مضامین قرآن (13) دلائل آخرت : مقصدیت کی دلیل ۔ ابو یحییٰ
دلائل آخرت : مقصدیت کی دلیل
آخرت کو ثابت کرنے کے لیے قرآن مجید میں بیان ہونے والی مقصدیت کی دلیل دراصل ذہن انسانی کے کچھ اشکالات اور سوالات کا جواب ہے ۔ ان سوالات کا جواب جب نہ دیا جائے تو انسان آخرت ہی کا نہیں خدا کی ہستی کا بھی منکر ہوجاتا ہے ۔ اس لیے اس دلیل کو سمجھنے کے لیے انسانی ذہن کے ان سوالات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے ۔ یہ بنیادی سوالات مندرجہ ذیل ہیں ۔
انسان اور دوام زندگی
انسان جس دنیا میں جیتا ہے ، اسے جب ایک حساس انسان کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے تو یہ عجیب و غریب تضادات کا مجموعہ نظر آتی ہے ۔ اس دنیا میں انسان نامی ایک مخلوق بستی ہے ۔ یہ مخلوق ذہن، سوچ، ارادہ اور اختیار رکھتی ہے ۔ یہ زندگی کی تمنا اور اپنے ہونے کا احساس رکھتی ہے ۔ یہ ذوق جمال، حسن اور محبت کا ادارک رکھتی ہے ۔ یہ خوبصورتی، لذت، ذائقے اور خوشبو کو محسوس کر کے اس سے لطف لیتی ہے ۔ یہ نغمہ و آہنگ سے حظ اٹھاتی، فن اور شعر کو داد دیتی رنگ و زیبائش سے محظوظ ہوتی اور صنعت و کاریگری سے استفادہ کرتی ہے ۔ یہ خیر و شر کا شعور، انسانیت کا لحاظ، نیکی و ہمدردی کے جذبات اور رشتے ناطوں کی پہچان رکھتی ہے ۔ یہ قربانی اور ایثار کی اعلیٰ ترین صفات کا شعور رکھتی اور ان کے لیے جان تک دے دیتی ہے ۔ یہ بہتر سے بہتر اور برتر سے برتر کی جستجو میں مشغول رہتی ہے ۔ ارتقا اور تنوع کی خواہش رکھتی ہے ۔ یہ ویرانوں کو آباد کرتی اور بیابانوں میں شہر بساتی ہے ۔ گویا ہر پہلو سے یہ مخلوق ہوتے ہوئے خالق کا کردار ادا کرتی ہے ۔
تاہم یہ انتہائی غیر معمولی مخلوق جس کی مثال اور مقابل کی کوئی اور چیز اس وسیع و عریض کائنات میں نہیں پائی جاتی ہے ، اس کی کل بساط ساٹھ ستر برس کے بعد ہمیشہ کے لیے مٹی میں دفن ہوجاتی ہے ۔ ایک مچھلی، ایک بکرا، ایک شیر، ایک کوا، ایک سانپ، ایک درخت، ایک پھول، ایک پھل اگر اپنا وجود کھودے تو یہ سوال اس طرح نہیں پیدا ہوتا۔ یہ بھی زندہ سہی مگر ذوق زندگی نہیں رکھتے ۔ ایک جانور مرجائے تو دوسرا جانور اس کی جگہ لے لیتا ہے ، ایک پھول مرجھاجائے تو دوسرا پھول گلستان کو سجا دیتا ہے ۔ مگر ایک انسان مرجائے ، اقبال مرجائے ، غالب مرجائے ، میرے اور آپ کے والدین رخصت ہوجائیں تو ان کی جگہ اور کوئی کیسے لے سکتا ہے ؟ انسان جیسی بامعنی مخلوق، باذوق ہستی، باشعور وجود جب مرتی ہے تو صفحہ ہستی پر اس سے بڑا سانحہ کوئی نہیں ہوتا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ صاحب اختیار، صاحب ارادہ، صاحبِذوق جمال انسان اس دنیا میں ایک صدی بھی نہیں جیتا لیکن پتھر اور چٹانیں کروڑوں برس اپنی جگہ استادہ رہتے ہیں ۔ یہ کیسا سانحہ ہے کہ مصور کی تصویر، فنکار کا نغمہ، سنگراش کا شاہکار، شاعر کی غزل رہ جاتی ہے ، مگر وہ مرجاتا ہے ۔
