مضامین قرآن (52) حقوق باری تعالیٰ:روزہ اور اعتکاف ۔ ابویحییٰ
حقوق باری تعالیٰ:روزہ اور اعتکاف
دین کے قانون عبادات میں سے ہم ابھی تک نماز، اور انفاق کا مطالعہ قرآن مجید کی روشنی میں کرچکے ہیں۔ یہ دونوں عبادات اپنی روح کے لحاظ سے بندگی کے پہلے بنیادی مظہر یعنی پرستش کا جان و مال کے پہلو سے علامتی اظہار ہیں۔ بندگی کا دوسرا مظہر اطاعت ہے۔ دین میں روزے اور اعتکاف کی عبادت اسی اطاعت کا علامتی اظہار ہے۔ ان میں سے پہلی عبادت مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے جبکہ دوسری ایک نفل عبادت ہے۔
ماہ رمضان کے روزے
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی اس عظیم عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے کا انتخاب کیا اور اس پورے مہینے کے روزے رکھنا مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیاہے۔ اس مہینے کی وجہِ انتخاب بھی قرآن مجید نے خود بیان کی ہے کہ اس ماہ مقدسہ کی ایک مبارک شب یعنی لیلۃ ا لقدر میں قرآن مجید جیسی عظیم کتاب کا نزول شروع ہوا۔ یہ رات اللہ تعالیٰ کی تکوینی اسکیم میں اہم ترین فیصلوں کے نزول کی رات ہے۔ جو خیر وبرکات اس شب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترتے ہیں، وہ ہزار مہینوں میں اترنے والے خیر وبرکات سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ قرآن مجید یہی خیر وبرکت لے کر نازل ہوا جس کا مقصد لوگوں کو جنت کی عظیم کامیابی سے آگاہ کرنا ہے۔ اس کامیابی کا راستہ بندگی کی اس شاہراہ سے ہوکر گزرتا ہے جس کی طرف مکمل رہنمائی بھی خود قرآن مجید ہی کرتا ہے۔
تاہم قرآن مجید ایمان کے جس راستے کی طرف انسان کو بلاتا ہے اس پر چلنے کے لیے اپنے ہر تعصب سے بلند ہونا پڑتا ہے۔ وہ اخلاق کی جس گھاٹی پر چڑھنے کی دعوت دیتا ہے، نفس انسانی کی ادنیٰ خواہشات اس راہ میں ہر دم مزاحمت تخلیق کرتی ہیں۔ چنانچہ اس راہ پر چلنے اور اس گھاٹی پر چڑھنے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اصولی فیصلہ کرلے کہ کچھ بھی ہو اسے ہر حال میں اپنے ر ب کی اطاعت کرنی ہے۔ روزہ اسی مضبوط فیصلے کی تربیت کرنے کی ایک آسمانی تربیت گاہ ہے جو ہر سال گیارہ مہینوں کے بعد دہرائی جاتی ہے۔ یہ عبادت پورے ایک ماہ انسان کو یہ سبق سکھاتی ہے کہ زندگی کے ہر سرد و گرم اور روز وشب کی ہر کمی بیشی سے بے نیاز ہوکر ایک بندہ مومن خدا کی رضا کے لیے اپنی بنیادی ضروریات اور خواہشات تک بھی چھوڑ سکتا ہے۔ چنانچہ پورے دن کھانے پینے سے رکنا اور تعلق زن وشو سے باز رہنا انسان میں یہ عزم پیداکر دیتا ہے کہ کوئی ضرورت اور کوئی خواہش اسے خدا کی نافرمانی پر آمادہ نہیں کرسکتی۔ خدا کی حضوری میں جینے کا یہ احساس جو اس کی اطاعت پر آمادہ کرتا اور اس کی نافرمانی سے روکتا ہے، وہ تقویٰ پیدا کرتا ہے جس کے لیے روزے کی عبادت فرض کی گئی ہے۔
تقوی ٰ کے علاوہ رمضان کے روزوں کے دو مزید پہلو بھی قرآن مجید بیان کرتا ہے۔ ایک یہ کہ روزہ رکھ کر انسان قرآن مجید سے ملنے والی اس نعمت ہدایت پر اللہ کی کبریائی بیان کرتا ہے جس نے جنت کی منزل کا نشان بھی انسانوں کو دکھایا اور اس پر چلنے کا واضح اور آسان راستہ بھی بالکل کھول کررکھ دیا۔ جس خدا ئے عظیم کایہ احسان ہے، اس کی بڑائی کا تقاضا ہے کہ انسان اس کے حکم پر بنیادی ضروریات بھی چھوڑ کر اس کی اطاعت اور بندگی کا آخری نمونہ پیش کرے۔ دوسرے یہ کہ روزہ رکھنا انسان میں شکر گزاری کا وہ احساس پیدا کرتا ہے جو خالی پیٹ اور خشک گلے کے بغیر انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ محرومی کی یہی وہ حالت ہے جو انسان کو بتاتی ہے کہ خدائے رحمن نے آسمان سے زمین تک ہر شے کو انسان کے کھانے پینے کی ضرورت کی تکمیل کے لیے مسخر کررکھا ہے۔ یہ چیز بندہ مومن کو آخری درجہ میں اس کے رب کا شکر گزار بناتی ہے۔
روزے کی اس عبادت کے ساتھ بندوں کو یہ موقع بھی دیا گیا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو بطور نفل عبادت دنیا سے الگ تھلگ ہوکر خدا کے لیے مسجد میں معتکف ہوجائیں اور خود کویاد الٰہی کے لیے وقف کردیں۔ روزے کی پابندیوں کے ساتھ اعتکاف میں مزید یہ پابندی عائد ہوجاتی ہے کہ رات کے وقت بھی تعلق زن وشو سے رکا جائے۔ چنانچہ اعتکاف کی یہ عبادت روزے کے مقصد یعنی اللہ کی خاطر اس کی نافرمانی چھوڑنے کی آخری درجہ میں تکمیل کرتی ہے اور انسان کو آخری درجے میں اس کے رب سے قریب کرتی ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں اس عظیم عبادت کی ادائیگی کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
