مضامین قرآن (47) مطالبات ۔ ابو یحییٰ
مطالبات
مضامین قرآن کے سلسلے کے آغاز میں ہم نے یہ بات واضح کی تھی کہ قرآن مجید ہزاروں آیات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہے ۔ مگر مضامین کے اعتبار سے یہ انتہائی مختصر ہے جس کے بنیادی موضوعات انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔یہ موضوعات نہ صرف تعداد میں بہت کم ہیں بلکہ آپس میں مربوط طریقے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہزاروں آیات پر مشتمل پوراقرآن مجید صرف تین بڑے اور چند درجن ذیلی عنوانات کے تحت نہ صرف مرتب ہوجاتا ہے بلکہ یہ مضامین و عنوانات ہر فرد اور ہردور کے انسان سے براہ راست متعلق رہتے ہیں۔یہ بنیادی تین موضوعات درج ذیل ہیں۔
١) دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج
٢) دعوت کے دلائل
٣) مطالبات
ہم ابتدائی دو موضوعات یعنی دعوت دین اور اس کے رد وقبول کے نتائج اور دعوت کے دلائل پر بہت تفصیل کے ساتھ گفتگو کرکے یہ جائزہ لے چکے ہیں کہ ان کے ذیل میں قرآن مجید نے کیا کچھ بیان کیا ہے۔انشاء اللہ آج سے ہم اس سلسلے کے آخری موضوع یعنی مطالبات پر گفتگو کا سلسلہ شروع کررہے ہیں۔
تزکیہ نفس اصل اور بنیادی مطالبہ
قرآن مجید میں بیان ہونے والے مطالبات اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ یہی وہ کسوٹی ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں اپنی شخصیت کو پرکھنا ہوتا ہے اور یہی وہ معیارات ہیں جن کے مطابق ہمیں اپنی شخصیت کو ڈھالنا ہوتا ہے۔ اور آخر کار یہی وہ پیمانہ بنیں گے جن پر تول کر روز قیامت ہمارا وزن ہوگا اور اسی وزن کی بنیاد پر ہمارے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ قرآن مجید کے یہ مطالبات نجات کے اس مرکزی خیال سے پھوٹتے ہیں جسے بلاشبہ دین کا نصب العین کہا جاسکتا ہے۔ یعنی تزکیہ نفس جس پر آخرت کی فلاح موقوف ہے ۔قرآن مجید نے متعدد مقامات پر یہ بات بالکل کھول کر واضح کی ہے کہ جنت کی فلاح اور کامیابی کا انحصار نفس انسانی کے تزکیے یا پاکیزگی پر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”قسم ہے نفس انسانی کی اور جےسا کہ اسے ٹھےک بناےا۔ پھر اس کی بدی اور تقویٰ اسے الہام کےا، کامےاب ہوا وہ جس نے اس نفس کا تزکےہ کےا اور نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کردےا۔”
(الشمس91:7-10 )
جنت کی فلاح کا تزکیے پر منحصر ہونے کی یہی بات قرآن مجید کے دیگر مقامات پر مثلاًسورہ ٰطہٰ75-76:20، سورہ اعلیٰ14:87وغیرہ سے بھی واضح ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں چار مقامات پر اسی تزکیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تمام تعلیم کا اصل مقصد بتایا گیا ہے۔سورہ جمعہ کی آیت درج ذیل ہے۔
وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں سے ایک رسول انھی میں سے اٹھایا ہے جو اس کی آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور (اس کے لیے )انھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے،(الجمعہ62:2)
