو کرنی چاہیے۔ چیخ و پکار کے ساتھ گفتگو کرنا عام طور پر جہلا کا طریقہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے یہ تلقین کی ہے کہ جاہلوں کے جواب میں سلام کرکے الگ ہوجایا جائے۔ ایسے لوگ اپنی ہفوات، لغویات اور جہالت کے ساتھ آمادہ پیکار ہوجائیں تو قرآن کی تلقین ہے کہ معافی و درگزر کی راہ اختیار کی جائے، اچھی بات کی تلقین کی جائے اور اعراض کا راستہ اختیار کرلیا جائے۔ انسان یہ نہیں کرتا تو آخرکار اپنے چیخنے چلانے کی نوبت آہی جاتی ہے۔
اسی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بندہ مومن جب گفتگو کرے تو اس کے پیش نظر یہ بات ہو کہ اسے بہرحال نیکی کی تلقین کرنی ہے اور برائی کی شناعت کو واضح کرنا ہے۔ اسے لوگوں کو حق کی تلقین کرنی ہے اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کرنی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ہر وقت کرنے کے کام نہیں، مگر جب حالات کا تقاضا ہو اور وقت کی پکار ہو تو بندہ مومن اپنی گفتگو کے ذریعے سے اپنی اس ذمہ داری کو ضرور نبھاتا ہے۔ قرآن مجید نے یہ توجہ دلائی ہے کہ ایک بندہ مومن کا اللہ کی طرف بلانے کا اس کا قول ہمیشہ ان اعمال کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا ہے جنھیں اعمال صالحہ کہا جاتا ہے۔ ایسے شخص کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ ایسے کلام کے حامل شخص کی ایک اور خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ حکمت اور دلپذیر نصیحت سے آراستہ ہوتی ہے اور کبھی بحث مباحثے کی نوبت آجائے تو اعلیٰ اخلاق پر مبنی اس طرز گفتگو کو نہ چھوڑا جائے جو اللہ کو پسند ہے اور جسے قرآن مجید کے حوالے سے اوپر ہم نے قول سدید، قول معروف، قول احسن اور قول میسور کی اصطلاحات کے پس منظر میں بیان کیا ہے۔ یہی وہ چار اصطلاحات ہیں جو قرآن مجید کی روشنی میں اچھی گفتگو کے اوصاف کو بیان کرتی ہیں۔
ان مثبت خصوصیات کے علاوہ قرآن مجید نے گفتگو کے حوالے سے بہت سے منفی رویے بھی بیان کیے ہیں۔ ان میں ایک رویہ ایذا رسانی کا ہے۔ یعنی انسان گفتگو ایسی کرے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے اور جس کی ایک نمایاں ترین شکل احسان کرکے اسے جتلانا ہے۔ اسی طرح لوگوں کا مذاق اڑانا، انھیں برے القاب سے پکارنا، طعنہ و تشنیع کرنا بھی وہ چیزیں ہیں جن کی برائی پر لوگوں کو متوجہ کرکے ان سے روکا گیا ہے۔ لوگوں کی عیب جوئی، چغل خوری، پیٹھ پیچھے لوگوں کی برائی کرنا جسے غیبت کہتے ہیں، جھوٹ اور بہتان بھی زبان سے کی جانے والی وہ برائیاں ہیں جن کا ارتکاب عموماً کیا جاتا ہے۔ ان سے بھی قرآن مجید میں سختی کے ساتھ روکا گیا ہے۔ بہت زیادہ قسمیں کھانا، جھوٹی قسمیں کھانا اور لغو اور لایعنی گفتگو بھی وہ چیزیں ہیں جن کی شناعت پر قرآن مجید نے مختلف طریقوں سے متوجہ کیا ہے۔
باڈی لینگویج کے منفی رویے
انسان کی باتیں اس کی سوچ اور انداز فکر کا اظہار ہوتی ہیں۔ لیکن انسان اپنی سوچ اور انداز فکر کا اظہار ہمیشہ الفاظ کے ذریعے سے نہیں کرتا بلکہ بارہا اس کے لیے جسمانی حرکات و سکنات سے مدد لیتا ہے جسے عام طور پر باڈی لینگویج کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے جہاں منفی گفتگو کے ان مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے جن کا اظہار انسان زبان سے کرتا ہے، وہیں باڈی لینگویج یا جسم کی زبان کے ایسے اظہار کی مذمت بھی کی ہے جو بداخلاقی پرمشتمل ہو۔ اس میں سب سے بنیادی چیز انسان کی چال ہے۔ انسان کا سینہ جب تکبر کی آماجگاہ ہوتا ہے تو وہ زمین پر اکڑ کر چلتا ہے۔ اس کے برعکس شرفا اور مہذب لوگوں کی چال میں ایک نوعیت کا اعتدال اور آہستگی ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے ان دونوں قسموں کی چال کا فرق واضح کرکے بتایا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کی چال میں عاجزی ہوتی ہے اور وہ متکبروں کی طرح اکڑ کر نہیں چلتے۔
