مضامین قرآن (27) دلائل نبوت و رسالت: خدائی کلام ۔ ابو یحییٰ
دلائل نبوت و رسالت:خدائی کلام
دعویٰ نبوت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت عرب کے کسی مصلح یا حکیم کی نہیں تھی۔ آپ نے نبوت اور رسالت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ دعویٰ کسی سرداری اور بادشاہی کا دعویٰ کرنے کے مترادف نہیں تھا کہ نصیب نے یاوری کی تو بادشاہت اور نہیں کی تو کم از کم ایک حوصلہ مند انسان تو کہلائیں گے۔ نبوت کا دعویٰ تو گویا عالم کے پروردگار کے نمائندے کی حیثیت سے خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے برابر تھا۔ وہ پروردگار جس کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے۔ جو سب کچھ جانتا ہے اور جو سب کچھ کرسکتا ہے۔ یہ دعویٰ کرنا بھی اتنے بڑے حوصلے کا کام ہے کہ انسانی تاریخ میں شاذ ہی کبھی کسی کو یہ ہمت ہوئی ہے کہ ایسا کوئی دعویٰ کرسکے ۔ کسی نبی کاذب یا نفسیاتی مریض نے یہ دعویٰ کیا بھی تو اس کے حصے میں رسوائی اور ندامت کے سوا کچھ نہیں آیا۔ نبوت کا دعویٰ کرنے والے کسی بھی شخص کو اس کے مخاطبین ایسے امتحانات سے گزارتے ہیں کہ اس کے لیے ان پر پورا اترنا کسی بھی طور ممکن نہیں ۔ اس کی ایک مثال ہم پچھلی دلیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی زندگی کے حوالے سے یہ دے چکے ہیں ایک طرف آپ ایک امی تھے اور ہر قسم کے تحریری علم اور مذہبی روایت سے آپ بالکل دور تھے اور دوسری طرف آپ تمام مذہبی علمی روایات اور واقعات کو اتنی تفصیلات کے ساتھ بیان کرتے تھے کہ گویا ہر واقعے کے ظہور کے وقت آپ وہیں موجود تھے اور اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ حتیٰ کہ آپ کے مخاطبین آپ سے متعین سوالات کرتے تھے جن کا علم کسی طور آپ کو نہیں تھا اور آپ ان کا تفصیلی جواب دے دیا کرتے تھے ۔
تاہم اس سے آگے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ کلام میں دو ایسی چیزیں تھیں جو کبھی کسی انسانی کلام میں ممکن نہیں ہو سکتیں۔ ایک یہ کہ آپ کا کلام ہر ارتقا اور تضاد سے پاک تھا اور دوسرا یہ ایسے غیر معمولی دعووں پر مشتمل تھا جن کا پورا ہونا معروضی حالات میں عملی طور پر ناممکن تھا لیکن آپ کے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے یہ سارے دعوے پورے ہوگئے ۔ ذیل میں ہم انھی کا تفصیل سے جائزہ لیں گے ۔
ارتقا اور تضاد سے پاک خدائی کلام
یہ بات ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذاتی زندگی میں علم و مذہب کی روایت سے بالکل دور تھے ۔ مگر ایک روز آپ نے دعویٰ نبوت کیا اور اس کے ساتھ ایک کلام کو خدائی کلام کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا۔ ہم اس کا بھی جائزہ لے چکے ہیں کہ یہ کلام ایک معجزانہ کلام تھا اور یہ بھی کہ یہ کلام ماضی کی پوری مذہبی روایت کا بھرپور احاطہ کرتا تھا۔ تاہم اس کلام کا ایک اور پہلو ایسا ہے جو کبھی کسی انسانی کلام میں نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ کہ یہ کلام اول دن ہی سے اپنے آخری کمال پر تھا اور آخری دن تک ہر قسم کے تضاد سے پاک رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہروہ شخص جو علم و مذہب کی روایت سے واقف ہے یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ ایک عالم یا مصنف پہلے دن ہی اپنا شاہکار تصنیف نہیں کرسکتا۔ ہر شخص علمی اور فکری ارتقا کے ایک خاص عمل سے گزرتا ہے۔ وہ ابتداء میں اپنے اساتذہ سے پڑھنا اور لکھنا سیکھتا ہے ۔ وہ درس وتدریس کے عمل سے گزرتا ہے ۔ پھر جو کچھ لکھنا پڑھنا اس نے سیکھا ہوتا ہے اس کی بنیاد پر وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ اس مرحلے پر بھی اس کے کلام میں غلطیاں ہوتی ہیں اور وہ اساتذہ فن سے اصلاح لیتا ہے ۔ اس کے کلام میں ناپختگی کے آثار جگہ جگہ نظر آتے ہیں ۔
