مضامین قرآن (31) دین کی بنیادی دعوت ۔ ابو یحییٰ
دین کی بنیادی دعوت
دین کی دعوت اوراس کو ماننے اور رد کرنے کے نتائج قرآن مجید کا اہم ترین اور بنیادی موضوع ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلی چیز جو قرآن مجید میں زیر بحث آتی ہے وہ یہ ہے کہ دین کی بنیادی دعوت کیا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق دین کی بنیادی دعوت ایک اللہ پر ایمان اور اس کی عبادت ہے۔ اسی کے ضمن میں یہ بھی زیر بحث آ جاتا ہے کہ اللہ کی عبادت کیوں اور کیسے کی جائے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی بندگی کی دعوت ہی نہیں دیتا بلکہ اس کا مکمل اور جامع تعارف بھی کراتا ہے۔ یہی قرآن مجید کا سب سے اہم اور بنیادی مضمون ہے جس کے ذیلی مضامین درج ذیل ہیں ۔
الف) دعوت عبادت رب:
قرآن مجید کا مقصد نزول ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دینا ہے۔ قرآن مجید اس بات کو دو پہلوؤں سے زیر بحث لاتا ہے ۔
۱۔ ایک اس پہلو سے کہ اللہ پر ایمان لا کر اسی کو تنہا رب مانا جائے اور اسی کی عبادت کی جائے یعنی اسی کی ذات انسانوں کی پرستش، اطاعت اور نصرت و حمیت کا اصل محور و مرکز ہونا چاہیے ۔
۲۔ دوسرے اس پہلو سے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ یعنی شرک کی نفی کی جائے۔ خدا کے بالمقابل یا اس کے ساتھ کسی بت، انسان، جن و مَلَک، اجرام فلکی غرض کسی بھی ہستی کو بندگی و استعانت کا مرجع اور نفع وضرر کا مالک سمجھ کر اس کا رخ نہ کیا جائے۔ اس کی عبادت کی جائے نہ اسے پکارا جائے ۔
ذیل میں ہم ان نکات کی کچھ تفصیل کیے دیتے ہیں ۔
۱۔ اللہ پر ایمان اور اس کی بندگی کی دعوت
ایک اللہ پر ایمان اور اس کی بندگی کی دعوت قرآن مجید کا مرکزی خیال ہے۔دعوت کے دلائل میں دلائل توحید کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم نے یہ دیکھا تھا کہ قرآن مجید مختلف پہلوؤں سے بار بار یہ استدلال کرتا ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک تنہا ایک ہی رب ہے اور وہی عبادت و بندگی کا مستحق ہے۔ اس کائنات میں انسانوں کی ضروریات اور آسائشوں کا جو سامان مہیا کیا گیا ہے، یہ کائنات جس طرح ایک اعلیٰ اور برتر ہستی کے قبضہ قدرت میں ہے اور ہر مخلوق یہاں جس طرح عجز و بے کسی کا شکار ہے، یہ اس بات کا صاف ثبوت ہے کہ یہاں ایک ہی خالق ومالک کا راج ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے۔ ربوبیت و قدرت کی ان نشانیوں کے علاوہ قرآن انسانی فطرت کی اس آواز کو سامنے رکھتا ہے، خدا جس کی روح کی گہرائیوں میں بسا ہوا ہے اور جس فطرت پر حالات پردہ ڈال بھی دیں تو مشکل و بے چارگی میں انسان تڑپ کر اسی رب کو پکارتا ہے۔ پھر فطرت ہی نہیں کائنات میں پایا جانے والا نظم و توافق بھی یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی دوسرا خدا ہو سکتا ہے نہ یہ خود اپنے آپ چل سکتی ہے۔ ان سب کے ساتھ انسانوں کی معلوم تاریخ اور مسلمہ علم کی روایت میں توحید جس طرح مرکزی خیال رہی ہے اور اس کے علاوہ ہر دوسرا تصور ظن و تخمین اور وہم و گمان کے سوا کوئی اور بنیاد نہیں رکھتا، یہ حقیقت بھی اس پر گواہ ہے کہ رب کائنات ایک ہی ہے ۔
جب یہ ساری حقیقتیں ہیں تو پھر اس میں کیا شک ہے کہ ایک اللہ کو ماننا اور تنہا اسی کی عبادت کرنا ایک درست علمی اور اخلاقی رویہ ہے۔ قرآن مجید اسی کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ پھر پرستش کا ہر انداز چاہے وہ جسمانی عبادت ہو یا مالی نذر ہواللہ رب العزت کے لیے خاص ہونا چاہیے۔ دعا اسی سے مانگنی چاہیے۔ مدد اسی سے طلب کرنی چاہے۔ مشکل میں اسی کو پکارنا چاہیے۔آسانی میں اسی کو یاد رکھنا چاہیے۔ ہر معاملہ اسی کے سپرد کرنا چاہیے۔ ہر قدم اسی کے بھروسہ پر اٹھانا چاہیے۔ پھر صرف عبادت ہی نہیں بلکہ عملی زندگی کے دائرے میں بھی انسان کو اللہ ہی کی اطاعت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی کا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے۔ جہاں اس کا حکم آجائے وہیں انسان کا سرتسلیم خم ہونا چاہیے۔ جس چیز سے وہ روک دے، اس سے رک جانا چاہیے۔ عبادت اور اطاعت کے ساتھ نصرت اورحمیت کے پہلو سے بھی اللہ پروردگار ہی اس کے مستحق ہیں کہ بندے ان کی پکار کا جواب دیں اور ان کے حکم پر اپنی جان و مال کو اس کے حضور قربان کر دیں۔ قرآن مجید اسی دعوت کو مختلف پیرایوں میں بیان کرتا ہے ۔
قرآن مجید یہ بھی واضح کرتا ہے کہ گرچہ اس وقت رب العالمین غیب میں ہے، مگر مرنے کے بعد ہر انسان اس کی طرف ہی لوٹایا جائے گا۔ موت کے بعد ہی نہیں بلکہ اس زندگی میں بھی انسان اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ وہ جب چاہے لوگوں کو پکڑ لے۔ وہ جب چاہے ان کی گرفت کر لے۔ اس لیے کوئی انسان اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ ہاں وہ انسانوں سے بے نیاز ہے۔ مگر اس کی یہ عنایت ہے کہ اس نے انسانوں کو اپنی مرضی سے آگاہ کرنے کے لیے اپنے پیغمبروں کو بھیجا ہے۔ چنانچہ لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ غلط روش کو چھوڑ کر عبادت اور اطاعت کی اس راہ کواختیار کریں جو اس کے پیغمبروں نے دکھائی ہے تاکہ دنیا و آخرت میں وہ اس کے غضب سے بچ کر اس کی رحمت کے حقدار بن سکیں۔