اسی طرح حق کا انکار کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر چل دینے نیز گال پھلانے، تیوری چڑھانے اورمنہ بنا کر چہرے کے تاثرات سے اپنی بیزاری، ترش روئی اور بے پروائی کے اظہار کرنے کی برائی کو بھی قرآن مجید نے واضح کیا۔ ان کے علاوہ اشاروں کے ذریعے سے لوگوں پر طعن کرنے اور ان کا تمسخر اڑانے کے عمل کی بھی قرآن مجید نے سخت مذمت کی ہے۔ گفتگو کے ان تمام رذائل سے پاک اور خصائل سے متصف ہستیاں حضرات انبیا علیھم السلام کی ہوتی ہیں۔ قرآن مجید نیرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی پس منظر میں صاحب خلق عظیم (القلم4:68) قرار دیا ہے۔
قرآنی بیانات
”اور (یتیم اگر ابھی نادان اور بے سمجھ ہوں تو) اپنے وہ اموال جن کو اللہ نے تمھارے لیے قیام و بقا کا ذریعہ بنایا ہے، اِن بے سمجھوں کے حوالے نہ کرو۔ ہاں، اِن سے فراغت کے ساتھ اُن کو کھلاؤ، پہناؤ اور اُن سے بھلائی کی بات کرو۔“،(النساء5:4)
”لیکن تقسیم کے موقع پر جب قریبی اعزہ اور یتیم اور مسکین وہاں آجائیں تو اُس میں سے اُن کو بھی کچھ دے دو اور اُن سے بھلائی کی بات کرو۔ اُن لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو اگر اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑتے تو اُن کے بارے میں اُنھیں بہت کچھ اندیشے ہوتے۔ سو چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور (ہر معاملے میں) سیدھی بات کریں۔“،(النساء8-9:4)
”ایک اچھا بول اور (ناگواری کا موقع ہو تو) ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے جس کے ساتھ اذیت لگی ہوئی ہو۔ اور (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اِس طرح کی خیرات سے اللہ بے نیاز ہے، (اِس رویے پر وہ تمھیں محروم کر دیتا، لیکن اُس کا معاملہ یہ ہے کہ) اِس کے ساتھ وہ بڑا بردبار بھی ہے۔ ایمان والو، احسان جتا کر اور (ددسروں کی) دل آزاری کر کے اپنی خیرات کو اُن لوگوں کی طرح ضائع نہ کرو جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں……“،(البقرہ263-264:2)
”اور یاد کرو، جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ اور قرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو گے۔ اور عہد لیا کہ لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز کا اہتمام کرواور زکوٰۃ ادا کرو۔ پھر تم میں سے تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب (اُس سے) پھر گئے اور حقیقت یہ ہے کہ تم پھر جانے والے لوگ ہی ہو۔“،(البقرہ83:2)
”اور اگر اِن (ضرورت مندوں) سے اعراض کرنا پڑے، اِس لیے کہ ابھی تم اپنے پروردگار کی رحمت کے انتظار میں ہو، جس کی تمھیں امید ہے، تو اِن سے نرمی کی بات کہو۔“،(بنی اسرائیل28:17)
”اور لوگوں سے بے رخی نہ کرو اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، اِس لیے کہ اللہ کسی اکڑنے اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو، حقیقت یہ ہے کہ سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔“،(لقمان19:31 18-)