جیسے جیسے اس کا علم بڑھتا ہے، اس کے کلام میں پختگی آتی چلی جاتی ہے ۔ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اس کا کلام خوب سے خوب تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ پھر ایک روز اس کے ذہن و قلم سے ایک شاہکار تخلیق ہوتا ہے ۔ اس کی تصنیف دنیا میں دھوم مچادیتی ہے۔ اس کی غزل ادب کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دیتی ہے ۔اس کے خطبات کا شہرہ چار سو ہوجاتا ہے۔ اس کے افسانے ، ناول اور ڈرامے فن کا معجزہ قرار پاتے ہیں ۔ تب وہ شیکسپیئر کہلاتا ہے ۔ وہ غالب بن جاتا ہے ۔ دنیا اسے خدائے سخن میر تقی میر کے نام سے جانتی ہے۔ اس وقت اقبال کی بال جبریل وجود میں آتی ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہ مقام، یہ مرتبہ ، کلام کی یہ عظمت ، خیال کی یہ رفعت، زبان پر ایسا عبور، سخن کی ایسی نزاکت ایک دن میں حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے لیے بہت ریاض کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بنیادی شرط ہی یہی ہے کہ انسان کہیں نہ کہیں سے اپنا آغاز ضرور کرے ۔ کوئی فنی معجزہ پہلے ہی دن عام انسانوں کے ہاں ظاہرنہیں ہو سکتا ۔ یہ کام صرف اور صرف ایک نبی کرسکتا ہے ۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ آپ نے پہلے دن ہی کلام کا معجزہ لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ارتقا سے پاک فن کا یہی کمال آپ کے نبی ہونے کا ثبوت ہے ۔
بات صرف کلام کے محاسن ہی تک محدود نہیں۔ انسان جن خیالات کو پیش کر رہا ہوتا ہے ۔ ان میں بھی ارتقا ہوتا ہے ۔ ارتقا سے بڑھ کر ان میں تبدیلی اور تضاد تک رونما ہوجاتا ہے ۔ کوئی مفکر، کوئی دانشور، کوئی فلسفی، کوئی حکیم اس عمل سے استثنا نہیں رکھتا۔ انسان فکر کے گھروندے تراشتا ہے، ان کی پرستش کرتا ہے اور ایک روز انھیں توڑ کر نئی منزل کی طرف نکل جاتا ہے۔ خاص کر کسی فکر اور دعوت کا تعلق اگر عملی زندگی سے ہو تو پھر ممکن ہی نہیں کہ فکر اور دعوت بدلتی زندگی کے بدلتے تقاضوں سے متاثر نہ ہو۔ پھر تو رائے بدلتی ہے ۔ انسان سابقہ رائے سے رجوع کر کے ایک برعکس رائے قائم کرتا ہی ہے۔ یہی قائد اعظم تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی۔ یہی علامہ اقبال تھے۔’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جیسا ترانہ تخلیق کرنے والے۔ مگر پھر قائد اعظم مسلمانوں کے لیے الگ وطن بنانے والے بانی پاکستان بن گئے اور اقبال ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا ‘‘ کہنے پر مجبور ہوگئے ۔
مگر سرکار دوعالم کا معاملہ یہ تھا کہ آپ مشرکین مکہ کے درمیان کھڑے ہو کر جس توحید و آخرت کی طرف بلاتے ہیں، آخری دن تک اس دعوت میں کوئی تبدیلی کوئی اضافہ اور کوئی ترمیم نہیں ہوتی۔ لوگ ہزار کوشش کرتے ہیں کہ اس پیغام میں تھوڑی سی تبدیلی کر لی جائے وہ کہتے ہیں کہ کوئی سمجھوتہ کر لو۔ کچھ تم پیچھے ہٹو کچھ ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ مگر تمام تر دباؤ کے باجود کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا۔ قرآن تصدیق کرتا ہے کہ یہ دباؤ اس قدر شدید تھا کہ اللہ تعالیٰ حضور کو اپنے موقف پر قائم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ حضور بحیثیت ایک انسان ان کی باتوں کی طرف کچھ مائل ہوجاتے ۔(بنی اسرائیل 74:17)۔ مگر معاملہ خدا کا تھا۔ اس لیے حضور حالات سے قطعی متاثر نہ ہوئے ۔ آپ کے کلام اور پیغام میں کوئی معمولی سی تبدیلی نہ ہو سکی۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آپ کا کلام تھا ہی نہیں ۔ ہوتا تو لازماً خیالات بدلتے۔ ارتقا ہوتا۔ تبدیلی ہوتی اور آپ کے کلام میں تضادات کی ایک دنیا آباد ہوتی۔ ان کا نہ ہونا ہی آپ کی صداقت کا ثبوت ہے ۔