چنانچہ تزکیہ نفس اس پورے دین کا اصل مقصد ہے جسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جو قرآن وسنت کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ تاہم اس کتاب میں ہمارے پیش نظر صرف قرآن مجید کے مضامین کا احاطہ کرنا ہے، اس لیے ہم سنت سے صرف نظر کرتے ہوئے قرآن مجید میں بیان کردہ مطالبات تک خود کو محدودرکھیں گے۔ان مطالبات کو ہم تین ذیلی عنوانات کے تحت بیان کرسکتے ہیں۔
١) اخلاقی مطالبات
اخلاقی مطالبات کا اصل ماخذ فطرت انسانی ہے۔ قرآن مجید نے فطرت کی اس آواز کو متعین اوامر و نواہی کی شکل میں تین پہلوؤں سے بیان کردیا ہے ۔
الف)اللہ تعالیٰ کے حوالے سے عائد کردہ مطالبات
ب)سماج اور اس کے مختلف طبقات کے حوالے سے عائد کردہ ذمہ داریاں
ج)نوع انسانی کے دو بنیادی اجزا یعنی مرد و زن کے باہمی معاملات کے لحاظ سے عائد مطالبات
٢) شرعی یا قانونی مطالبات
یہ وہ مطالبات ہیں جن میں باقاعدہ قانون ساز ی کرکے ان میں وقت، دن، تعداد اور دیگر شرائط متعین کرکے ان کو قابل عمل ضابطوں کی شکل میں ڈھال دیا گیا ہے۔ان کی دو ذیلی قسمیں ہیں۔
١) فرد پر عائد شرعی ذمہ داریاں
٢) سماج اور ریاست پر عائد قانونی ذمہ داریاں
٣) شخصی رویے
ہم نے پیچھے بیان کیا کہ دین کا نصب العین تزکیہ نفس یعنی اپنی شخصیت کو پاکیزہ بنانے کا عمل ہے۔انسانی نفسیات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ بہت سے رویے انسانی نفسیات کی تشکیل میں اس طرح حصہ لیتے ہیں کہ ان کی سمت درست نہ کی جائے تو وہ ہر طرح کا اخلاقی اور قانونی فساد برپا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔معاملہ برعکس ہوتو شخصیت ایمان و اخلاق کی دعوت کو قبول کرنے اور اسے زندگی بنانے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ یہ رویے قرآن مجید میں کئی مقامات پر بالواسطہ طور پر زیر بحث آگئے ہیں۔ ہم انشاء اللہ ان کو نمایاں کرکے قارئین کے سامنے رکھیں گے تاکہ وہ اس پہلو سے قرآن کے مطلوب اور نامطلوب رویوں سے واقف ہوسکیں۔
اخلاقی مطالبات
انسانی شخصیت تین بنیادی چیزوں سے مرکب ہے۔ ایک سب سے زیادہ نمایاں اور بظاہر اس کی پہچان بننے والا اس کا حیوانی جسم ہے۔ یہی وہ قالب ہے جو اس دنیا میں کسی انسان کی شناخت بنتا ہے۔انسان کا یہ حیوانی قالب کئی پہلو ؤںسے دیگر جانوروں سے ممتاز ہے، مگر تنہا اسی کے بل بوتے پر انسان آج کرہ ارض پر حکومت نہیں کررہا۔یہ انسان کے اندر موجود عقل و فہم کی صلاحیت ہے جس کی بنا پر انسان دیگر مخلوقات کے مقابلے میں بہت آگے نکل گیا ہے۔عقل و فہم کی یہ صلاحیت ہی انسانیت کا شرف ہے اور اگر کبھی کسی حادثے میںیہ صلاحیت سلب ہوجائے تو انسان دو قدموں پر چلنے والے جانور کے سوا کچھ اور نہیں رہتا۔
تاہم انسان کی شخصیت کاایک مزید پہلو ایسا ہے جس کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتا۔ یہ پہلو انسان کے اندر پایا جانے والا خیر وشر کا ایک واضح تصور ہے جسے ہم انسان کا اخلاقی وجود کہتے ہیں۔ خیر و شر کا یہی شعور ہے جو مادی وجود کے تقاضوں سے انسان کو بلند کرتا ہے۔یہ انسان کی جبلتوں پر پہرے بٹھاتا ہے۔ یہ انسان کی مادی طاقت کے سامنے اخلاق کی دیوار کھڑی کرتا ہے۔ یہ انسان کی عقل اور جذبات کو ایک حد میں رکھتا ہے۔