دیگر روزے
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ ایک قدیم عبادت ہے۔ حضرت مریم علیھا السلام کے ذکر میں روزے کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کوچپ کا روزہ رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم شرائع میں جسمانی روزے کے علاوہ اس نوعیت کا روزہ بھی رکھا جاتا تھاجس میں انسان پر بات کرنے پر بھی پابندی ہوتی تھی۔
قرآن مجید روزے کو اہل ایمان کے ایک مستقل وصف کے طور پر بھی بیا ن کرتا ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرض روزے رکھنے کے علاوہ نفلی روزے رکھنا بھی دین کے جمال و کمال کا ایک حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلو سے متعدد ایام میں نفلی روزے رکھے اور دوسروں کو بھی ان کی تلقین کی۔ اس کے علاوہ قرآن مجیدنے کسی غلطی کے ارتکاب یا کسی ذمہ داری کی عدم ادائیگی کی شکل میں کفارے کا جو قانون دیا ہے، روزہ اس کابھی ایک اہم جز ہے۔ ا س سے اندازہ ہوتا ہے کہ بندہ مومن کی ایمانی کیفیات پر کسی غلطی کے ارتکاب یا کسی ذمہ داری سے پیچھے رہ جانے کی صورت میں جو نفسیاتی اثر ہوتا ہے، روزہ اس کو دور کرکے دوبارہ اللہ سے قریب کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
قرآنی بیانات
”ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے ، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔ یہ گنتی کے چند دن ہیں۔ اِس پر بھی جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے۔ اور جو اِس کی طاقت رکھتے ہوں (کہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں)تو اُن پر ہر روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔ پھر جو شوق سے کوئی نیکی کرے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے ، اور روزہ رکھ لو تو یہ تمھارے لیے اور بھی اچھا ہے ، اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔
رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ، لوگوں کے لیے رہنما بنا کراور نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں جو (اپنی نوعیت کے لحاظ سے) سراسر ہدایت بھی ہیں اور حق و باطل کا فیصلہ بھی۔ سو تم میں سے جو شخص اِس مہینے میں موجود ہو ، اُسے چاہیے کہ اِس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے۔ (یہ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ)اللہ تمھاے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ سختی کرے۔ اور (فدیے کی اجازت)اِس لیے (ختم کر دی گئی ہے)کہ تم روزوں کی تعداد پوری کرو، (اور جو خیرو برکت اُس میں چھپی ہوئی ہے ، اُس سے محروم نہ رہو)۔ اور (اِس مقصدکے لیے رمضان کا مہینا) اِس لیے (خاص کیا گیا ہے)کہ (قرآن کی صورت میں) اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے ، اُس پر اُس کی بڑائی کرو اور اِس لیے کہ تم اُس کے شکر گزار بنو۔ ”،(البقرہ183-185: 2)
”(تم پوچھنا چاہتے ہو تو لو ہم بتائے دیتے ہیں کہ)روزوں کی رات میں اپنی بیویوں کے پاس جانا تمھارے لیے جائز کیا گیا ہے۔ وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو۔ اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے تو اُس نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے درگذر کیا۔ چنانچہ اب (بغیر کسی تردد کے)اپنی بیویوں کے پاس جاؤ اور (اِس کا)جو (نتیجہ)اللہ نے تمھارے لیے لکھ رکھا ہے، اُسے چاہو، اور کھاؤ پیو ، یہاں تک کہ رات کی سیاہ دھاری سے فجر کی سفید دھاری تمھارے لیے بالکل نمایاں ہو جائے۔ پھر رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔ اور (ہاں)، تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو (رات کو بھی )بیویوں کے پاس نہ جانا۔ یہ اللہ کی مقررکی ہوئی حدیں ہیں ، سو اِن کے قریب نہ جاؤ۔ اللہ اِسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ ”،،(البقرہ 187: 2)