اس معاملے کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اول تا آخر آپ کے کلام میں آپ کو ایک نبی کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔آپ نے پہلے دن خود کو نبی کہا اور آخری دن تک خود کو نبی کہتے رہے ۔ آج کے کسی نبوت کا دعویٰ کرنے والے کی طرح آپ نے پہلے دن خود کو مسیح نہیں کہا اور پھرترقی کر کے نبوت کے درجے پر نہیں پہنچے ۔کسی ظلی اور بروزی نبی کی بحث نہیں چھیڑی۔ کسی سابقہ نبی کا پیرو ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد ایک روز اپنی نبوت کا دعویٰ نہیں کر دیا۔ آپ پہلے دن ایک نبی تھے اور آخری دن تک نبی ہی رہے ۔ تضاد سے پاک آپ کی یہی حیثیت آپ کے نبی برحق ہونے کا ثبوت ہے ۔
کلام الٰہی کاخدائی لہجہ اورخدائی دعوے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کو خدائی کلام کے طور پر پیش کیا۔ اس کی زبان، اس کا لہجہ، اس کے الفاظ میں ہر جگہ خدا ذولجلال گفتگو کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ تاہم خدا کے لہجے میں بولنا کوئی آسان کام نہیں۔ کوئی شخص یہ کوشش کر بھی لے، مگر خدا کا لہجہ بنا کر بولنے سے کچھ نہیں ہوتا، خدا کہیں ہے تو اسے خدا والے کام کرنے بھی پڑتے ہیں۔ خدائی کے دعوے تو کیے جا سکتے ہیں ۔ مگر یہ دعوے نبھائے نہیں جا سکتے۔ تاہم قرآن مجید میں نہ صرف خدائی لہجہ اور خدائی دعوے ہر جگہ موجود ہیں بلکہ مسلمہ تاریخ اس کی مکمل تصدیق کرتی ہے کہ یہ تمام تر دعوے پورے ہوگئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بات معلوم ہے کہ آپ نے جب اپنی دعوت کا آغاز کیا تو حالات آخری درجے میں آپ کے خلاف تھے ۔ آپ بادشاہ تھے نہ سردار۔ مذہبی پیشوا نہ فوجی لیڈر۔ تن تنہا آپ نے دعوت دی تو اکا دکا لوگ ایمان لائے۔ جتنے لوگ ایمان لائے اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر مخالفت اور مزاحمت شروع ہوگئی۔ یہ مخالفت زبانی ہی نہیں تھی بلکہ عملی سطح پر آپ کے پیروکاروں کو بدترین تشدد اور ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ہیں وہ حالات جن میں قرآن مجید یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وقت کے یہ فرعون یہ سرداران قریش شکست کھا کر بھاگیں گے ۔ اس سرزمین مکہ سے ان کے قدم اکھاڑ دیے جائیں گے۔ قرآن کریم اس دعویٰ کے ثبوت میں سابقہ رسولوں کی داستانیں سناتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط، قوم ابراہیم، آل فرعون، قوم شعیب اور ان کے جیسی اور بہت سی اقوام نے بھی یہی سرکشی دکھائی۔ مگر آخر کار خدا کا عذاب آیا اور منکرین رسالت دنیا ہی میں ختم کر دیے گئے ۔ قرآن مجید صاف صاف قریش مکہ کو تنبیہہ کرتا ہے کہ بہت جلد ان کے ساتھ بھی یہی ہونے جا رہا ہے ۔ اس پر ہم نے بہت تفصیل سے آخرت کے دلائل میں رسولوں کی اقوام کی سزا و جزا کے عنوان سے بحث کی ہے ۔
یہاں جس چیز کو نمایاں کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ یہ سارے خدائی دعوے تھے۔ کوئی انسان اس طرح کے دعوے اتنی قطعیت کے ساتھ نہیں کرسکتا۔ مگر قرآن مجید نے دعوے بھی کیے اور صریح ترین پیش گوئیاں بھی کیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قرآن مجید کی ہر ہر پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔ قرآن نے کہا کہ کفار کی جمعیت شکست کھائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ جنگ بدر کے موقع پر انھوں نے شکست کھائی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر ہمارے نبی کو مکہ سے نکالنے کی کوشش کی گئی تو یہ اس سرزمین خود نہیں رہنے پائیں گے ۔ چند برس میں ٹھیک ایسا ہی ہوا۔ کفار کا نام و نشان عرب سے مٹ گیا۔ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے تم کو خیر کثیر دے دی اور تمھارے دشمن کی جڑ کاٹ دی۔ آخر کار حرم کی خیر کثیر حضور کو مل گئی اور ابوجہل اور ابولہب کی جڑ کاٹ دی گئی۔
