مضامین قرآن (36) دعوت کا ابلاغ ۔ ابو یحییٰ
دعوت کا ابلاغ
مضامین قرآن کے اس سلسلے میں ہم نے دعوت کے دلائل کے بعد دعوت دین اور اس کے رد وقبول کے نتائج پرگفتگو شروع کی تھی۔ اس سلسلے کا پہلا موضوع دین کی بنیادی دعوت تھا جس کے ذیل میں ہم نے دعوت عبادت رب، تعارف رب، اورسنن الٰہی وغیرہ کا مطالعہ کیا تھا۔ دین کی بنیادی دعوت کے بعد دوسرا موضوع دعوت کا ابلاغ ہے۔ اس میں پہلی چیز جو ہم زیر بحث لائیں گے وہ فطرت کی وہ رہنمائی ہے جو ہر انسان میں ودیعت کر دی گئی ہے۔
فطرت کا الہام
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو خیر و شر کے جس اخلاقی امتحان میں اتارا ہے اس کی بنیادی اساس اس حقیقت پر رکھی گئی ہے کہ بنی نوع انسان اپنی فطرت میں جانوروں سے بالکل جدا ہے۔ جانور اپنی جبلتوں سے بلند کوئی شعور نہیں رکھتے۔ بھوک پیاس، افزائش نسل اور اپنی بقا کی جنگ سے اوپر اٹھ کر جانور اخلاقی بنیادوں پر کسی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس انسان جانتے ہیں کہ ظلم، حق تلفی، نا انصافی، دھوکہ دہی بری چیز ہے۔ امانت و دیانت، صدق وسچائی، عدل وانصاف، رحم اور ہمدردی اعلیٰ اوصاف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان روز ازل سے اپنے اندر فطرت کا وہ الہام لے کر اس دنیا میں آیا ہے جسے قرآن مجید جگہ جگہ سیدھی اور روشن راہ کہتا ہے۔ یہ وہ اخلاقی اصول ہیں جن کی پابندی ہردور میں لوگ کرتے آئے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگ ان اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ بہت لوگ کرتے ہیں اورہر دور میں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے بہت سے مادی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بغیر کسی خارجی دباؤ کے ان اخلاقی اصولوں کو اچھا سمجھ کر اختیار کرتی ہے اور رذائل کو برا سمجھ کر ترک کرتی ہے۔ جو لوگ ان اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ بھی ان کے کرنے کو برائی سمجھتے ہیں۔ کسی کی اخلاقی حس بالکل مردہ ہوجائے تب بھی جس لمحے اس کے ساتھ اخلاقی بنیادوں کو پامال کر کے برا معاملہ کیا جاتا ہے، اسے احساس ہوجاتا ہے کہ ایسا کرنا بالکل غلط ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان چیزوں کا منبع و ماخذ مذہب نہیں ہے۔ گرچہ مذہب ان کی چیزوں کی تائید و تصدیق کرتا ہے بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر وہ اپنی دعوت کو جس بنیاد پر پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی دعوت مسلمہ اخلاقی اصولوں پر پوری اترتی ہے۔ تاہم یہ اخلاقی اصول مذہب سے ہٹ کر اپنا ایک وجود رکھتے ہیں اور اپنی بقا کے لیے مذہب کے محتاج نہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جن اقوام میں صدیوں بلکہ ہزاروں برس سے کوئی رسول یا نبی نہیں آیا اور نہ ان میں کوئی الہامی کتاب پائی جاتی ہے، ان کے ہاں بھی یہ سارے اخلاقی تصورات اسی طرح جانے اورمانے جاتے ہیں۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید بار بار اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کے یہ تصورات نفس انسانی میں اول دن ہی سے ودیعت کر دیے ہیں اور انسان اپنے ضمیرکی عدالت میں ہر روز پیش ہوکر اپنا محاسبہ کرسکتا ہے اور انسان اس آئینے میں اپنا چہرہ خوب پہچانتا ہے۔ چاہے زبان سے وہ کچھ بھی کہے۔
