مضامین قرآن (30) دعوت اور اس کے رد و قبول کے نتائج ۔ ابو یحییٰ
دعوت اور اس کے رد و قبول کے نتائج
ہم نے پچھلی اقساط میں دعوت کے دلائل پر بات کی تھی۔ جس میں وجود باری تعالیٰ ، آخرت، توحید اورنبوت کے دلائل شامل ہیں۔ مضامین قرآن کو جس طرح ہم مرتب کر کے پیش کر رہے ہیں، اس میں دلائل کے بعد دوسرا موضوع دعوت اور اس کے رد و قبول کے نتائج ہیں۔ اصولاً تو یہی قرآن کا بنیادی موضوع ہے اور یہی سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ اسی لیے ہم نے اصل ترتیب میں اسے سب سے پہلے رکھا تھا، تاہم عام طور پر لوگ قرآن مجید کے دلائل سے بالعموم واقف نہیں اور نہ اس پر بہت زیادہ کام ہوا ہے، اسی لیے ہم نے ان کو پہلے بیان کر دیا تھا۔ چنانچہ دلائل کے خاتمے پر اللہ کا نام لے کر ہم دعوت اوراس کے رد و قبول کے نتائج پر گفتگو شروع کر رہے ہیں ۔ یہ موضوع تین ذیلی موضوعات پر مشتمل ہے :
۱) دین کی بنیادی دعوت
۲) دعوت کا ابلاغ
۳) دعوت کو ماننے اور رد کرنے کے نتائج
ہم ایک ایک کر کے اب ان پر مختصر گفتگو کریں گے اور ان کے ذیلی مضامین بیان کریں گے۔ ان پر تفصیلی بحث انشاء اللہ اپنے وقت پر کی جائے گی۔
1) دین کی بنیادی دعوت
دین کی بنیادی دعوت ایک اللہ پر ایمان اور اس کی عبادت ہے۔ یہی قرآن مجید کا سب سے اہم اور بنیادی مضمون ہے جس کے ذیلی مضامین درج ذیل ہیں ۔
الف) دعوتِ عبادتِ رب:
قرآمجید کا مقصد نزول ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دینا ہے۔ قرآن مجید اس بات کو دو پہلوؤں سے زیر بحث لاتا ہے ۔
۱۔ ایک اس پہلو سے کہ اللہ پر ایمان لا کر اسے تنہا رب مانا جائے اور اسی کی عبادت کی جائے یعنی اسی کی ذات انسانوں کی پرستش، اطاعت اور نصرت وحمیت کا اصل محور و مرکز ہونا چاہیے۔
۲۔ دوسرے اس پہلو سے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ یعنی شرک کی نفی کی جائے۔ خدا کے بالمقابل یا اس کے ساتھ کسی بت، انسان، جن و ملک، اجرام فلکی غرض کسی بھی ہستی کو بندگی و استعانت کا مرجع اور نفع وضرر کا مالک سمجھ کر اس کا رخ نہ کیا جائے۔ اس کی عبادت کی جائے نہ اسے پکارا جائے ۔
ب) تعارف رب
قرآن مجید اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی بندگی کی دعوت ہی نہیں دیتا بلکہ اس کا مکمل اور جامع تعارف بھی کراتا ہے۔ یہ تعارف تین پہلوؤں ں سے کرایا گیا ہے۔
۱۔ ذات:
اس تعارف کا پہلا جز ذات باری تعالیٰ کا تعارف ہے۔ جس میں اللہ کی ہستی اور اس کی کامل خصوصیات کا درست تصور دیا جاتا ہے۔
۲۔ صفات:
قرآن مجید تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اور خاص کر ان صفات کا تذکرہ کرتا ہے جو مخلوق کے لحاظ سے ظہور کرتی ہیں ۔ ان کی دو اقسام ہیں :
الف)صفات جمال
ب) صفات جلال
۳۔ سنن اور اسرار و حِکَم
یہ تعارف رب کے حوالے سے تیسری چیز ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی ان سنن کا بیان ہوتا ہے جو وہ انسانوں کے معاملے میں بروئے کار لاتے ہیں اور ان حکمتوں اور اسرار کا تعارف کراتے ہیں جو اس دنیا میں کار فرما ہیں ۔
سنن میں قرآن مجید یہ بیان کرتا ہے کہ فرد اور اقوام کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ہستی کس طرح ہمیشہ معاملہ کرتی ہے۔ یہ معاملہ الل ٹپ نہیں ہوتا بلکہ ایک متعین قانون کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ ان کو سنن الٰہی کہتے ہیں۔ جبکہ اسرار و حِکَم سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ حکمتیں اور معلومات ہیں جن تک انسانوں کی رسائی ممکن نہیں ۔
2) دعوت کا ابلاغ
