مضامین قرآن: سورۃ البقرۃ (3) ۔ ابویحییٰ
سورة البقرة (3)
سورۃ بقرۃ کی تمہید کے تین مضامین
ہم سورۃ بقرۃ کی تمہید کا مطالعہ کررہے ہیں جو آیت 1 تا 39 پر مشتمل ہے۔ اس تمہید میں تین بنیادی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ہدایت کی آسمانی بارش یعنی قرآن مجید کے نزول کے بعد مختلف گروہوں یعنی ما ننے والے، منکرین اور منافقین کا کیا رویہ سامنے آیا ہے۔ اس کا مطالعہ پیچھے کیا جاچکا ہے۔ دوسری چیز یہ کہ یہ آسمانی ہدایت کیا ہے، یہ عقل و فطرت کے کن بنیادی دلائل پر استوار ہے، نیز اسے ما ننے اور نہ ما ننے کا انجام کیا ہے۔ یہ حصہ انشاء اللہ آج زیرِ بحث آئے گا۔ تیسرا یہ کہ اس ہدایت کا تاریخی پس منظر کیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی کس اسکیم کے تحت دی جارہی ہے۔
یہ دوسرا مضمون آیت نمبر 21 تا 29 میں بیان ہوا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے جس کے بعد ہم ان آیات میں زیر بحث آنے والے ان مضامین اور موضوعات میں سے ایک ایک کو لے کر ان پر بات کریں گے۔
’’ لوگو، تم اپنے اس پروردگار کی بندگی کرو، جس نے تمھیں پیدا کیا ہے اور تم سے پہلوں کو بھی، اس لیے کہ تم (اس کے عذاب سے) بچے رہو۔ (وہی) جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا ہے اور آسمان سے پانی اتارا ہے، پھر اس نے تمھاری روزی کے لیے طرح طرح کے میوے پیدا کردیے ہیں۔ لہذا تم اللہ کے ہم سر نہ ٹھہراؤ، دراں حالیکہ تم (ان سب باتوں کو) جا نتے ہو۔
(یہی، اس کتاب کی دعوت ہے، اسے قبول کرو)، اور جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے، اس کے بارے میں اگر تمھیں شبہ ہے تو (جاؤ اور) اس کے مانند ایک سورۃ ہی بنا لاؤ اور (اس کے لیے) خدا کے سوا تمھارے جو زعما ہیں، انھیں بھی بلا لو، اگر تم (اپنے اس گمان میں) سچے ہو۔ پھر اگر نہ کرسکو اور ہر گز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن وہ لوگ بھی ہوں گے (جو نہیں ما نتے) اور ان کے پتھر بھی (جنھیں وہ پوجتے ہیں)۔ وہ انھی منکروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اور ان کو جو (اس کتاب پر) ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، اس بات کی بشارت دو، (اے پیغمبر) کہ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان کا کوئی پھل جب انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا تو کہیں گے : یہ وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا، دراں حالیکہ ان کو یہ اس سے ملتا جلتا دیا جائے گا، اور ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔
(یہ جنت کی تمثیل ہے، اور) اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (کسی حقیقت کی وضاحت کے لیے) وہ مچھر یا اس سے بھی حقیر کسی چیز کی تمثیل بیان کرے۔ پھر جو ما ننے والے ہیں، وہ جا نتے ہیں کہ یہ ان کے پروردگار کی طرف سے حق آیا ہے، اور جو نہیں ما نتے، وہ کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ نے کیا چاہا؟ (اس طرح) اللہ بہتوں کو اس سے گمراہ کرتا اور بہتوں کو راہ دکھاتا ہے، اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ اس سے گمراہ تو ایسے سرکشوں ہی کو کرتا ہے جو اللہ کے عہد کو اس کے باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جس چیز کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اسے کا ٹتے ہیں، اور (اس طرح) زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ یہی ہیں جو (دنیا اور آخرت، دونوں میں) نامراد ہیں۔
