مضامین قرآن (65) حقوق العباد: کمزور طبقات کے ساتھ حسن سلوک ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید نے حقوق العباد کو قریبی تعلقات اور رشتوں تک محدود ہی نہیں رکھا بلکہ اس دائرے کو ان لوگوں تک بھی پھیلا دیا جو معاشرے کے ضعیف طبقات ہیں۔ اس میں قرآن مجید نے مزید یہ اہتمام کیا ہے کہ ان کے حقوق کی طرف الگ سے توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ ان کا ذکر رشتہ داروں اور قریبی تعلقات کے ساتھ کیا ہے۔ اس طرح قرآن نے یہ واضح کیا ہے کہ ان ضعیف اور کمزور لوگوں کا حق وہی ہے جو والدین اور رشتہ داروں کا حق ہے۔ اور جس طرح والدین اور رشتہ داروں اور دیگر تعلقات میں تعلقات کی قربت وجہ احسان و انفاق بنتی ہے اسی طرح ان ضعفا کا ضعف و محرومی اور ان کی بے بسی ہی ان کو انسان کے اچھے رویے کا مستحق بنا دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ قرآن مجید نے اجتماعی اموال کے خرچ کی مدات کو جہاں متعین کیا ہے وہاں بھی ان طبقات کا خصوصی ذکر کرکے یہ واضح کیا ہے کہ افراد کے ساتھ یہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ضعیف طبقات کا بوجھ اٹھائے۔
ذیل میں ان کمزور طبقات کی تفصیل قرآن مجید کی روشنی میں کی جارہی ہے۔
یتیم اور بیوائیں
معاشرے کے کمزور طبقات میں قرآن مجید عام طور پر یتیموں کا ذکر سب سے پہلے کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک یتیم بچہ کئی پہلوؤں سے محرومی سے گزرتا ہے۔ ایک یتیم بچے کو کوئی مالی تنگ دستی اور پریشانی نہ بھی ہو تب بھی صرف یہی محرومی اپنی جگہ بہت بڑی محرومی ہے کہ ایک کمزور و ناتواں بچے کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے۔ اب کوئی نہیں جو اس کی انگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ چلائے۔اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھے۔ زندگی کی تلخیوں اور ناکامیوں میں اسے حوصلہ اور سہارا دے۔ اس کے امور کی نگہداشت کرے۔ زمانہ کی دست برد سے اس کا تحفظ کرے۔ زندگی کے سرد و گرم میں اس کی رہنمائی کرے۔
اس کے برعکس ایسے یتیم کی عزت نفس لوگوں کی ڈانٹ پھٹکار کا پہلا نشانہ بنتی ہے۔ اس کا مال بدنیت لوگوں کا آسان ہدف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ باپ کا سایہئ عاطفت سر سے اٹھنے کے بعد یتیم ہر اعتبار سے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ اس کی ذمہ داری لوگوں کو ایک بھاری پتھر محسوس ہوتی ہے۔ اس پر مال خرچ کرنا ایک کار لاحاصل اور اس کے معاملات کی نگہداشت ایک مصیبت محسوس ہوتی ہے۔ان سب کے ساتھ قدیم پدرسری معاشرے کی وہ حقیقت پیش نظر رہے جس میں عورتوں کی اپنی کوئی حیثیت نہ تھی اور باپ ہی بچوں کے تحفظ اور ان کی ضروریات کی فراہمی کا اصل ذمہ دار تھا۔ ایسے میں کسی عورت کا شوہر مرجاتا تو اسے اپنے تحفظ کے لیے دوسری شادی کرنا پڑجاتی۔ جس کے بعد بچے یا تو دوسرے رشتہ داروں کے رحم و کرم پر رہ جاتے یا پھر سوتیلے باپ کے سائے تلے پروان چڑھتے۔
ایسے میں قرآن مجید نے یتیموں کے حقوق کو ضعیف طبقات میں سب سے مقدم رکھ کر ان کی طرف خصوصی توجہ دلائی ہے۔ یتیم رشتہ دار ہو، اجنبی ہو، سرپرستی میں ہو یا نہیں ہو، ہر شکل میں ان کے حقوق کی طرف خصوصی توجہ دلائی گئی ہے۔ ان سے حسن سلوک کا حکم ہے۔ ان پر انفاق کرنے کی تعلیم ہے۔ ان کے مال میں ناجائز تصرف پر جہنم کی انتہائی سخت وعید کی ہے۔ ان سے بدسلوکی پر ہلاکت کی خبر دی گئی ہے۔ مردوں کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی وہ اجازت جو عام طور پر ہمارے ہاں مردوں کا شرعی حق سمجھی جاتی ہے، دراصل اسی پس منظر میں دی گئی ہے کہ معاشرے میں یتیموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے لوگ ان عورتوں سے شادیاں کرلیں جن کے معصوم بچے ہوں۔ اس طرح بیوہ عورتوں کو بھی سہارا دینے کا انتظام کیا گیا اور ان کی سرپرستی کا بھی بندوبست کیا گیا۔ لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی خواتین اور ان کے بچوں کے حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔
فقراء، مساکین اور سائلین
اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اپنی جس حکمت بالغہ کے تحت بنائی ہے اس میں خدائی میزان عدل میں ہر شخص کو یکساں نہیں رکھا گیا ہے۔ یہ فرق جہاں اور پہلوؤں سے پایا جاتا ہے وہیں مالی طور پر بھی لوگوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس دولت کے انبار ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ خوشحال اور کھاتے پیتے ہیں۔ کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی ضروریات پوری کرنے سے بھی خود کو عاجز پاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو نان شبینہ کے بھی محتاج ہوتے ہیں۔ ان مالی طور پر کمزور اور محروم لوگوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو تنگ دستی سے مجبور ہوکر ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی عزت نفس یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔
چنانچہ اس پس منظر میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بار بار اور مختلف پیرائے میں لوگوں کو ابھارا ہے کہ وہ اپنا مال ایسے محروم، مسکین، فقیر اور محتاج لوگوں پر خرچ کریں۔ اس راہ میں خرچ کرنے پر لوگوں کو ابھارنے کے لیے یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ جو خرچ کریں گے وہ سات سو گنا تک ان کو بڑھا کر لوٹایا جائے گا۔ اس انفاق میں زکوٰۃ کی لازمی مد بھی شامل ہے اور وہ نفلی انفاق بھی ہے جو انسان اللہ کی رضا کے لیے اضافی طور پر کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید نے ان لوگوں کی شدید مذمت بھی کی ہے جو نہ صرف خود بخل کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی انفاق سے روکتے ہیں۔ اپنی بخالت کے لیے بے ہودہ عذر تراشتے ہیں۔ یہاں تک کہ کھانے کھلانے جیسی بنیادی انسانی ضرورت کو بھی پورا نہیں کرتے۔
چنانچہ مالی طور پر محروم اور ضرورت مند فقیر، مسکین اور محتاج لوگ چاہے مانگیں یا نہ مانگیں یہ ان کا حق ہے کہ ان پر اہل ثروت اپنا مال خرچ کریں۔
مسافروں کی مد
کمزور اور ضعیف طبقات کی فہرست جن پر انفاق کا حکم قرآن مجید دیتا ہے، ان میں مسافر کی مد ایسی ہے جو شاید کسی انسان کے تصور میں بھی نہیں آسکتی۔ حتیٰ کہ ہمارے اہل علم قرآن میں بیان کردہ اس مد کو جب بیان کرتے ہیں تو عام طور پر اس پر یہ شرط بڑھا دیتے ہیں کہ مالدار مسافر اگر محتاج ہوجائے تب وہ اس مد کے تحت آتا ہے۔ جبکہ عقل عام یہ واضح کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص محتاج ہوجاتا ہے تو وہ مسکین کی مد کے تحت پہلے ہی مدد کا مستحق ہوجاتا ہے۔ مسافر کے عنوان سے اسے بیان کرنا اور باربار بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسافر اپنی مالی حیثیت کے لحاظ سے نہیں بلکہ اپنی نفسیات کے لحاظ سے ایک ضرورت مند شخص ہوتا ہے۔ گھر سے نکلنے اور وطن سے دوری کے بعد انسان نفسیاتی طور پر دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔ اس کے پاس کھانے پینے، سفر کرنے اور رہائش کے پیسے ہوتے ہیں، لیکن اس کی نفسیات میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ اسے احتیاط سے خرچ کرنا ہے۔ اس کے وسائل محدود ہیں۔ وہ مستقل طور پر عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے۔ ایسے میں قرآن نے مسافروں پر خرچ کا حکم دے کر دراصل کمزور لوگوں کے ایک گروہ کے تحفظ کا اہتمام کیا ہے۔ اس نے لوگوں کو یہ تلقین کی ہے کہ وہ مسافروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ ان کی مدد کریں۔ ان کی ضروریات پر خرچ کرنے کو اللہ کے حکم کی تعمیل سمجھیں۔ ساتھ میں حکومت کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ مسافروں کے لیے باسہولت راستے، اچھی رہائش اور ان کی دیگر ضروریات کا بندوبست کریں۔
ضعیف طبقات پر انفاق اور حسن سلوک کی حکمت
یتیم، مسکین، محروم اور مسافر پر خرچ کا حکم دے کر قرآن مجید نے نہ صرف ایک اخلاقی تقاضے کی طرف توجہ دلائی ہے بلکہ معاشرے میں اخوت، بھائی چارے اور انسانیت کے فروغ کی بنیاد بھی رکھ دی ہے۔ انسان والدین، رشتہ داروں اور دیگر قریبی تعلقات پر جب خرچ کرتا ہے تو لینے والا کسی نہ کسی پہلو سے اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ مگر جب ان ضعیف طبقات پر انفاق ہوتا ہے تو سوائے انسانیت کے کوئی دوسرا رشتہ سامنے نہیں ہوتا۔ ایسے میں لینے والا اپنے سامنے انسانیت کو زندہ دیکھتا ہے۔ پھر وہ خود بھی دینے والے، امراء اور صاحب حیثیت طبقات کا خیر خواہ بن کر زندگی گزارتا ہے۔
