مضامین قرآن (29) دلائل نبوت و رسالت: نبی کی دعوت کا علم وفطرت کے ہر میزان پر پورا اترنا ۔ ابو یحییٰ
دلائل نبوت و رسالت
نبی کی دعوت کا علم وفطرت کے ہر میزان پر پورا اترنا
نبی کی دعوت
نبوت و رسالت کے ضمن میں ابھی تک ہم نے چار پہلوؤں سے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ قرآن مجید کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کو ثابت کرتا ہے۔ پہلی دلیل آپ کی سیرت و شخصیت کے پہلو سے پیش کی گئی کہ ایسی بے مثل سیرت کا انسان خدا پر کبھی جھوٹ منسوب نہیں کرسکتا۔ دوسری اور تیسری کا تعلق نبی کے کلام کی نوعیت سے ہے کہ اس طرح کا معجزانہ کلام جو خدائی اسلوب میں ماضی اور حال اور مستقبل کی یکساں خبر دے رہا ہو وہ انسانی کلام نہیں ہو سکتا۔ چوتھی دلیل کا تعلق سابقہ صحف سماوی کی پیش گوئیوں سے تھا جو نبی عربی کے حوالے سے صدیوں سے ان کتب میں موجود ہیں۔ اورآج ہم پانچویں اور آخری دلیل کا مطالعہ کریں گے ۔
نبی کی صداقت کی پانچویں دلیل خود نبی کی اپنی دعوت کا متن اور اس کے مشمولات اور اس کی تعلیمات ہیں۔ نبی ایک دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خالق سے اذن پا کر مخلوق میں کھڑا ہوا ہے۔ اس پر آسمان سے وحی اترتی ہے اور وہ اپنا نہیں بلکہ خدا کا کلام لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ اگر غلط ہے تو پھر ایسا شخص نبی نہیں ہوتا بلکہ ایک کذاب ہوتا ہے۔ پھر اس کی تعلیم عقل و فطرت اور اخلاقیات کے معیارات، سابقہ انبیا کی تعلیمات اور جدید علمی دریافتوں سے بار بار ٹکرا جائے گی۔ ایسی تعلیم نہ معاصرین کے اعتراضات برداشت کرسکتی ہے اور نہ زمانہ کی دستبرد اور شیاطین کی دراندازی ہی سے خود کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نبی عربی کی تعلیمات ان تمام معیارات پرکھری ثابت ہوتی ہیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
نبی کی دعوت اور عقل و فطرت کے معیارات
سب سے پہلے مسلمہ عقلی ، فطری اور اخلاقی معیارات کو لیجیے۔ اسلام کی تعلیم بالکل سادہ ہے۔ ایک خدا پر ایمان لاؤ جو تم سب کا خالق اور مالک ہے۔ اس نے یہ دنیا انسانوں کے امتحان کے لیے بنائی۔ یہاں امتحان یہ ہے کہ کون اچھے کام کرتا ہے ۔ جو یہ کرے گا وہ اگلی اور ابدی دنیا میں بہترین جزا پائے گا اور جو نہیں کرے گا وہ اپنے انجام سے دوچار ہو گا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو انسان کی عقل، فطرت اورمسلمہ اخلاقی معیارات کے عین مطابق ہیں ۔ ان پر ہم تفصیل کے ساتھ توحید و آخرت کے دلائل میں گفتگو کر کے یہ بتا چکے ہیں کہ دین کی یہ بنیادی تعلیم کس طرح ہر پیمانے پر پوری اترتی ہے ۔
اس کے برعکس ذرا دیکھیے کہ دیگر مذاہب اور نظریات کس طرح کی غیر عقلی اور غیر فطری باتیں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً ملحدین یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں۔ جبکہ کائنات میں موجود نظم و توافق اور اس زمین پر موجود ربوبیت اور پرورش کا وہ سامان جس پر توحید کے دلائل میں ہم تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں، اس بات کو کسی طور قبول نہیں کرتا کہ یہ سب کچھ محض بخت و اتفاق کی کارفرمائی ہے۔ مسیحی حضرات عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں ۔ جبکہ عقل انسانی یہ کہتی ہے کہ کھانے پینے والا ایک فانی انسان کسی بھی طرح ایک لافانی اور غیر مادی خدا کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ یہودیت ایک خاص نسل کو خدا کا گھرانہ قرار دیتی ہے۔ اخلاق اور ضمیر کے کس پیمانے پر یہ درست مانا جا سکتا ہے کہ خدا سارے انسانوں میں سے صرف ایک گروہ کو محض اس بنیاد پر کہ وہ ایک خاص نسل سے تعلق رکھتے ہیں اپنا خصوصی قرب عطا کرے۔ ہندو مت لاتعداد دیوی دیوتاؤں، بت پرستی، چار طبقات میں انسانوں کی مستقل تقسیم کے علاوہ آواگون کا وہ غیر فطری نظریہ پیش کرتا ہے جس میں کسی سزا پانے والے کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ پچھلے جنم میں اس کے کیا جرائم تھے جن کی وہ سزا بھگت رہا ہے۔ بدھ مت ترک دنیا کی وہ دعوت دیتا ہے جو سننے اور دیکھنے میں جتنی بھی اچھی لگے، کسی صورت قابل عمل نہیں ہے۔ یہ اس دنیا میں موجود اہم ترین مذاہب اور نظریات کا حال ہے ۔ ان کے علاوہ دیگر مذاہب اور نظریات کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے ۔
یہ ایمانیات کا معاملہ ہے۔ دین کی اخلاقی تعلیم کا معاملہ بھی اس سے جدا نہیں ہے۔ یہ تعلیم انسانوں کے انسانوں سے تعلق کو احسان اور عدل کے اصول پر قائم کرتی ہے۔ دین کی یہ تعلیم زندگی کے ہر سرد و گرم میں انسان کو اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر قائم رکھتی اور دین و دنیا اور خالق و مخلوق کے حقوق کا ایک بہترین توازن برقرار رکھتی ہے۔ یہ مرد و عورت کے تعلق کو جانوروں کے آزاد تعلق کے بجائے عفت اور نکاح کے اس فطری تعلق پر استوار کرتی ہے جہاں بشری تقاضے اپنی تسکین بھی پاتے ہیں اور خاندان کا مضبوط ادارہ بچوں اور بوڑھوں کا بھرپور تحفظ بھی کرتا ہے۔ یہ تعلیم خالق کی شکر گزاری کا سبق دیتی ہے اور ساتھ میں مخلوق پر ظلم کرنے سے روکتی ہے۔ اور کسی مذہب میں انسان کے حیوانی، روحانی اور اخلاقی وجود کی ایسی تسکین نہیں جیسی دین کی اس تعلیم میں ہے ۔
یہی نہیں کہ یہ تعلیم عقل و فطرت کے عین مطابق ہے ۔ بلکہ ہر دورمیں انبیا و صالحین جس دعوت کو بہترین راستہ سمجھ کر پیش کرتے آئے ہیں یہ اس کے عین مطابق ہے۔ یہ تعلیم حضرت آدم کی فطری تعلیم سے لے کر حضرت نوح کی موحدانہ دعوت کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ حضرت ابراہیم کے اخلاق سے لے کر حضرت موسیٰ کی شریعت تک کی تکمیل کرتی ہے ۔ یہ انبیائے بنی اسرائیل کی موعظت سے لے کر حضرت لقمان کی بے مثل حکمت کی تفصیل کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے زمانے سے متاثر ہوکر یا اپنی خواہشات و تعصبات کے زیر اثر جن بوجھ اور بیڑیوں میں خود کو دین کے نام پر جکڑ لیا تھا، نبی عربی کی یہ تعلیم ان سارے بوجھوں کو اتارنے اور ساری بیڑیاں کھولنے کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہے ، (اعراف 157:7)۔
نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و تسلیم کی دعوت کا یہی پہلو اسے تمام مذاہب میں ممتاز بناتا ہے ۔ ہر انسان جو اپنی خواہش اور تعصب سے بلند ہوجائے اسے اپنی فطرت کی آواز سمجھ کر اسے قبول کرتا ہے اور اس کی عقل اور ضمیر، اسلام کی تعلیمات پر بالکل مطمئن رہتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ کے معاصرین اورآج کے سلیم الفطرت لوگ جنھوں نے اس دعوت کو سن کر پورے اعتماد کے ساتھ نہ صرف اسے قبول کیابلکہ اس کے حق میں گواہی دی۔
نبی کی تعلیمات کی ابدیت
نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے تین اجزاء تھے ۔ ایک ایمان کی دعوت یعنی توحید و آخرت جو دین کی اصل بنیاد ہے ۔ دوسرے اخلاقی تعلیمات جو کہ عمل صالح اور ہر خیر و فلاح کا معیا رہے اور تیسرے آپ کی عطا کردہ شریعت جو فرد اور سماج کو ہردور میں ایک قابل عمل ڈھانچہ عطا کرتی ہے ۔ ان کے علاوہ آپ نے اپنی دعوت کے حق میں بہت سے دلائل پیش کیے جن میں انفس و آفاق میں پھیلی ہوئی خدائی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی۔ یہ تعلیمات چونکہ آخری نبی کو دی گئی تھیں اس لیے یہ قیامت تک کے لیے خدا کی آخری رہنمائی تھی۔ اس تعلیم کا اگر احاطہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں سائنس اور سماجیات سے لے کر فلسفہ و اخلاق جیسے ہمہ گیر موضوعات کو بالواسطہ یا بلاواسطہ زیر بحث لایا گیا ہے ۔
اس پیغام کے نزول پر کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس گزر گئے ہیں ۔ اس دوران میں دنیا زرعی دور سے صنعتی دور اور اب انفارمیشن ایج میں داخل ہو چکی ہے ۔ سائنس اور سماجیات کے شعبے میں ایسا انقلاب برپا ہو چکا ہے کہ اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مرد و زن کے تعلق، حکومت و سیاست کے نظام، معاشی اور سماجی پہلوؤں سے انسانی معاشرے کچھ سے کچھ ہو چکے ہیں ۔ خود مسلمان دنیا کی سول سپر پاور کے مقام سے گر کر دو دفعہ ذلت اور مغلوبیت کا شکار ہوگئے ۔ مگر حیرت انگیز طور پر نبی عربی کی تعلیمات زمانے کی اس تمام تر تبدیلی کے مقابلے میں پوری شان سے کھڑی رہیں اور آج تک کھڑی ہوئی ہیں ۔
قرآن مجید کی دعوت کے وہ دلائل جو سرتا سر انفس آفاق کی نشانیوں پر مبنی ہیں اور جن کی بہت کچھ تفصیل ہم نے توحید و آخرت کے دلائل میں کی ہے ، فلسفے و سائنس کی ہر یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت ہیں ۔ سائنس نے کیا کیا دریافتیں نہ کر لیں، مگر قرآن میں موجود ایک آیت میں بھی کسی غلطی کی نشان دہی نہ ہو سکی۔ بائبل کے ابتدائی جملے پڑھ کر سائنسی معلومات رکھنے والا ایک شخص اس پر سے اعتماد کھودیتا ہے کیونکہ اس کا آغاز ہی اس بیان سے ہوتا ہے کہ خدانے دنیا کو ان چھ دنوں میں پیدا کیا جن میں سے ہر دن میں صبح بھی ہورہی تھی اور شام بھی ہورہی تھی یعنی یہ پیر، منگل ، بدھ والے ہفتے کے چھ ایام تھے۔ اس کے برعکس قرآن مجید بھی کائنات کی تخلیق کا حال جگہ جگہ بیان کرتا ہے ، مگر مجال ہے کہ کوئی لفظ بھی ایسا ہوجس پر اعتراض ہو سکے ۔
دوسری طرف دیکھیے تو آج انسانی سماج کہاں سے کہاں پہنچ گیا، مگر اسلام کی تعلیم پر کوئی حرف نہ آ سکا۔ اس کی اخلاقی تعلیم ہر اعتبار سے افراط و تفریط سے پاک اور ہر دور میں قابل عمل رہی۔ اس کی شریعت ہر زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق رہی۔اس ضمن میں ایک حقیقت بڑی دلچسپ ہے جس کی طرف ہم قارئین کی توجہ دلانا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ کہ جس طرح ہم نے پچھلی دلیل میں یہ دیکھا تھا کہ نبی کریم کی سچائی کا ایک ثبوت یہود و نصاریٰ نے غیر شعوری طور پر فراہم کر دیا تھا ، اسی طرح ایک دوسرے پہلو سے یہ ثبوت ہم مسلمانوں نے غیر شعوری طور پر فراہم کر دیا ہے۔ وہ یہ کہ بدلتے ہوئے زمانے میں بے شک اسلامی تعلیم کے نام پر رائج کچھ چیزیں ناقابل عمل قرار پائیں اور کچھ چیزوں کا غلط ہونا ثابت ہوا ہے ، مگر ان میں سے کسی چیز کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل دعوت سے ہرگز نہیں ہے ۔غلطی اگر کہیں ثابت ہوئی اور کوئی چیز قابل ترک اگر ٹھہری ہے تو وہ اہل اسلام کے اپنے اجتہادات اور آراء تھیں جو ایک زمانے میں قابل قبول بھی تھیں اور قابل عمل بھی، مگر نبی کی دعوت، نبی کی شریعت، نبی کی تعلیمات آج کے دن تک ہر اعتبار سے ہر علمی اعتراض اور ہر عملی مسئلے کے مقابلے میں پابرجا کھڑی ہیں ۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ جو انسانی کام تھا وہ زمانے کی گردش کا مقابلہ نہیں کرسکا اور جو نبی لے کر آئے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا اور اسی لیے آج تک اپنی جگہ موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔
نبی کی تعلیمات کی حفاظت
نبی کی دعوت حق کی دعوت ہوتی ہے ۔ حق کی دعوت کو ہمیشہ باطل کی طرف سے شدید اندیشہ لاحق ہوتا ہے ۔ نبی کی دعوت کو بھی یہ اندیشہ ابتداء ہی سے لاحق ہے ۔ مگر چونکہ اس دعوت کے پیچھے خودپروردگار عالم کی ہستی موجود تھی اس لیے اس دعوت کی حفاظت کا بھرپور انتظام کیا گیا۔ آسمان سے زمین تک وحی اتارنے کا فریضہ خود فرشتوں کے سردار حضرت جبریل علیہ السلام نے سرانجام دیا۔ نزول قرآن کے دور میں آسمان کو ہر طرح کے شیاطین کی دراندازی سے محفوظ کرنے کے لیے بھرپور انتظام کیے گئے ۔ جس کی گواہی خود خدانے، فرشتوں اور جنوں نے دی۔
ایک شخص جو خدا، فرشتوں اور جنوں کو نہیں مانتا شاید قرآن کے ان بیانات پر تعجب کرے گا ۔ مگر اللہ نے دعوت حق کی حفاظت کا خارج کی نظر آنے والی دنیا میں بھی اہتمام کیا ہے ۔ یہ اہتمام دعوت حق کی حفاظت کے ساتھ اس دعویٰ کی سچائی کا زندہ ثبوت بن گیا۔ مثلاً یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری زندگی بدترین دشمنوں میں گھرے رہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے اس فیصلے کا اعلان کر دیا کہ آپ وہ پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں جو آپ پر نازل کیا گیا ہے ۔اللہ آپ کو لوگوں سے بچالے گا۔ چنانچہ پوری زندگی تمام مشرکین عرب، یہودیوں اور نصاریٰ کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ لوگ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور آپ اطمینان سے اپنا مشن مکمل کر کے اور دین کو غالب کر کے فطری طور پر دنیا سے رخصت ہوئے ۔
یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے عین اس دور میں جب مسلمانوں کو اپنی جان بچانا مشکل تھا، یہ اعلان کر دیا تھا کہ یہ قرآن ہم نے نازل کیا ہے اور اس کی حفاظت ہم ہی کریں گے۔ قرآن کا یہ چیلنج بعینہٖ پورا ہوا۔ اوریہ کلام الٰہی جو نبی کی اصل تعلیم ہے آج کے دن تک محفوظ ہے ۔ اور شیاطین کی تمام تر کوششوں کے باوجود انشاء اللہ ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ نبی کی دعوت اور تعلیمات کے یہی وہ پہلو ہیں جو اس بات کازندہ ثبوت ہیں کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں اور آپ کا لایا ہوا کلام دراصل اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔ چنانچہ یہی وہ گواہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی ہے ، فرشتوں نے اس کی تائید کی ہے اور ہم بھی دل و دماغ کے پورے اطمینان، قلب و نظر کی پوری یکسوئی اور علم و بصیرت کی مکمل روشنی میں اللہ تعالیٰ کی اس گواہی کی تائید کرتے ہیں :
اللہ اس چیز کی گواہی دیتا ہے جو اس نے تم پر نازل کی ہے کہ اس نے اسے اپنے علم کے ساتھ ہی نازل کیا ہے، اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے ، (النسا 166:4)۔
قرآنی بیانات
’’بے شک یہ قرآن اس راستے کی رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان ایمان والوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔‘‘ (اسرا 9:17)
’’کہہ دو، میرے رب نے میری رہنمائی ایک سیدھے رستے کی طرف فرما دی ہے۔ دین قیم ابراہیم کی ملت کی طرف جو یکسو تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے ۔‘‘ (انعام 161:6)