(لوگو)، تم اللہ کے منکر کس طرح ہوتے ہو، دراں حالیکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمھیں زندگی عطا فرمائی، پھر وہی مارتا ہے، اس کے بعد زندہ بھی وہی کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ وہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی سب چیز یں پیدا کیں، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور سات آسمان استوار کردیے، اور وہ ہر چیز سے واقف ہے،(البقرہ 21-29:2) ‘‘
ہدایت کی بنیاد : عقیدہ توحید
ہدایت کی پہلی اور بنیادی اساس عقیدہ توحید ہے یعنی انسانوں کا خالق و مالک اللہ پروردگار عالم ہے جس نے نہ صرف یہ کہ انہیں پیدا کیا ہے بلکہ وہ ہر آن اور ہر لمحہ ان کی زندگی اور پرورش کے تمام اہتمام کررہا ہے۔ پوری کائنات کو اس نے اسی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ چنانچہ وہ اس بات کا مستحق ہے کہ تنہا اسی کی عبادت کی جائے اور اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔
توحید کی دعوت یا عبادت رب ہر نبی کی دعوت کا مرکزی خیال رہا ہے۔ تاہم قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے نہ صرف اس بنیادی مطالبے کو انتہائی شرح و وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے بلکہ اس دعوت کے حق میں عقل و فطرت کے ایسے دلائل بھی پیش کیے ہیں جن کا کوئی معقول انسان انکار نہیں کرسکتا۔ یہ چیزیں قرآن مجید میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں اور جیسے جیسے زیر بحث آئیں گی انشاء اللہ ہم انہیں زیر بحث لائیں گے۔
عقیدہ توحید کی بنیادی دلیل : ربوبیت
اس مقام پر دعوت عبادت رب کے ساتھ اس دعوت کی ایک بنیادی دلیل یہ دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس لیے عبادت کے مستحق ہیں کہ وہی ہر نعمت کے عطا کرنے والے ہیں۔ زمین کا بچھونا ، آسمان کی تاروں بھری محفوظ چھت اور ان کے بیچ میں کھانے اور پینے کے لامحدود انتظامات صرف اسی کی بخشش کا نتیجہ ہے۔جب دینے والا وہی ہے تو جواب میں بندگی بھی اسی کی ہونی چاہیے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ انسان جس سے تنخواہ لیتا ہے، کام بھی اسی کا کرتا ہے۔ یہ قطعی طور پر غیر اخلاقی اور غیر قانونی بات ہے کہ تنخواہ کسی سے لی جائے اور کام کسی اور کا کیا جائے۔ ٹھیک اسی طرح اگر ساری نعمت اللہ کی عطا کردہ ہے تو یہ کیسے درست ہے کہ عبادت غیر اللہ کی ہو۔ چنانچہ یہ بالکل غلط ہے کہ اللہ کی نعمتوں میں رہ کر غیر اللہ کی عبادت کی جائے۔
دعوت رسالت اور اس کی دلیل
یہی وہ بنیادی دعوت ہے جسے لے کر تمام انبیا اور بالخصوص آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ اور ختم نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس دعوت کو ہمیشہ کے لیے قران مجید کی محفوظ شکل میں چھوڑ کر رخصت ہوئے ہیں۔
رسالت اور کتاب الہی پر ایمان دین کی اساسی دعوت ہے جس کی سچائی کے متعدد دلائل قرآن مجید میں دیے گئے ہیں۔ مگر اس مقام پر اس بنیادی دلیل کا ذکر ہے جو قرآن مجید کے اولین مخاطبین کو دی گئی تھی۔ یعنی اگر تمھیں اس کتاب کی سچائی میں شک ہے اور تم سمجھتے ہو کہ یہ انسانی تصنیف ہے تو تم زبان و بیان کے ماہر ہو۔ ایسا کرو کہ اس کتاب کے مقابلے کی اس معیار کی ایک سورۃ ہی بنا لاؤ۔