‘پس کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اور اگر کوئی آدمی معترض ہو تو اس سے اشارے سے کہہ دیجیو کہ میں نے خدائے رحمان کے لیے روزے کی منت مان رکھی ہے تو آج میں کسی انسان سے کوئی بات نہیں کر سکتی۔ ”،(مریم26: 19)
”اور حج و عمرہ کو اللہ کے لیے پورا کرو۔ پس اگر تم گھِر جاؤ تو جو ‘ ہدی’ میسر ہو وہ پیش کر دو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ جو تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو اس کے لیے روزے یا صدقہ یا قربانی کی شکل میں فدیہ ہے۔ جب اطمینان کی حالت ہو تو جو کوئی حج تک عمرہ سے فائدہ اٹھائے تو وہ قربانی پیش کرے جو میسر آئے۔ جس کو میسر نہ آئے تو وہ تین دن کے روزے دوران حج میں رکھے اور سات دن کے روزے واپسی کے بعد۔ یہ کل دس دن ہوئے۔ یہ ان کے لیے ہے جن کا گھر در جوار حرم میں نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اچھی طرح جان رکھو کہ اللہ سخت پاداش والا ہے۔ ”،(البقرہ196: 2)
”اور کسی مومن کے لیے روا نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے مگر یہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے۔ اور جو کوئی کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کے ذمہ ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا اور خوں بہا ہے جو اس کے وارثوں کو دیا جائے الّا یہ کہ وہ معاف کر دیں۔ پس اگر مقتول تمھاری دشمن قوم کا فرد ہو لیکن وہ بذات خود مسلمان ہو تو ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہے۔ اور اگر وہ کسی ایسی قوم کا فرد ہے جس کے ساتھ تمھارا معاہدہ ہے تو خوں بہا بھی ہے جو اس کے وارثوں کو دیا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی۔ جس کو یہ استطاعت نہ ہو تو وہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی توبہ ہے۔ اللہ علیم و حکیم ہے۔ ”،(النسائ92: 4)
”تمھاری قسموں میں جو غیر ارادی ہیں ان پر تو اللہ تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جن قسموں کو تم نے پختہ کیا ہے ان پر مواخذہ کرے گا۔ سو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے اس معیار کا جو تم عام طور پر اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے پہنانا یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے۔ جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھ دے۔ یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا بیٹھو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اس طرح اللہ تمھارے لیے اپنے احکام کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم اس کے شکر گزار رہو۔ ”،(المائدہ 89: 5)
”پس جس کو غلام میسر نہ آئے تو اس کے اوپر لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں، ہاتھ لگانے سے پہلے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے اس کے ذمہ۔ یہ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول پر تمہارا ایمان راسخ ہو۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔ ”،(مجادلہ4 :58)
”اے ایمان والو! حالت احرام میں شکار نہ کرنا، اور جو تم میں سے اس کو قصداً مارے گا تو اس کا بدلہ اسی طرح کا جانور ہے جیسا کہ اُس نے مارا ہے، جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر کریں گے۔ یہ نیاز کی حیثیت سے خانہ کعبہ کو پہنچایا جائے یا کفارہ دینا ہو گا، مسکینوں کو کھانا یا اسی کے برابر روزے رکھنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کا وبال چکھے۔ جو ہو چکا اللہ نے اس سے درگزر کیا۔ لیکن جو کوئی پھر کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ غالب اور انتقام والا ہے۔ ”،(المائدہ95 :5)
”اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں، ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، راستباز مرد اور راستباز عورتیں، ثابت قدمی دکھانے والے مرد اور ثابت قدمی دکھانے والی عورتیں، فروتنی اختیار کرنے والے مرد اور فروتنی اختیار کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اورروزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والے مرد اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والی عورتیں۔۔۔ ان کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر ِعظیم تیار کر رکھا ہے۔ ”،(الاحزاب35 :33)