قرآنی بیانات
’’ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ‘‘ (سورہ فاتحہ 4:1)
’’ اے لوگو، بندگی کرو اپنے اس خداوند کی جس نے تم کو بھی پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے گزرے ہیں، تا کہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہو۔ ‘‘ (سورہ بقرہ 21:2)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرو تم مگر اس حال میں کہ تم اسلام پر ہو۔‘‘ (سورہ ال عمران 102:3)
’’اور بے شک اللہ ہی میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی تو اسی کی بندگی کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے ۔‘‘ (سورہ مریم 36:19)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے انصار بنو، جیسا کہ عیسیٰ ابنِ مریم نے دعوت دی حواریوں کو، کون میرا مددگار بنتا ہے اللہ کی راہ میں؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ کے انصار بنتے ہیں تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا۔ تو ہم نے ایمان والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابل میں مدد کی تو وہ غالب رہے ۔ ‘‘ (سورہ صف 14:61)
’’اللہ ہی معبود ہے، نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی، زندہ اور قائم رکھنے والا۔‘‘ (سورہ ال عمران 2:3)
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب و حاضر کا جاننے والا، وہ رحمان و رحیم ہے ۔‘‘، (سورہ حشر 22:59)
’’وہی زندہ ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو پکارو، اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ۔ شکر کا سزاوار اللہ ہے، عالم کا خداوند۔‘‘ (سورہ مومن 65:40)
’’کہہ دو کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی، اگر یہ اعراض کریں تو یاد رکھیں کہ اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ (سورہ ال عمران 32:3)
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرنا اور میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھنا۔ ‘‘ (سورہ طہ 14:20)
’’ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، اس نے ان کو دعوت دی کہ اے میرے ہم قومو، اللہ ہی کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ میں تم پر ایک ہولناک دن کے عذاب کے تسلط سے ڈرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ‘‘ (سورہ اعراف 59:7)
’’اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے دعوت دی، اے میرے ہم قومو! اللہ ہی کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، تو کیا تم ڈرتے نہیں ۔‘‘ (سورہ اعراف 65:7)
’’اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ اس نے دعوت دی، اے میرے ہم قومو، اللہ ہی کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ (سورہ اعراف 73:7)
’’اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے دعوت دی، اے میرے ہم قومو، اللہ ہی کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ۔‘‘ (اعراف 85:7)
’’کہہ دو میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی ساجھی نہیں اور مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں پہلا مسلم ہوں۔ پوچھو، کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب بناؤں جب کہ وہی ہر چیز کا رب ہے اور ہر جان جو کمائی کرتی ہے وہ اسی کے کھاتے میں پڑتی ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ پھر تمہارے رب ہی کی طرف تمہارا لوٹنا ہو گا۔ پس وہ تمہیں بتائے گا وہ چیز جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘ (سورہ انعام6: 164-162)
’’کہہ دو، اے لوگو، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں۔ اس اللہ کا جس کے لیے ہی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی جِلاتا (زندہ کرتا) اور وہی مارتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے نبی اُمی رسول پر جو ایمان رکھتا ہے اللہ اور اس کے کلمات پر اور اس کی پیروی کرو تا کہ تم راہ یاب ہو۔‘‘ (سورہ اعراف 158:7)
’’اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو رائگاں نہ کرو۔‘‘ (سورہ محمد 33:47)
’’اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اولوالامر کی۔ پس اگر کسی امر میں اختلاف رائے واقع ہو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور روز آخرت پرایمان رکھتے ہو۔ یہ طریقہ بہتر اور با عتبارانجام اچھا ہے ۔‘‘ (سورہ نساء 59:4)