سورہ بقرہ میں یہ چیلنج عرب کے لوگوں کو آخری دفعہ دیا گیا تھا۔ اس سے قبل مکہ میں کئی دفعہ انہیں یہ چیلنچ دیا گیا تھا۔ مگر مشرکین عرب نے کبھی اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش نہ کی۔ حالانکہ یہ ان کے لیے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو غلط ثابت کرنے کا سب سے آسان طریقہ تھا کہ وہ اپنے بہترین شعراء کو اکھٹا کرتے جس طرح فرعون نے جادوگروں کو حضرت موسیٰ کے مقابلے کے لیے کیا تھا اور ایک جواب تیار کرکے سامنے رکھ دیتے۔ مگر وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ایسا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ چنانچہ کفار مکہ نے اس دعوت کا زور توڑنے کے لیے ہر ممکنہ قدم اٹھایا، مگر کبھی بھی اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔ یہی قرآن مجید کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
سزا و جزا
اتنے واضح دلائل کے ساتھ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچ جانا ہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن ان کی سخت جوابدہی ہوگی۔ چنانچہ اس روز نہ ماننے والوں کو ان کے کفر و سرکشی کی پاداش میں ابدی جہنم میں جگہ دی جائے گی۔ جبکہ ماننے والوں کا ٹھکانہ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہوں گی۔ جنت کے حوالے سے یہاں چند باتیں اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ باغات اور بہتی نہروں کی تعبیر خاص عرب کے پس منظر میں ہے جہاں کے شدید گرم موسم اور تپتے صحرا میں انعام کا اس سے بہتر تصور ممکن نہیں۔
دوسرے یہ کہ انعام کی زندگی ابدی ہوگی جسے موت کی کسی آہٹ کا کوئی کھٹکا نہ ہوگا۔ تیسرے یہ کہ یہ ابدی زندگی کبھی بوریت میں نہیں بدلے گی کیونکہ یہاں ہر دفعہ ملنے والی نعمت پچھلی نعمت سے جدا اور منفرد ہوگی۔ یوں نعمتوں کا یہ تنوع انسانوں کے ذوق جمال کو ہمیشہ شاداب رکھے گا۔ چوتھے یہ کہ اس زندگی میں خوشی کا رنگ بھرنے کے لیے وہاں پاک و صاف بیوی کی وہ رفاقت ہوگی جو ہر نعمت کو حسین تر بنادے گی اور جس کے بغیر ہفت اقلیم کی بادشاہی بھی بے مزہ ہے۔
مطلوب کردار
اللہ تعالیٰ کی سزا و جزا کی بنیاد کچھ حقیقتوں کا مان لینا ہی نہیں بلکہ عملی طور پر اس کردار کے سانچے میں اپنی سیرت کو ڈھال دینا ہے جو اللہ تعالیٰ کو عین مطلوب ہے۔ اس کردار کے لوگ اعلیٰ اخلاق کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ جبکہ نہ ماننے والے واضح ترین سچائی کے مقابلے میں بھی مین میخ نکالتے ہیں۔ یہ لوگ صریح دلائل کے جواب میں نکتہ آفرینی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جیسے کہ جب وہ قرآن کا جواب نہیں لا پاتے تھے تو اپنی خفت مٹانے کو کہتے کہ یہ بھی کوئی اعلیٰ کلام ہے جس میں حقیر چیونٹی اور مکھی کا ذکر ہو۔ یہ سر تا سر کج بحثی ہے۔ جبکہ عملی طور پر بھی ان کا رویہ زمین میں فساد برپا کرنے، قطع رحمی کرنے اور اللہ کے عہد کو پامال کرنے کا ہوتا ہے۔
آخرت کی زندگی اور اس کی دلیل
سزا و جزا کے حوالے سے یہ باتیں واضح کرنے کے بعد پھر آخری بنیادی عقیدے کا بیان ہے۔ کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ اس زندگی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ پہلے عدم سے وجود میں لاچکے ہیں۔ وہ اس کی قدرت رکھتے ہیں کہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ بھی پیدا کرسکیں۔ صرف یہی نہیں ان کی قدرت وہ ہے جس نے ساری کائنات کو تخلیق کیا۔ انسان جیسی عظیم صناعی کو تخلیق کیا۔ وہ کیوں انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا۔ کیوں وہ جنت اور جہنم کے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرسکتا۔ یہ آخرت کی بنیادی دلیل ہے جسے ہم دلیل قدرت کہتے ہیں۔
[جاری ہے]