یہ دعوت اور اس کے رد و قبول کے نتائج کے ضمن کا دوسرا اہم موضوع ہے۔ اس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں تک دعوت پہنچانے اور ان سے مکالمہ و مخاطبت کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ وجود باری تعالیٰ کی طرح یہ بھی ایمانیات کا موضوع ہیں۔ اس ضمن میں جو مضامین زیر بحث آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
۱) منصب نبوت و رسالت:
اس میں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ کسی انسان کی یہ حیثیت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے دعوت دینے کے لیے خود شرف مخاطبت عطا کریں۔ اس مقصد کے لیے انسانوں ہی میں سے کچھ اعلیٰ ترین شخصیات کو اللہ تعالیٰ اپنے علم وحکمت کی بنیاد پر چن لیتے ہیں اور انہیں یہ فریضہ سونپتے ہیں کہ وہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا پیغام اس طرح واضح کر دیں کہ قیامت کے دن انسان یہ عذر نہ پیش کرسکیں کہ ان تک ہدایت نہیں پہنچ سکی۔ چنانچہ سابقہ انبیا کے واقعات اور خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے مخاطبین سے ہونے والا مکالمہ بہت تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں زیر بحث آیا ہے ۔
نبیوں میں سے بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی دعوت اس درجہ کے واضح دلائل و براہین کے ساتھ ان کے مخاطبین پر واضح کر دی جاتی ہے کہ ان کے اللہ کی طرف سے بھیجے جانے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو رسول کہا جاتا ہے جو دعوت دین پہنچانے اور لوگوں کی رہنمائی کرنے کے ساتھ نہ ماننے والوں پر آخری درجہ میں اتمام حجت کر دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کی اقوام پر دنیا ہی میں سزا وجزا کی سنت روبہ عمل کر دی جاتی ہے ۔
۲) فرشتے :
ان انبیا پر عام طور پر فرشتوں کے ذریعے سے وحی کی جاتی ہے اور یہ فرشتے ہر طرح کی شیطانی آلائش سے پاک رکھتے ہوئے اس پیغام کو اللہ کے پیغمبروں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ فرشتے وہ کارکنان قضا و قدر بھی ہیں جو کائنات کا سارا تکوینی نظام اذن الٰہی سے چلا رہے ہیں۔ نیز مشرکین ان فرشتوں کو خدائی میں شریک سمجھتے تھے۔ اس بات کی تردید اور فرشتوں کا اصل کام، ان کے مکالمات اور کردار وغیرہ تفصیل سے قرآن مجید میں زیر بحث آئے ہیں ۔
۳) صحف سماوی:
انبیا علھم السلام پر نازل ہونے والا کلام الٰہی صحیفوں اور کتابوں کی شکل میں انسانوں کی ہدایت کے لیے محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ آنے والی نسلیں ان سے استفادہ کرسکیں۔ ختم نبوت کے بعد یہ کلام الٰہی قرآن مجید کی شکل میں تاقیامت انسانوں کے لیے محفوظ اور ہر طرح کی تحریف سے پاک کر دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جابجا تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحائف کے حوالے، ان کی تعلیمات اور تفصیلات زیر بحث آتی ہیں ۔
۳) دعوت کو ماننے اور رد کرنے کے نتائج (انذار وتبشیر)
یہ اس سزا و جزا کا بیان ہے جو انبیا کی دعوت اور ان کے پیش کردہ مطالبات کو رد کرنے یا ماننے کی شکل میں روز قیامت ملے گی۔ رسولوں کے ضمن میں اس کا ایک نمونہ اسی دنیا میں قائم کر دیا گیا ہے ۔ آخرت کی ایک دلیل کے علاوہ انذار و تبشیر کے پہلو سے ان اقوام کے قصے قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ جبکہ اپنی کامل شکل میں یہ سزا جزا کل انسانیت کے لیے روزقیامت برپا ہو گی۔ اس سے ذیلی مضامین درج ذیل ہیں جن میں سے ہر ایک پر بہت تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں گفتگو کی گئی ہے ۔
ا) موت اور برزخ
۲) احوال قیامت
۳) سزا جزا کے مقامات
[جاری ہے ]