خیر و شر کا یہ اخلاقی شعور جو طاقت، مادیت، حیوانیت،جبلت سے بلند اور عقل پر حاکم ہے انسان نے اپنے پروردگار سے پایا ہے۔یہ انسان کے اس روحانی پیکج کا حصہ ہے جو وہ اپنی تخلیق کے وقت نفخ روح (ص71-72:38،الحجر29:15،السجدہ9:32) کے نتیجے میں اس دنیا میں لے کر آیا تھا۔ سورہ الشمس میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
”قسم ہے نفس انسانی کی اور جےسا کہ اسے ٹھےک بناےا۔ پھر اس کی بدی اور تقویٰ اسے الہام کےا، کامےاب ہوا وہ جس نے اس نفس کا تزکےہ کےا اور نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کردےا۔” ، (الشمس91:7-10 )
چنانچہ انسانی فطرت جس طرح خوشبو اوربدبو میں فرق کرنے میں دھوکا نہیں کھاتی اسی طرح اخلاقی خیر وشر مثلاً سچ اور جھوٹ، ظلم وعدل، امانت اور خیانت میں بھی اطمینان سے فرق کرکے ایک کو پسند اور دوسرے کو ناپسند کرتی ہے۔ کوئی شخص اپنی طاقت، مفاد ، خواہش یا فطرت کی کجی کے باعث کبھی ان حقائق کو جھٹلانے کی کوشش بھی کرے تو جیسے ہی اس کے ساتھ اخلاقی طور پر غلط معاملہ ہوگا وہ فوراًپکاراٹھے گا کہ یہ غلط ہے۔یہ فطرت کا اتنا واضح راستہ ہے کہ قرآن مجید نے بلا تکلف اسے راستے (الدہر3:76،البلد10:90)سے تعبیر کیا۔فطرت کی اس سیدھی راہ سے کبھی کوئی شخص ہٹنا چاہے تو خود اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے(القیامۃ2:75)۔
تاہم چونکہ اس کا امکان ہے کہ فطرت کا یہ الہام وقت ،زمانے اور حالات کی گرد میں کبھی دب جائے اور اپنی روشنی گُم کردے یا کم کربیٹھے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انبیا کو اسی فطری الہام کی یاددہانی کی غرض سے بھیجا ہے۔ انبیا علےھم السلام انسان کو اسی اخلاقی شعور کی بنیاد پر اس کے تنہا خالق کی طرف بلاتے ہیں۔ اسی کی بنیاد پردوسرے انسانو ں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اور اعلیٰ اخلاقی رویوں کی تلقین کرتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر فواحش وبدکاری کے بجائے عصمت وپاکدامنی کی راہ کی طرف بلاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ایک جنگ ہے جس میں ایک طرف شیطان اور انسان کا نفس حیوانی اسے اخلاقی حدودپامال کرکے صرف جبلت اور خواہش کے راستوں پر بلارہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف انبیا علیھم السلام اور انسانی ضمیر اسے درست اخلاقی رویے کی تلقین کرتے ہیں۔ ایسے میں انسان کو خود یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس راہ پر چلتا ہے۔ صحیح و غلط کے امتیاز کی کسوٹی اللہ نے خود اس کے اندر دے دی ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنے حتمی رویے کا فیصلہ کرتا ہے اور اسی کی سزا وجزا وہ قیامت کے دن پائے گا۔
اخلاقیات کے ضمن کی آخری اصولی بات یہ ہے کہ اس کا اصل ماخذ خدا کی اپنی ہستی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی ایک طرف ساری طاقت اور قوت کی مالک ہے اور دوسری طرف وہ سرتاسر عدل و رحمت ہے۔ اسی عدل ورحمت کی بنیاد پروہ اپنی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں۔اسی عدل و رحمت کا ایک اثر انہوں نے انسانو ںکی تخلیق کے وقت ان میں رکھ دیاتھا۔ جو لوگ اس سرمائے کی مادی دنیا کی آلائشوں سے حفاظت کرکے بلکہ دنیا کے امتحان میں اسے بڑھاکر خدا کے حضور لوٹتے ہیں ، ان پر اللہ کا فضل ہوگا۔ دوسری صورت میں جہنم ایسے لوگوں کا ٹھکانا ہوگی۔