مضامین قرآن (35) دین کی بنیادی دعوت: سنن الٰہی اور اسرار و حِکم ۔ ابو یحییٰ
دین کی بنیادی دعوت: سنن الٰہی اور اسرار و حِکم
دین کی بنیادی دعوت کے باب میں ہم کم وبیش تمام مباحث کا مطالعہ کر چکے ہیں۔دین کی بنیادی دعوت کا پہلا موضوع ایک اللہ کی ذات پر ایمان، اس کی بندگی اور ساتھ میں شرک اور غیراللہ کی بندگی کی نفی تھا۔ اس کے بعد ذات باری تعالیٰ کے تعارف کا سلسلہ شروع ہوا اور اس ذیل میں ہم ذات و صفات کا جائزہ لے چکے ہیں۔ اس سلسلہ کلام کے آخر میں اب انشاء للہ ہم سنن الٰہی اور اسرار و حِکم پر بات کریں گے۔ سنن الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی دنیا کو کن اصولوں پر چلا رہے ہیں۔ جبکہ اسرار وحِکم سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ حکمتیں ہیں جو عام طور پر انسانوں سے پوشیدہ ہوتی ہیں، تاہم نزول قرآن مجید کے وقت اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض پر پردہ اٹھا کر ہمیں ان سے مطلع کر دیا۔
سنن و اسرار کے بیان کی وجہ
سنن الٰہی اور اسرار وحِکم کے بیان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی دنیا میں انسانوں کو اختیار و ارادہ دے کر بھیجا ہے، جو مکمل طور پر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور جہاں ہر طرف اسی کا حکم چل رہا ہے۔ مگر دوسری طرف انسان تکوینی طور پر خدا کا پابند بھی ہے۔
اس بات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی تصریح کے مطابق جس وقت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو انسانوں کے اس دنیا میں بسائے جانے کی اسکیم سے آگاہ کیا تو یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ اس دھرتی پر ایک خلیفہ یعنی صاحب اختیار و صاحب اقتدار ہستی کو مقرر کر رہے ہیں۔ چنانچہ اب صورتحال یہ ہے کہ اس دنیا میں ایک طرف انسان ہیں جو دیگر مخلوقات کے مقابلے میں زمین پر ہر طرح سے غلبہ و اقتدار رکھتے ہیں۔ یہاں انسان ہر پہلو سے خود کو آزاد دیکھتا ہے۔ اس آزاد اور خود مختار انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس کی خودمختاری کا لحاظ کرتے ہوئے معاملہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ابنیا ورسل بھی آتے ہیں وہ کسی مادی جبر کے بغیر اخلاقی بنیادوں پر انسانوں کے سامنے اپنی دعوت رکھتے ہیں۔ جس کا قبول کرنا یا رد کرنا کلی طور پرانسانوں کے اختیار میں ہوتا ہے۔
دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی اپنی ہستی ہے جو کائنات کا پورا انتظام چلا رہی ہے۔ ساری کائنات اس کے حکم پر عمل کرنے کی پابند ہے۔ کسی مخلوق کے لیے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اس پہلو سے وسیع تر کائناتی اسکیم میں انسانوں پر بھی اللہ ہی کا حکم چلتا ہے۔ چنانچہ ان دونوں پہلوؤں کو جب سامنے رکھا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایک بہت مشکل حسابی مساوات جنم لیتی ہے۔ ایک طرف خدا ہے جو قادر مطلق ہے اور کائنات کا فرمانروا ہے۔ دوسری طرف انسان ہے جسے زمین پر صاحب اختیار اور صاحب اقتدار بادشاہ بنایا گیا۔ اس کے بیچ میں خدا اور انسان کا وہ تعلق ہے جس میں انسانوں کے پاس خدا کا پیغام بھی آتا ہے اور ان کو اس پیغام کو قبول یا رد کرنا ہے۔ جس کے بعد خدا کو بھی انسان کے ساتھ جوابی معاملہ کرنا ہے۔
چنانچہ یہی وہ پس منظر ہے جس میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو یہ بتاتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں کس طرح اور کن بنیادوں پر انسانوں کے ساتھ معاملہ کر رہے ہیں۔ اس پہلو سے یہ علم ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے ذریعے سے انسان نہ صرف خدا کی معرفت درست طور پر حاصل کرسکتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ اپنے معاملے کو بھی مکمل طور پر درست رکھ سکتا ہے۔ یعنی انسان جان سکتا ہے کہ ہم کیا کریں گے تو جواب میں خدا کیا کرے گا۔ یہ اس دنیا میں دیا جانے والا سب سے بڑا علم ہے۔
یہیں سے یہ بات بھی واضح رہے کہ سنن و اسرار کا یہ علم مادی کائنات سے نہیں، انسانوں سے متعلق ہے۔ قرآن مجید کے یہ الفاظ کے تم سنت الٰہی میں تبدیلی نہیں پاؤ گے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے ساتھ اسی اصول پر معاملہ کریں گے۔ یہ نہیں کہ مادی کائنات کو جن قوانین پر انھوں نے بنایا، وہ ان میں تبدیلی نہیں کرسکتے۔ عام مادی قوانین میں تو وہ جب چاہیں مداخلت کر کے ان کو بدل دیں۔ مادی قوانین اوران سے متعلق سنن قرآن مجید کا نہیں طبعیات کا موضوع ہیں۔ قرآن مجید کی سنن و اسرار کا تعلق انسان سے ہے۔
