مضامین قرآن (57) اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درست اساسات: تقویٰ ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ سے تعلق کی ایک بہت اہم اساس جو کئی پہلوؤں سے ایمان کے بعد دوسری بنیادی اساس ہے، اللہ کا تقویٰ ہے۔ قرآن مجید میں تقویٰ کا لفظ تین مفاہیم میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا ایک مفہوم جو اصل ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کی پکڑ اور اس کے غضب سے بچنے کا شدید ترین جذبہ ہو۔ اس کا دوسرا مفہوم اس عملی کیفیت کو بیان کرتا ہے جس میں انسان اس طرح جیتا ہے کہ وہ خدا کے غضب سے بچنے کے لیے اس کی ہر نافرمانی چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا تیسرا مفہوم اس نتیجے کو بیان کرتا ہے جو قیامت کے دن نکلے گا یعنی ایسے خدا ترس انسانوں کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ اور دوزخ کی سزا سے بچا لیں گے۔ ہماری اس گفتگو میں اس لفظ کا پہلا مفہوم ہی مراد رہے گا کیونکہ وہ اصل جذبہ ہے جو پیدا کرنا مقصود ہے۔ باقی دو تو اس کے فطری نتائج ہیں۔
قرآن مجید نے تقویٰ کی اس تعبیر کو بکثرت استعمال کیا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسانی فطرت میں سب سے بڑھ کر اپنے تحفظ اور بچاؤ کا داعیہ پایا جاتا ہے۔ خطرے اور اندیشے کا سامنا ہوتے ہی ہر انسان پوری طرح متحرک ہوجاتا ہے۔ بہت سی وہ طبیعتیں جو نعمتوں اور انعامات کا ذکر سن کر متحرک نہیں ہوتیں، خطرات سامنے آتے ہی پوری طرح فعال ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ انسانوں میں کوئی تحریک پیدا کرنے اور انھیں فعال کرنے کے لیے انسان کے اس جذبے کو بیدار کرنا ضروری ہے۔ خاص کر ایسی صورت میں جبکہ یہ خطرہ کوئی فرضی نہ ہو بلکہ حقیقی ہو اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے آخری درجہ میں تباہ کن ہو۔ ایسے میں یہ بڑی خیر خواہی کا کام ہوتا ہے کہ لوگوں کو آنے والے خطرات سے آگاہ کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا کا منصب قرآن مجید میں انذار بیان ہوا ہے۔ جس کا مفہوم ہی خطرے سے متنبہ کرنا ہے۔ علما کا منصب بھی انذار بیان ہوا ہے۔ یہی وہ انذار ہے جو بندوں میں خدا کا خوف یا تقویٰ پیدا کرتا ہے۔
تقویٰ کی تعبیر کو قرآن میں زیادہ استعمال کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جس خدا کے حضور پیشی سے ڈرایا جاتا ہے وہ اپنی تمام تر عظمت کے باوجود پردہ غیب میں مستور ہے۔ دوسری طرف اس کی فرمانبرداری سے دور کر دینے والی خواہشات اور جذبات ایک طرف انسان کے اندر سے اپنا ظہور کرتے ہیں اور اپنی بات منوانے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف حالات اور ماحول بھی پوری طرح انسان کو اپنے گھیرے میں لے کر اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں یہ خدا کے خوف کا جذبہ ہی ہے اور اس کی پکڑ سے بچنے کا داعیہ ہی ہے جو انسان کو اندر اور باہر کے اس شدید دباؤ کے مقابلے میں ثابت قدم رکھتا ہے۔
تقویٰ کے لیے دیگر تعبیرات