یہی خدائی لہجہ ہمیں مدینے میں نظرآتا ہے۔ قرآن یہود سے کہتا ہے کہ تم نے اس نبی کو نہیں مانا تو اب تم بھی مغلوبیت کا مزہ چکھو گے۔ زیادہ وقت نہیں گزرتا کہ سرزمین عرب میں وہ مغلوب ہوجاتے ہیں ۔ قرآن مجید مدینہ میں مشرکین و یہود سے نبرد آزما مسلمانوں کو یقین دلاتا ہے کہ تم کو زمین میں اقتدار دے دیا جائے گا۔ کچھ ہی عرصے میں اقتدار دے دیا جاتا ہے۔ قرآن یہ فیصلہ دیتا ہے کہ اللہ نے رسول کو بھیجا ہی اسی لیے ہے کہ سرزمین عرب کے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ آپ کی وفات سے قبل یہ واقعہ بھی رونما ہوجا تا ہے ۔
یہ ہے خدائی لہجہ اور یہ ہیں خدا کے دعوے۔ کوئی انسان یہ دعوے کیسے کرسکتا ہے ۔ وہ کربھی لے تو وہ ان دعووں کو پورا کیسے کرسکتا ہے۔ اس کے بعد کیا چیز ہے جس پرلوگ ایمان لائیں گے؟
قرآنی بیانات
’’(اے نبی! یہود میں سے) ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا ہے یہ کہہ دو کہ تم مغلوب ہو گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے ۔‘‘ (اٰل عمرا ن 12:3)
’’وہ تمہیں تھوڑی سی زبان درازی کے سوا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اگر وہ تم سے جنگ کریں گے تو پیٹھ دکھائیں گے۔ پھر ان کی کوئی مدد بھی نہیں ہو گی۔‘‘ (اٰل عمران 111:3)
’’اور بے شک یہ اس سرزمین سے تمہارے قدم اکھاڑ دینے کے درپے ہیں تاکہ یہ تم کو یہاں سے نکال چھوڑیں ۔ اور اگر ایسا ہوا تو تمہارے بعد یہ بھی ٹکنے نہ پائیں گے۔ ہم نے تم سے پہلے اپنے جو رسول بھیجے ان کے باب میں ہماری سنت کو یاد رکھو اور تم ہماری سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے ۔‘‘
(بنی اسرائیل 17: 77-76)
’’اور کتنی ہی بستیاں ہیں جو قوت میں تمہاری اس بستی سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھیں جس نے تم کو نکالا ہے ۔ ہم نے ان کو ہلاک کر چھوڑا پس کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ بن سکا‘‘ (محمد 13:47)
’’اور دعا کرو کہ اے میرے رب مجھے داخل کر عزت کا داخل کرنا اور مجھے نکال عزت کا نکالنا اور مجھے خاص اپنے پاس سے مددگار قوت نصیب کر۔ اور اعلان کر دو کہ حق آ گیا اور باطل نابود ہو گیا اور باطل نابود ہونے والی چیز ہے ‘‘ (بنی اسرائیل17: 81-80)
’’اور اگر ہم نے تم کو جمائے نہ رکھا ہوتا تو قریب تھا کہ تم ان کی طرف کچھ جھک پڑو۔‘‘ (بنی اسرائیل 74:17)
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے عملِ صالح کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ ان لوگوں کو بخشا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو در حقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں ۔ ‘‘(النور 55:24)
’’پس ان کے اعمال کے برے نتائج ان کے سامنے آئے اور اِن لوگوں میں سے بھی، جنہوں نے شرک کیا ہے، ان کے سامنے ان کے اعمال کے برے نتائج جلد آ کے رہیں گے ۔اور یہ ہم کو ہرانے والے نہیں بن سکتے ۔‘‘ (زمر51:39)
’’اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جن کو تم پاؤ گے ۔ پس یہ اس نے تم کو فوری طور پر دے دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے کہ یہ موجب طمانیت اور مسلمانوں کے لیے نشانی ہو اور تمہیں سیدھی راہ کی ہدایے بخشے ۔ اور ایک دوسری فتح بھی ہے جس پر تم ابھی قادر نہیں ہوئے ہو لیکن اللہ نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘(فتح 48: 21-20)
’’کیا تمہاری قوم کے کفار ان قوموں کے کفار سے کچھ بہتر ہیں یا تمہارے لیے آسمانی صحیفوں میں برأت نامہ لکھا ہوا ہے! کیا اِن کا زعم ہے کہ ہم مقابلہ کی قوت رکھنے والی جمعیت ہیں! یاد رکھیں کہ ان کی جمعیت عنقریب شکست کھائے گی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ۔ ‘‘ (قمر54: 45-43)
’’پس تم بھی عنقریب دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ فتنہ میں پڑا ہوا تم میں سے کس گروہ کے ساتھ ہے ۔ تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ انہیں بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت یاب ہیں ۔ پس ان جھٹلانے والوں کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ ذرا تم نرم پڑو تو یہ بھی نرم پڑ جائیں گے ۔‘‘ ( القلم 68: 9-5)