سنن الٰہی
سنن الٰہی سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ معاملات ہیں جو اللہ تعالیٰ افراد و اقوام کے ساتھ مستقل طور پر کرتے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ ان میں سے اہم ترین سنن کا مختصر بیان درج ذیل ہے۔ ان کی تفصیل استاذ گرامی کی کتاب میزان کے باب ایمانیات میں دیکھی جا سکتی ہے۔
1۔ ابتلاء: اس دنیا میں ہر انسان کا امتحان ہورہا ہے۔ زندگی میں پیش آنے والے اچھے برے معاملات امتحان کا حصہ ہوتے ہیں۔
2۔ ہدایت و گمراہی: اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں فطرت انسانی، انفس و آفاق کی نشانیوں اور انبیا و رسل کی رہنمائی کی شکل میں انسانوں کی ہدایت کا پورا انتظام کر رکھا ہے، تاہم ہدایت کی توفیق وہ انھی کو دیتا ہے جو دل و دماغ کو کھلا رکھتے اور سماعت و بصارت کو استعمال کر کے خود کواس کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ اپنی خواہشات اور تعصبات میں مبتلا لوگوں کے دلوں پر اللہ کی طرف سے مہر لگا دی جاتی ہے۔
3۔ قابل عمل شریعت: ہدایت قبول کرنے کے بعد جو احکام و مطالبات ان کے سامنے رکھے جاتے ہیں، وہ ان کی برداشت سے زیادہ نہیں ہوتے۔ شریعت کا کوئی حکم انسانی استعداد سے زیادہ نہیں۔ اسی اصول پر شریعت میں ہر جگہ ضعیف اور معذور لوگوں کے لیے ہر پہلو سے رعایتیں ہیں۔
4۔ اقوام کا محشر: افراد کے برعکس جن کی حتمی سزا و جزا آخرت کے دن ہو گی، اقوام کا محشر یہ دنیا ہے ۔قوموں کے ساتھ ان کے عملی، علمی اوراخلاقی رویے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قوموں کا عروج و زوال اسی میں پوشیدہ ہے۔
5۔ اجتباء و نصرت الٰہی: اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت دنیا تک پہنچانے کے لیے لوگوں کا اجتباء یا انتخاب کرتے ہیں۔ پھر جن لوگوں کو یہ مشن تفویض کیا جاتا ہے، ان کی مدد بھی کی جاتی ہے۔ مگر یہ مدد صبر اور تقویٰ سے مشروط ہوتی ہے۔
6۔ توبہ واستغفار: جو لوگ احکام الٰہی کی خلاف ورزی کربیٹھیں، ان کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔ یہ توبہ تاہم ان کے لیے نہیں جو عمر بھر گناہ کریں اور پھر موت کو سامنے دیکھ کر توبہ کریں۔
7۔ سزاوجزا: انسانوں کی سزا وجزا کا اصل دن قیامت ہی ہے۔ تاہم رسولوں کی بعثت کے بعد ان کی اقوام کی سزاوجزا اسی دنیا میں برپا کی جاتی ہے۔ کفر کی پاداش میں قوم کو ہلاک کیا جاتا ہے اور ایمان لانے پر ان کو بچالیا جاتا ہے اور زمین کا وارث بنادیا جاتا ہے۔ یہی ضابطہ آل ابراہیم کے لیے ہے کہ ان کے اعمال بد پر ان پر اسی دنیا میں قومی مغلوبیت مسلط کی جاتی ہے اور اچھے اعمال پر اسی دنیا میں انھیں اجتماعی غلبہ دیا جاتا ہے۔
اسرار و حِکم
اس دنیا میں انسان تنہا مخلوق نہیں۔ دیگر مخلوقات بھی موجود ہیں۔ قرآن مجید نے ان کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ معلومات انسانوں کو دی ہیں اور ساتھ میں نظام کائنات کے حوالے سے بھی کچھ رموز کھولے ہیں۔ مثلاً سورہ کہف میں حضرت موسیٰ کے قصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح اس دنیا کے معاملات مختلف مصالح کے تحت چلائے جاتے ہیں جن میں اچھے لوگوں کو بظاہر نقصان اور برے کو فائدہ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لیکن حقیقت برعکس ہوتی ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ کائنات کی ہر شے خدا کی حمد و تسبیح کرتی ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی طرح جنوں کے ساتھ بھی معاملات کر رہے ہیں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ شیاطین کی ایک دنیا ہے جس میں وہ ہدایت پر چلنے والوں کی راہ میں روڑے اٹکاتے اور برائی کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ شیاطین کے سردار ابلیس نے انسانوں کے باپ آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا اور ان کی اولاد کو گمراہ کرنے کا عزم کیا تھا۔ ان چیزوں کے بیان کا مقصدیہ ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرے اور نامساعد حالات سے گھبرا کر ہمت نہ ہار دے ۔
قرآنی بیانات
’’ پس یہ نہیں انتظار کر رہے ہیں مگر اسی سنتِ الٰہی کا جو اگلوں کے باب میں ظاہر ہوئی۔ تو تم سنتِ الٰہی میں نہ کوئی تبدیلی پاؤ گے اور نہ تم سنتِ الٰہی کو ٹلتے ہی ہوئے پاؤ گے ۔‘‘ (فاطر35: 43-42)