اللہ تعالیٰ کا یہ تقویٰ کوئی منفی چیز نہیں بلکہ یہ ایک مثبت جذبہ ہے جو ایک حقیقی خطرے سے انسان کو بچاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے قرآن مجید نے ایک دوسری تعبیر جگہ جگہ استعمال کی ہے یعنی خوف۔ خوف اس جذبے کا نام ہے جو کسی ممکنہ مگر حقیقی نقصان کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ اسے عام زبان میں اندیشہ کہتے ہیں۔ قرآن مجید آخرت کی زندگی کا جو تصور دیتا ہے، اس میں دو حقیقتیں ایسی ہیں جن سے بے نیاز ہو کر کوئی معقول آدمی نہیں جی سکتا۔ ایک یہ کہ روزِ قیامت انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ یہ حساب اس طرح لیا جائے گا کہ انسان کا ہر ہر عمل ہی نہیں بلکہ ان اعمال کے پیچھے کار فرما نیت بھی کھول دی جائے گی۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ آنے والی دنیا میں دو میں سے ایک انجام انسان کا منتظر ہے۔ ایک جنت اور دوسرا جہنم۔ جہنم اتنی خوفناک اور ناقابل برادشت حد تک تکلیف دہ جگہ ہے کہ وہاں لمحہ بھر گزارنے کا تصور بھی ناقابل برداشت ہے۔ یہ دونوں چیزیں اگر حقیقت ہیں اور بلاشبہ حقیقت ہیں تو پھر ان کے متعلق فکرمند ہونا، اندیشہ ناک ہونا اور خوف محسوس کرنا ایک بالکل فطری چیز ہے۔ یہی خوف ہے جو انسان کو خدا کی نافرمانی سے بچاتا ہے۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خوف میں آکر کسی ناقابل تلافی نقصان سے بچ جانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ بے خوف رہ کر انسان اس نقصان میں پڑ جائے۔
تقویٰ کو مزید واضح کرنے کے لیے قرآن مجید نے کچھ اور تعبیرات اختیار کی ہیں۔ یہ تعبیرات واضح کرتی ہیں کہ تقویٰ محض ایک سلبی اور منفی چیز نہیں بلکہ ایک مثبت احساس کا نام ہے۔ یہ تعبیرات رہبت، خشوع اور اخبات ہیں۔ رہبت اس لرزش اور کپکپی کا نام ہے جو کسی کی عظمت و جلالت کے تصور سے دل پر طاری ہوجاتی ہے۔ یہ کپکپی آگے بڑھتی ہے اور خشوع پیدا کرتی ہے۔ خشوع قلب کے اس جھکاؤ کا نام ہے جو کسی ہستی کی عظمت و جلال سے پیدا ہوتا ہے اور دل میں بے نیازی اور بے پروائی کے بجائے عاجزی اور پستی کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔ جبکہ اخبات میں انسان ہر ایک سے کٹ کر اپنے رب کی طرف پوری دل جمعی سے متوجہ ہوجاتا ہے اور کامل یکسوئی کے ساتھ اس کے سامنے جھک جاتا ہے۔
تقویٰ ان سب احساسات سے خود بخود پیدا ہوجاتا ہے۔ انسان یہ جان لیتا ہے کہ اس کا واسطہ ایک انتہائی بلند و عظیم ہستی سے ہے۔ وہ ہستی ناقابل تصور حد تک طاقتور ہے۔ اس کی پکڑ اور پہنچ سے کوئی بچ کر نکل نہیں سکتا۔ وہ پکڑ لے تو کوئی بچانہیں سکتا۔ اس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ اس کی ایک نگاہ سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ اس کے ایک اشارے سے زمین و آسمان الٹ سکتے ہیں۔ اس کی قدرت میں سب کچھ ہے۔ اس کی طاقت بے اندازہ اور اختیار لامحدود ہے۔ یہ عظیم و بلند ہستی لمحہ لمحہ انسان کے ساتھ موجود ہے۔ انسان جہاں کہیں ہو اس کے علم میں ہوتا ہے۔ ہر قول و فعل وہ سنتا اور دیکھتا ہے۔ دل کا حال ہو یا نگاہ کی خیانتیں کچھ بھی اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔ انسان اس خدا کے سامنے آخری درجہ میں ننگا ہے۔ اس کا باہر ہی نہیں اس کا اندر بھی خدا کے سامنے بالکل عریاں ہے۔ ایسے خدا کی عظمت، کبریائی، ہیبت و جبروت کا احساس انسان کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ احساس اس کے دل کو لرزا دیتا ہے۔ اس رب کے سامنے انسان کی روح سراپا نیاز بن جاتی ہے۔ چنانچہ عبادت کے اندر بھی انسان رب العالمین کے سامنے عاجزی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور عبادت سے باہر بھی اس کے خوف سے لرزتا ہے۔ وہ دل سے ہر دوسرے کا خوف نکال کر صرف اسی کے خوف میں جیتا ہے اور سب سے کٹ کر صرف اسی کا ہو رہتا ہے۔ وہ ہر صورت میں ایسے بلند رب کی پکڑ سے بچنا چاہتا ہے۔ چنانچہ رہبت، خشوع اور اخبات بندہ مومن میں تقویٰ پیدا کر دیتے ہیں یہی وہ تقویٰ ہے جس کے لیے دنیا میں ہدایت کا وعدہ ہے اور آخرت میں نجات کا۔
قرآنی بیانات
’’وہ عالی مرتبت ہے۔ عرش کا مالک ہے۔ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی روح (وحی) ڈال دیتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو روز ملاقات سے خبردار کر دے۔‘‘،(غافر 15:40)۔
’’ہم نے تم کو حق کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی ہے جس کے اندر ایک نذیر نہ آیا ہو۔‘‘،(الفاطر24:35)
’’یہ تو نہ تھا کہ سب ہی مسلمان اٹھتے تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو بھی آگاہ کرتے جب کہ وہ ان کی طرف لوٹتے کہ وہ بھی احتیاط کرنے والے بنتے۔‘‘،(التوبہ 122:9)
’’اے لوگو! اپنے خداوند سے ڈرو بے شک قیامت کی ہلچل بڑی ہی ہولناک چیز ہے۔‘‘،(الحج1:22)
’’اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو جو اس نے کمائی کی ہے پوری پوری مل جائے گی اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا۔‘‘،(البقرہ281:2)
’’اے لوگو، اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا۔۔۔ اور ڈرو اُس اللہ سے جس کے واسطے سے تم آپس میں مدد کے طالب ہوتے ہو اور ڈرو قطع رحم سے۔ بے شک اللہ تمھاری نگرانی کر رہا ہے۔‘‘،(النساء1:4)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرو تم مگر اس حال میں کہ تم اسلام پر ہو۔‘‘،(آل عمران102:3)
’’اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور چاہیے کہ ہر نفس اچھی طرح جائزہ لے رکھے اس کا جو اس نے کل کے لیے کیا ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘،(الحشر18:59)
’’تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور ہم نے اس کو یحییٰ عطا فرمایا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے سازگار کر دیا۔ بے شک یہ نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے اور امید و بیم ہر حال میں ہماری ہی عبادت کرنے والے اور ہم سے خشوع رکھنے والے تھے۔‘‘،(الانبیا 90:21)
’’اپنی مراد کو پہنچ گئے ایمان والے۔ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔‘‘، (المومنون1-2:23)
’’(اِس کو سن کر) وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں اور یہ اُن کے خشوع میں اضافہ کر دیتا ہے۔‘‘،(الاسرا109:17)
’’اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مشروع کی تاکہ اللہ نے ان کو جو چوپائے بخشے ہیں ان پر وہ اس کا نام لیں۔ پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اپنے آپ کو اسی کے حوالے کرو۔ اور خوش خبری دو ان کو جن کے دل خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔‘‘،(الحج34:22)
’’باقی رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے اور جو اپنے رب کی طرف جھک پڑے تو وہی لوگ جنت والے ہیں، وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘،(ھود 23:11)