مضامین قرآن (39) دعوت کا ابلاغ: صحف سماوی ۔ ابو یحییٰ
دعوت کا ابلاغ: صحف سماوی
صحف سماوی کے دو ادوار
دعوت کے ابلاغ کے ضمن میں ہم فطرت، وحی، نبوت ورسالت جیسے بنیادی مضامین کو زیر بحث لا چکے ہیں ۔ اس ضمن کا آخری مضمون جو قرآن مجید میں بیان ہوا اور ایمانیات کا ایک بنیادی حصہ ہے ، وہ آسمانی کتابوں یا صحف سماوی سے متعلق ہے۔ آسمانی کتابوں کی تاریخ کو دو واضح حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک دور زمانہ قبل از قرآن کا تھا جب انبیا پر کتابیں اتاری گئیں، مگر ان کی حفاظت کی ذمہ داری انسانوں پر تھی، (المائدہ 44:5)۔ اس دور میں کتابوں میں تحریف اور تبدیلی ہوتی رہی۔ دوسرا دور وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنا پیغام کتاب الہی کی شکل میں اتارا بلکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود لے لی۔ یہ قرآن مجید کا وہ دور ہے جس میں ہم جی رہے ہیں اور جو قیامت تک جاری رہے گا۔
قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والے صحف سماوی
دعوت کے ابلاغ کے مباحث میں یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ دعوت خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے کا عمل ہے۔ اس دنیا میں خدا کا یہ پیغام اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ نبیوں اور رسولوں کے ذریعے سے دنیا تک پہنچتا تھا۔ تاہم انبیاعلیھم السلام بشرہی تھے اور ہر بشر کی طرح وہ بھی اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کر کے دنیا سے رخصت ہوجاتے تھے۔ حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ادریس، حضرت ہود اور حضرت صالح علیھم السلام قرآن مجید میں مذکور وہ پیغمبر ہیں جو زمانہ قبل از تاریخ میں گزرے اور اپنی اپنی قوموں میں خدا کا پیغام پہنچاتے اور انذار و تبشیر کرتے رہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب تمدن اس مقام پر نہیں پہنچا تھا کہ انسان علم کو کتابی شکل میں محفوظ رکھتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ وہ ہے جس میں تمدن اس جگہ پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ یہ اہتمام کیا جانے لگا کہ انبیا علھیم السلام کے بعد ان کی تعلیم کو محفوظ رکھنے اور لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے کلام الہی کو کتابوں کی شکل میں مرتب کر دیا جائے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی وہ پہلے نبی ہیں جن کے حوالے سے قرآن مجید میں کسی صحیفے کا ذکر ہوا ہے۔ قرآن مجید یہ بات بھی بیان کرتا ہے کہ دیگر انبیا پر بھی کتابیں نازل ہوئیں جن میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی تورات، حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب زبور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب انجیل غیر معمولی حیثیت کی حامل ہیں۔ یہ تینوں کتابیں اس وقت آسمانی صحیفوں کے اس مجموعے میں پائی جاتی ہیں جس کو بائبل کہا جاتا ہے۔ بائبل میں اور بھی دیگر انبیا سے منسوب صحیفے موجود ہیں اور محسوس یہی ہوتا ہے کہ یہ دیگر انبیا کو دی جانے والی وہی کتب ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے ، (البقرہ 213:2، الحدید 25:57)۔
تورات، زبور اور انجیل کے مضامین