’’اور یاد کرو جب کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انھوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خونریزی کرے اور ہم تو تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہی ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہی ہیں؟ اس نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرہ 30:2)
’’اور یاد کرو جب کہ ہم نے کہا فرشتوں سے کہ آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے بن گیا۔ اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی دونوں رہو جنت میں اور اس میں سے کھاؤ فراغت کے ساتھ جہاں سے چاہو اور اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے بن جاؤ گے۔ تو شیطان نے ان کو وہاں سے پھسلا دیا اور ان کو نکلوا چھوڑا اس عیش و آرام سے جس میں وہ تھے۔ اور ہم نے کہا کہ اترو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے لیے ایک وقت خاص تک زمین میں رہنا بسنا اور کھانا بلسنا ہے۔ پھر آدم نے پالیے اپنے رب کی طرف سے چند کلمات تو اس نے اس کی توبہ قبول کی۔ بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔‘‘ (البقرہ 2: 37-34)
’’جس نے پیدا کیا ہے موت اور زندگی کو تا کہ تمہارا امتحان کرے کہ تم میں کون سب سے اچھے عمل والا بنتا ہے۔ اور وہ غالب بھی ہے اور مغفرت فرمانے والا بھی۔ ‘‘ (الملک 2:67)
’’ہر جان کو موت کا مزا لازماً چکھنا ہے۔ اور ہم تم لوگوں کو دکھ اور سکھ دونوں سے آزما رہے ہیں پرکھنے کے لیے اور ہماری ہی طرف تمہاری واپسی ہونی ہے۔‘‘ (الانبیائ 35:21)
’’اور وہ لوگ جنہوں نے ہدایت کی راہ اختیار کی اللہ نے ان کی ہدایت میں افزونی بخشی اور ان کے حصہ کی پرہیزگاری ان کو عطا فرمائی۔‘‘ (محمد17:47)
’’ہمارا کام ہدایت دینا ہے ۔‘‘ (الیل12:92)
’’اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر ایک پائے گا جو کمائے گا اور بھرے گا جو کرے گا۔
اے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر بیٹھیں تو ہم سے مواخذہ نہ فرمانا۔ اور اے ہمارے پروردگار! ہمارے اوپر اس طرح کا کوئی بار نہ ڈال جیسا تو نے ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے ہو گزرے۔ اور اے ہمارے پروردگار! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ لاد جس کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو اور ہمیں معاف کر، ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما، تو ہمارا مولیٰ ہے ، پس کافروں کے مقابل میں ہماری مدد کر۔‘‘ (البقرہ 286:2)
’’اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کر لے اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی اور ان کا اس کے مقابل میں کوئی بھی مددگار نہیں بن سکتا۔‘‘، (الرعد11:13)
’’اے ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم اچھی طرح جمائے گا۔‘‘ (محمد7:47)
’’اللہ پر توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری تو انہی کے لیے ہے جو جہالت سے مغلوب ہو کر برائی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں، وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ اور ان لوگوں کی توبہ نہیں ہے جو برابر برائی کرتے رہے، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہوئی تو بولا کہ اب میں نے توبہ کر لی اور نہ ان لوگوں کی توبہ ہے جو کفر ہی پر مر جاتے ہیں۔ ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔‘‘ (النسا 4: 18-17)
’’اور ہر امت کے لیے ایک رسول ہے تو جب ان کا رسول آ جاتا ہے ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (یونس47:10)
’’ساتوں آسمان اور زمین اور جو ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ بے شک وہ بڑا ہی حلم والا اور بخشنے والا ہے ۔‘‘ (بنی اسرائیل 44:17)
’’اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول اور نبی بھی بھیجا تو جب بھی اس نے کوئی ارمان کیا تو شیطان نے اس کی راہ میں اڑ نگے ڈالے۔ پس اللہ مٹا دیتا ہے شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو، پھر اللہ اپنی باتوں کو قرار بخشتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو ان لوگوں کے لیے فتنہ بنائے جن کے دلوں میں روگ ہے اور جو سخت دل ہیں اور بے شک یہ ظالم اپنی مخاصمت میں بہت دور نکل گئے ہیں ۔‘‘ (الحج 22: 53-52)