’’یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی تو تم بھی انہی کے طریقے کی پیروی کرو۔ اعلان کر دو، میں اس پر تم سے کسی صلہ کا طالب نہیں ۔ یہ تو بس عالم والوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے ۔ ‘‘ (انعام 90:6)
’’اے رسول، تمہاری طرف جو چیز تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے اس کو اچھی طرح پہنچا دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ لوگوں سے تمہاری حفاظت کرے گا۔ اللہ کافروں کو ہرگز راہ یاب نہیں کرے گا۔‘‘ (مائدہ 67:5)
’’اس (قرآن) کو جلدی سیکھ لینے کے لیے اس کے پڑھنے پر اپنی زبان کو جلدی نہ چلاؤ۔ ہمارے ذمہ ہے اس کو جمع کرنا اور اس کو سنانا تو جب ہم اس کو سنا چکیں تو اس سنانے کی پیروی کرو، پھر ہمارے ہی ذمہ ہے اس کی وضاحت کرنا۔‘‘ (القیامہ 75: 19-16)
’’یہ یاددہانی ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘ (الحجر9: 15)
’’کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور حکم ڈھونڈوں درآنحالیکہ وہی ہے جس نے تمہاری طرف کتاب اتاری مفصل اور جن کو ہم نے کتاب عطا کی وہ جانتے ہیں کہ یہ تیرے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے حق کے ساتھ تو تم ہرگز شک میں پڑنے والوں میں سے نہ ہورہو۔‘‘ (انعام 114:6)
’’وہ (یعنی نبی) ان کو نیکی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں جائز ٹھہراتا ہے اور خبیث چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اور پابندیاں اتارتا ہے جو ان پر اب تک رہی ہیں ۔‘‘ (اعراف 157:7)
’’اور جن کو علم عطا ہوا ہے وہ، اس چیز کو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے ، سمجھتے ہیں کہ یہی حق ہے اور وہ خدائے عزیز و حمید کے راستہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔‘‘ (سبا 6: 34)
’’یہ ایک باعزت رسول کا لایا ہوا کلام ہے ۔ وہ بڑی ہی قوت والا اور عرش والے کے نزدیک بڑا ہی بارسوخ ہے اس کی بات مانی جاتی اور وہ نہایت امین بھی ہے۔‘‘ (تکویر 81: 21-19)
’’کہہ دو، مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کو سنا تو انہوں نے اپنی قوم کو بتایا کہ ہم نے ایک نہات دل پذیر قرآن سنا جو ہدایت کی راہ بتاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لائے اور اب ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے، اس نے اپنے لیے نہ کوئی بیوی بنائی ہے نہ کوئی اولاد اور یہ کہ ہمارا بے وقوف (سردار) اللہ کے بارے میں حق سے بالکل ہٹی ہوئی باتیں کہتا رہتا ہے۔ اور یہ کہ ہم نے گمان کیا کہ انسان اور جن خدا پر ہرگزکوئی جھوٹ نہیں باندھ سکتے۔ اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو جنوں میں سے بعض کی دہائی دیتے رہے ہیں تو انہوں نے ان کی شامت ہی میں اضافہ کیا اور یہ کہ انہوں نے بھی تمہاری ہی طرح یہ گمان کیا کہ اللہ کسی کو مرنے کے بعد زندہ کرنے والا نہیں ہے اور ہم نے آسمان کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ وہ سخت پہرہ داروں اور شہابوں سے بھر دیا گیا اور ہم اس کے بعض ٹھکانوں میں کچھ سن گن لینے کو بیٹھا کرتے تھے پر اب جو بیٹھے گا تو وہ ایک شہاب کو اپنی گھات میں پائے گا۔‘‘ (جن 72: 9-1)
’’ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اندر بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ قرآن بالکل حق ہے ۔ اور کیا تیرے رب کا ہر بات کا شاہد ہونا کافی نہیں ہے !‘‘ (فصلت 53: 41)