تورات اپنی نوعیت کے اعتبار سے وہ رہنمائی ہے جو قانون و شریعت کی تفصیل کرتی ہے، تاہم اس میں اخلاقیات کا بیان بھی شامل ہے۔ یہ اس دور کے حوالے سے ایک مکمل رہنمائی تھی جب بنی اسرائیل آل فرعون کی غلامی سے نکل کر ایک آزاد خودمختار قوم کے طور پر اپنی زندگی کا آغاز کر رہے تھے اور انھیں زندگی کے ہر دائرے میں آسمانی رہنمائی کی ضرورت تھی۔ زبور خدا کی حمد، تسبیح و تمجید اور اس سے دعا و استمداد کے ان نغمات کا مجموعہ ہے جن کو مزامیر کہا جاتا ہے۔ یہ خدا اور بندے کے تعلق کی ایک زندہ تمثیل ہے جس کے مطالعے سے یہ بات معلوم سامنے آتی ہے کہ جو بندہ خدا کو سچے دل سے پکارتا اور اس کی حمد کے نغمے گاتا ہے ، خدا آسمان سے زمین پر اتر کراس کی حفاظت کرنے اور اسے وقت کا حکمران بنانے کی قوت رکھتا ہے۔ یہ کتاب اس حقیقت کا بیان ہے کہ خدا جس طرح قوموں کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے، اسی طرح افراد کے معاملات بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ انجیل اس حکمت اور اخلاقی تعلیم کو پوری طرح سامنے لے آتی ہے جس کی نگہبانی کے لیے قانون وشریعت دیے جاتے ہیں۔ یہ حکمت اور اخلاقی تعلیم اگر نگاہوں سے اوجھل ہوجائے تو مجرد شرعی قوانین کی پیروی وہ مقصد پورا نہیں کرتی جس کے لیے ان قوانین کو نازل کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کا دور
قرآن مجید سے قبل صحف سماوی کی شکل میں انبیا علیھم السلام کی تعلیمات مجموعی طور پر محفوظ رکھی جاتی تھیں، مگر چونکہ نبوت کا سلسلہ جاری تھا اور ہدایت کا اصل ماخذ یعنی انبیا علیھم السلام آتے رہتے تھے، اس لیے اس بات کی ضروت نہیں تھی کہ ان کتابوں کی مکمل حفاظت کا خدائی انتظام کیا جاتا۔ چنانچہ یہ ذمہ داری انسانوں کو دی گئی۔ تاہم جب نبوت کا ادارہ ختم کرنے کا وقت آیا تو اس بات کی ضرورت پیدا ہوئی کہ اب وہ کتاب نازل کی جائے جس کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو۔ قرآن مجید اسی دور کی کتاب اور اسی ضرورت کا جواب ہے ۔
قرآن مجید آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اس کے نزول کے ساتھ ہی آسمان سے وحی اترنے کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گیا۔ چنانچہ اس پس منظر میں اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ اس کتاب کی مکمل طور پر حفاظت کی جائے۔ اس مقصد کے لیے اس کے الفاظ اور اس کے متن کے ساتھ ساتھ وہ زبان یعنی عربی جس میں یہ کتاب نازل ہوئی اور وہ تعلیم جو اس کتاب میں مذکور ہے، ان سب کی حفاظت کا بھی مکمل اہتمام کیا گیا ہے۔ چنانچہ ختم نبوت کے بعد اب اس کتاب کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا، ان کی پسند وناپسند کا راستہ اور ان کی ہدایت جاننے کا یہ کتاب واحد مستند ذریعہ ہے ۔ یہ گویا کہ ایک نئے دور کی کتاب ہے جس میں نبوت کا ادارہ ختم کر دیا گیا اور اب قیامت تک انبیا کی تعلیم کے نظری پہلوؤں کو جاننے کا بنیادی ذریعہ یہ کتاب بن چکی ہے۔
اس کتاب کی حفاظت کے لیے نزول قرآن کے وقت اسے ہر طرح کی شیطانی دراندازیوں سے محفوظ بنا دیا گیا اور بعد میں بھی اس کی حفاظت کا بھرپور اہتمام کیا گیا۔ چنانچہ زمانہ رسالت ہی سے اس کتاب کے مکمل حفظ کا سلسلہ شروع ہوا اور پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور قرآن مجید کی وسیع اشاعت اور پھیلاؤکے بعد بھی آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
قرآن مجید کے مضامین
قرآن مجید میں بیک وقت وہ سارے مضامین پائے جاتے ہیں جو پچھلے صحف سماوی میں بیان ہوئے ہیں ۔ یعنی یہ تورات کی طرح قانون و شریعت کا بیان ہے، زبور کی طرح دعا ومناجات اور بندے اور رب کے تعلق کی زندہ تمثیل ہے اور انجیل کی طرح ایمان واخلاق کی اس دعوت کا بھرپور بیان ہے جو نجات کی اصل بنیاد ہے۔ اس طرح یہ کتاب پچھلی تمام کتابوں پر نگران بن گئی ہے اور وہ روشنی فراہم کرتی ہے جس کی موجودگی میں سابقہ کتب میں تحریف و تبدیلی کے باجود ایک طالب اطمینان سے پچھلی کتابوں کا مطالعہ کرسکتا ہے اور ان کے صحیح وسقم کو جان سکتا ہے۔