اس کے برعکس جس معاشرے میں ضعیف طبقات کے حقوق سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے وہاں نہ صرف انسانیت کی موت واقع ہوتی ہے بلکہ یتیم، مکسین اور محروم لوگ جرائم کا راستہ اختیار کرکے پیسے والے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ یوں معاشرے میں فساد پھیلتا ہے اور جان، مال، آبرو کی امان اٹھ جاتی ہے۔
قرآنی بیانات
(یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے وفا کا حق مذہب کی کچھ رسمیں پوری کر دینے سے ادا ہو جاتا ہے۔ اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کے ساتھ وفا داری صرف یہ نہیں کہ تم نے (نماز میں) اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کرلیا، بلکہ وفا داری تو اُن کی وفا داری ہے جو پورے دل سے اللہ کو مانیں اور قیامت کے دن کو مانیں اور اللہ کے فرشتوں کو مانیں اور اُس کی کتابوں کو مانیں اور اُس کے نبیوں کو مانیں اور مال کی محبت کے باوجود اُسے قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور مانگنے والوں پر اور لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں خرچ کریں، اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔“، (البقرہ177:2)
”اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ (جنگ ہوئی اور لوگ مارے گئے تو اُن کے) یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ کہہ دو: جس میں اُن کی بہبود ہو، وہی بہتر ہے۔ اور اگر تم (اُن کی ماؤں سے نکاح کر کے) اُنھیں اپنے ساتھ شامل کرلو تو وہ تمھارے بھائی ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ کون بگاڑنے والا ہے اور کون اصلاح کرنے والا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو (اِس کی اجازت نہ دے کر) تمھیں مشقت میں ڈال دیتا۔ بے شک، اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔“،(البقرہ220:2)
”اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرنے والوں کے اِس عمل کی مثال اُس دانے کی ہے جس سے سات بالیں نکلیں، اِس طرح کہ ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اللہ (اپنی حکمت کے مطابق) جس کے لیے چاہتا ہے، اِسی طرح بڑھا دیتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑی وسعت والا ہے، وہ ہر چیز سے واقف ہے۔“،(البقرہ261:2)
”یہ خاص کر اُن غریبوں کے لیے ہے جو اللہ کی راہ میں گھرے ہوئے ہیں، (اپنے کاروبار کے لیے) زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے، اُن کی خودداری کے باعث ناواقف اُن کو غنی خیال کرتا ہے، اُن کے چہروں سے تم اُنھیں پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔ (اُن کی مدد کرو) اور (سمجھ لو کہ اِس مقصد کے لیے) جو مال بھی تم خرچ کرو گے، اُس کا صلہ تمھیں لازماً ملے گا، اِس لیے کہ اللہ اُسے خوب جانتا ہے۔“،(البقرہ273:2)
”اور یاد کرو، جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ اور قرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو گے۔ اور عہد لیا کہ لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔“ (البقرہ83:2)
”(اللہ سے ڈرو) اور یتیموں کے مال اُن کے حوالے کر دو اور اُن کے لیے اُن کے اچھے مال کو اپنے برے مال سے نہ بدلو اور نہ اُن کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر کھاؤ، اِس لیے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
اور اگر اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو اُن کے ساتھ جو عورتیں ہیں، اُن میں سے جو تمھارے لیے موزوں ہوں، اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ پھر اگر ڈر ہو کہ (اُن کے درمیان) انصاف نہ کر سکو گے تو (اِس طرح کی صورت حال میں بھی) ایک ہی بیوی رکھو یا پھر لونڈیاں جو تمھارے قبضے میں ہوں۔ یہ اِس کے زیادہ قریب ہے کہ تم بے انصافی سے بچے رہو۔“،(النساء2-3:4)
”(وراثت کی) تقسیم کے موقع پر جب قریبی اعزہ اور یتیم اور مسکین وہاں آجائیں تو اُس میں سے اُن کو بھی کچھ دے دو اور اُن سے بھلائی کی بات کرو۔ اُن لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو اگر اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑتے تو اُن کے بارے میں اُنھیں بہت کچھ اندیشے ہوتے۔ سو چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور (ہر معاملے میں) سیدھی بات کریں۔ (سنو، خبردار رہو)، یہ حقیقت ہے کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے۔“،(النساء8-10:4)