”(اِن کے ماننے والوں کو اب اور کیا سمجھایا جائے؟ اِس لیے) درگذر کرو، (اے پیغمبر)، نیکی کی تلقین کرتے رہو اور اِن جاہلوں سے اعراض کرو۔“،(الاعراف199:7)
”(وہی رحمٰن ہے) اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جاہل اُن سے الجھنے کی کوشش کریں تو اُن کو سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں۔“،(الفرقان63:25)
”(تم اِن کو اللہ کی طرف بلا رہے ہو، اے پیغمبر)، اور اُس سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں برداروں میں ہوں!“،(حم السجدہ33:41)
”تم، (اے پیغمبر)، اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دعوت دیتے رہو حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ، اور اِن کے ساتھ اُس طریقے سے بحث کرو جو پسندیدہ ہے۔ یقیناً تیرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ اُن کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں۔“،(النحل125:16)
”ایمان والو، (اِسی اخوت کا تقاضا ہے کہ) نہ (تمھارے) مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں۔ اور نہ اپنوں کو عیب لگاؤ اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو برے القاب دو۔ (یہ سب فسق کی باتیں ہیں، اور) ایمان کے بعد تو فسق کا نام بھی بہت برا ہے۔ اور جو (اِس تنبیہ کے بعد بھی) توبہ نہ کریں تو وہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔ ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو، اِس لیے کہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔ اور (دوسروں کی) ٹوہ میں نہ لگو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے؟ سو اِسے تو گوارا نہیں کرتے ہو، (پھر غیبت کیوں گوارا ہو! تم اللہ سے ڈرو۔ یقیناً، اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔“،(الحجرات11-12:49)
”(ایمان والو، یہ منافق تم پر زیادتی کریں اور تم جواب دینا چاہو تو دے سکتے ہو، اِس لیے کہ) اللہ مظلوم کے سوا کسی کا بُری بات کہنا پسند نہیں کرتا اور اللہ سمیع و علیم ہے۔“،(النساء148:4)
”اِس لیے تم اِن جھٹلانے والوں کی کسی بات پر کان نہ دھرو۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ تم ذرا نرم پڑو، پھر یہ بھی نرم پڑ جائیں گے۔ ہرگز کان نہ دھرو کسی ایسے شخص کی بات پر جو بہت قسمیں کھانے والا ہے، بے وقعت ہے،“،(القلم 10-12:68)
”……جو لغویات سے دور رہنے والے ہیں۔……“،(المومنون3:23)
”پھر (ادھر ادھر) دیکھا، پھر تیوری چڑھائی اور منہ بنایا۔ پھر پلٹا اور اکڑا، پھر بولا: یہ محض (زبان و بیان کی) جادوگری ہے۔ (وہی) جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔(یہ کوئی الہام نہیں ہے)۔ یہ محض انسان کا کلام ہے۔“،(المدثر21-25:74)
”تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو تم پر اشارے کرتا اور تمھیں عیب لگاتا ہے، (اے پیغمبر)۔“،(ھمزہ1:104)
”جولوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو(تہمتیں لگا کر) بغیر اس کے کہ انھوں نے کچھ کیا ہو، اذیت دے رہے ہیں، انھیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انھوں نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سرلے لیا ہے“،(الاحزاب57:33)
”تم نے دیکھا نہیں اُنھیں جو اُن لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے؟ وہ نہ تم میں سے ہیں، نہ اُن میں سے، اور جانتے بوجھتے اپنے اِس جھوٹ پر (کہ تمھارے ساتھ ہیں) قسمیں کھاتے ہیں۔“،(المجادلہ14:58)