اس ضمن کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان اخلاقی تصورات کا تعلق انسانوں کے باہمی معاملات ہی سے نہیں بلکہ وجود خداوندی اور خدا کی توحید یعنی ایک خدا کا تصور بھی اس میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں آنے سے قبل ایک روز تمام انسانوں کو پیدا کر کے ان کو اپنی ہستی اور اپنی توحید کا بھرپور شعور دیا تھا۔ قرآن مجید اس کو بھی واضح کرتا ہے کہ یہی توحید کا وہ تصور تھا جس کو شیطان نے اول دن سے اپنا ہدف بنایا اور اسی لیے انسانیت سب سے بڑھ کر توحید ہی کے معاملے میں راہ راست سے بھٹکتی رہی ہے۔ صرف توحید ہی نہیں بلکہ انسانی فطرت آخرت پر بھی بھرپور گواہی دیتی ہے۔ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ تمام انبیا کی دعوت اسی فطرت پر ہوتی ہے۔ فطرت کی یہ پکار اتنی واضح ہوتی ہے کہ کئی مقامات پر قرآن مجید میں اسے ’’بینۃ ‘‘، (مثلاً دیکھیے ہود 28:11) یعنی روشن دلیل قرار دیا گیا ہے۔ ان چیزوں پر ہم دلائل کے ضمن میں بہت تفصیل سے بات کر چکے ہیں اور وہاں ہم نے یہ بتایا تھا کہ کس طرح انسانی فطرت وجود باری تعالیٰ، توحید باری تعالیٰ اور روز قیامت پر گواہ ہے۔
قرآنی بیانات
’’قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا کہ اسے ٹھیک بنایا۔ پھر اس کی بدی اور تقویٰ اسے الہام کیا، کامیاب ہوا وہ جس نے اس نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کر دیا۔‘‘ (الشمس 91: 10-7)
ہم نے اس (انسان ) کو راہ سجھادی۔چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا (الدھر3:76)
’’(کیا ہم نے )دونوں راستوں کی طرف اس (انسان) کی رہنمائی نہیں کی‘‘ (البلد 10:90)
’’اور یاد کرو، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی اولاد کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ بنا کر پوچھا: کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ضرور، آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اِس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس سے بے خبر ہی تھے یا اپنا عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر آپ کیا اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟ ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں، (اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو) اور اِس لیے کہ وہ رجوع کریں۔‘‘
(الاعراف 7: 174-172)
’’(یہ قیامت کو جھٹلاتے ہیں)؟ نہیں (وہ تو ہو کر رہے گی اور اس کے لیے )، میں قیامت کے دن کو گواہی میں پیش کرتا ہوں اور نہیں (یہ کیسے جھٹلا سکتے ہیں) میں (ان کے اندر) ملامت کرنے والے نفس کو گواہی میں پیش کرتا ہوں۔‘‘ (القیامہ 75: 2-1)
’’اور ہم نے تمہارا خاکہ بنایا، پھر تمہاری صورت گری کی، پھر فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ فرمایا کہ جب میں نے تجھے حکم دیا تو تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا؟ بولا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا۔ فرمایا، پھر تو یہاں سے اتر، تجھے یہ حق نہیں ہے کہ تو اس میں گھمنڈ کرے، تو نکل، یقینا تو ذلیلوں میں سے ہے۔ بولا، اس دن تک کے لیے تو مجھے مہلت دے دے جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے، فرمایا، تو مہلت دے دیا گیا۔ بولا، چونکہ تو نے مجھے گمراہی میں ڈالا ہے اس وجہ سے میں تیری سیدھی راہ پر ان کے لیے گھات میں بیٹھوں گا، پھر میں ان کے آگے، ان کے پیچھے، ان کے داہنے اور ان کے بائیں سے ان پر تاخت کروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا۔ فرمایا، تو یہاں سے نکل خوار اور راندہ۔ ان میں سے جو تیری پیروی کریں گے تو میں تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔‘‘، (سورۃ اعراف 7: 18-11)
’’پس تم اپنا رخ یکسو ہو کر دینِ حنیف کی طرف کرو۔ اس دینِ فطرت کی پیروی کرو جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اسی کی طرف متوجہ ہو کر اور اسی سے ڈرو اور نماز کا اہتمام رکھو۔ اور تم لوگ مشرکین میں سے نہ بنو‘‘ (سورہ روم آیات 30: 30-31)