”اور تم سب اللہ کی بندگی کرو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھیراؤ، والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور رشتہ دار پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور ہم نشینوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔ اِسی طرح مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ جو تمھارے قبضے میں ہوں۔ اللہ اُن لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اتراتے اور اپنی بڑائی پر فخر کرتے ہیں۔ جو خود بھی بخل کرتے اور دوسروں کو بھی اِسی کا مشورہ دیتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل میں سے جو کچھ اُنھیں دیا ہے، اُسے چھپاتے ہیں۔ ایسے ناشکروں کے لیے ہم نے ذلیل کر دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔“،(النساء36-37:4)
”وہ تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ اُن سے کہہ دو کہ اللہ تمھیں اُن کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور جن عورتوں کے حقوق تم ادا نہیں کرنا چاہتے، مگر اُن سے نکاح کرنا چاہتے ہو، اُن کے یتیموں سے متعلق جو ہدایات اِس کتاب میں تمھیں دی جارہی ہیں، اُن کے بارے میں اور (دوسرے) بے سہارا بچوں کے بارے میں بھی فتویٰ دیتا ہے کہ عورتوں کے حقوق ہر حال میں ادا کرو اور یتیموں کے ساتھ ہر حال میں انصاف پر قائم رہو اور (یاد رکھو کہ اِس کے علاوہ بھی) جو بھلائی تم کرو گے، اُس کا صلہ لازماً پاؤ گے، اِس لیے کہ وہ اللہ کے علم میں رہے گی۔“(النساء127:4)
”اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو (اُس کے لیے) بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ سن رشد کو پہنچ جائے۔“،(الانعام152:6)
”(تم نے پوچھا تھا تو) جان لو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا تھا، اُس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے، اُس کے پیغمبر کے لیے، (پیغمبر کے) اقربا اور یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا۔“،(الانفال41:8)
”(اِنھیں بتا دو کہ) صدقات تو درحقیقت فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن کے لیے جو اُن کے نظم پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہے۔ نیز اِس لیے کہ گردنوں کے چھڑانے میں اور تاوان زدوں کے سنبھالنے میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں کی بہبود کے لیے خرچ کیے جائیں۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔“،(التوبہ60:9)
”تم قرابت دار کو اُس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی، اور مال کو بے جا نہ اڑاؤ۔“،(بنیاسرائیل26:17)
”اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ جو رزق خدا نے تمھیں بخشا ہے، اُس میں سے (اُس کی راہ میں) خرچ کرو تو یہ لوگ جنھوں نے (پیغمبر کا) انکار کر دیا ہے، ماننے والوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم اُن لوگوں کو کھلائیں جنھیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم لوگ تو صریح گمراہی میں پڑے ہو۔“،(یسین47:36)
”(اِس لیے) اِن بستیوں کے لوگوں سے اللہ جو کچھ اپنے رسول کی طرف پلٹائے، وہ اللہ اور رسول اور قرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا تاکہ وہ تمھارے دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرتا رہے۔“،(الحشر7:59)
”جن کے مالوں میں سائل و محروم کے لیے ایک مقرر حق ہے“،(المعارج24-25:70)
”تم نے دیکھا اُس شخص کو جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے؟ یہ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے کے لیے نہیں ابھارتا۔“،(الماعون1-3:107)
”مگر وہ گھاٹی پر نہیں چڑھا۔ اور تم کیا سمجھے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ یہی کہ گردن چھڑائی جائے یا بھوک کے دن یا کسی خاک آلود مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔“،(البلد 11-16:90)