قرآن مجید دین کی اصل دعوت، دعوت کے دلائل، دعوت قبول کرنے والوں سے مطالبا ت اور ان کو خوشخبری اور دعوت کو رد کرنے کے نتائج کا بھی مکمل اور بھرپور بیان ہے۔ پچھلی صحف سماوی کے مقابلے میں قرآن مجید کی اضافی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قیامت کا انذار اور آخرت کے احوال کی بہت تفصیل کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دعوت حق کے دلائل کو جس تفصیل کے ساتھ اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے اور جس کی بہت کچھ تفصیل ہم نے پیچھے کی ہے، اس کی کوئی نظیر بھی پچھلی کتابوں میں نہیں ملتی۔ گویا انذار قیامت اور دعوت حق کے دلائل اس کتاب کی وہ اضافی خصوصیات ہیں جو اسے پچھلے صحیفوں سے منفرد اور نمایاں بناتی ہے۔
ان دونوں اضافی خصوصیات کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب اس دور کی کتاب ہے جب نبوت کا ادارہ ختم ہو چکا ہے ۔ ایسے میں اسے نہ صرف اپنی دعوت خود دینا ہے بلکہ علم و عقل کے ہر پیمانے پر اپنی دعوت کو ثابت کرنا ہے۔ نیز یہ کتاب چونکہ قیامت سے عین قبل نازل ہوئی ہے اس لیے قیامت کا انذار بھی اس کتاب کا خصوصی موضوع ہے ۔
قرآنی بیانات
’’اس نے تم پر کتاب اتاری حق کے ساتھ مصداق اس کی جو اس کے آگے سے موجود ہے۔ اور اس نے تورات اور انجیل اتاری اس سے پہلے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر۔ اور پھر فرقان اتارا۔ بے شک جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا، ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ غالب اور انتقام لینے والا ہے ۔‘‘ (ال عمران 3: 4-3)
’’اے ایمان والو، ایمان لاؤ اللہ پر، اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری۔ اور جو اللہ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار کرے وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘ (النسا 136:4)
’’بے شک ہم ہی نے تورات اتاری جس میں ہدایت اور روشنی ہے ‘‘ (المائدہ 44:5)
’’اور ہم نے اس(عیسیٰ علیہ السلام) کو عطا کی انجیل، جس میں ہدایت اور روشنی ہے ، مصداق اپنے سے پہلے موجود تورات کی، اور ہدایت اور نصیحت ڈرنے والوں کے لیے ‘‘ (المائدہ 46:5)
’’بے شک ہم ہی نے تورات اتاری جس میں ہدایت اور روشنی ہے، اسی کے مطابق خدا کے فرمانبردار انبیاء، ربانی علما اور فقہا یہود کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے، بوجہ اس کے کہ وہ کتاب الٰہی کے امین اور اس کے گواہ ٹھہرائے گئے تھے ‘‘ (المائدہ 44:5)
’’ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی ہے جس طرح نوح اور اس کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف وحی کی اور ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحٰق، یعقوب، اولادِ یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان پر وحی بھیجی۔ اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔‘‘ (النسا 163:4)
’’لوگ ایک ہی امت بنائے گئے، ( انہوں نے اختلاف پیدا کیا) تو اللہ نے اپنے انبیاء بھیجے جو خوشخبری سناتے اور خبردار کرتے ہوئے آئے اور ان کے ساتھ کتاب بھیجی قولِ فیصل کے ساتھ تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں، ان میں فیصلہ کر دے ۔‘‘ (البقرہ213:2)
’’بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں ۔‘‘ (الحدید 25:57)
’’یہ یاد دہانی ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘ (الحجر9:15)
’’جن لوگوں نے اللہ کی یاد دہانی کا انکار کیا جب کہ وہ ان کے پاس آ گئی (ان کی شامت آئی ہوئی ہے )، بے شک یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے ۔ اس میں باطل نہ اس کے آگے سے داخل ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے سے ۔ یہ خدائے حکیم و حمید کی طرف سے نہایت اہتمام کے ساتھ اتاری گئی ہے ۔‘‘ (حم السجدہ 41: 42-41)
’’یہی تعلیم اگلے صحیفوں میں بھی ہے ۔ موسیٰ اور ابراہیم کے صحیفوں میں ۔‘‘
(الاعلیٰ 87: 19-18)