عام لوگ اس حقیقت کو اس لیے نہیں مانتے کہ ان کی عقل اور احساس اس کو قبول کرنا چاہتا ہے ۔ وہ مجبور ی میں دوسری راہ نہ پا کر موت کے جبر کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں ۔ مگر ایک حساس آدمی کا جب اس حقیقت سے سامنا ہوتا ہے تو وہ چلا اٹھتا ہے ۔ عام آدمی موت کے وقت رو کر اور چلا کر اپنے دکھ کا اظہار کر دیتا ہے اور اقبال جیسے خاص لوگ اس سانحے پر ماتم کرتے ہیں تو ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ جیسی لافانی نظم وجود میں آتی ہے جو آج بھی ہر پڑھنے والے کو اپنے مرحوم والدین کو یاد کر کے رونے پر مجبور کر دیتی ہے ۔
رونا انسان کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیتا ہے ، مگر یہ سوال اپنی جگہ پھر بھی باقی رہتا ہے اگر اس دنیا میں کوئی معنویت ہے تو انسان جیسی بامعنی مخلوق کا مقدر موت کیوں ہے ؟ یہاں زندگی ہے تو دوام زندگی کیوں نہیں ؟
انسان اور کمال زندگی
انسان زندگی ہی نہیں چاہتا بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ جب تک جیے زندگی سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو۔ مگر یہاں قدم قدم پر وہ رکاوٹیں ہیں جو اس سے جینے کا مزہ چھین لیتی ہیں ۔ انسان سکون کی زندگی جینا چاہتا ہے ۔ مگر محرومی کا طوفان بار بار اس کی دنیا الٹ دیتا ہے ۔
یہاں جوانی کے ساتھ بڑھاپا لگا ہوا ہے جو ایک توانا انسان سے اس کی ہر طاقت چھین لیتا ہے ۔ یہاں صحت کے ساتھ بیماری لگی ہوئی ہے جو انسان کے وجود کو سراپا اذیت بنا دیتا ہے ۔ یہاں زندگی کے ساتھ معذوری لگی ہوئی ہے جو جب کبھی لاحق ہوجائے تو انسان کو زندگی کی دوڑ سے باہر نکال پھینکتی ہے ۔ یہاں فراخی کے ساتھ غربت لگی ہوئی ہے جو زندگی کوانسان کے لیے مصیبت بنادیتی ہے ۔ یہاں خواہش کی تکمیل کی راہ میں فیصلہ کن طور پر محدودیت حائل ہے ۔ ہم لذید ترین کھانے کو چند لقموں سے زیادہ نہیں کھا سکتے ۔ بہترین مشروب کو چند گلاس سے زیادہ نہیں پی سکتے ۔ یہی محدودیت زندگی کا مزہ کرکرہ کر دیتی ہے۔ یہاں خوشی اور مزے کے ساتھ بوریت لگی ہوئی ہے ۔ پسندیدہ ترین نغمہ چند دفعہ سننے کے بعد بے اثر ہوجاتا ہے ۔ بہترین غذا روزانہ کھانے کے بعد بے مزہ ہوجاتی ہے ۔ یہ بوریت انسان کوزندگی کے حسن سے محروم کر دیتی ہے ۔
یہ سب کچھ اس انسان کے ساتھ ہو رہا ہے جس کی خواہش اس کائنات کی طرح لامحدود ہے ۔ جو سب کچھ اپنے دامن میں سمیٹنا چاہتا ہے ۔ مگر اس کا دامن تنگ پڑ جاتا ہے ۔ وہ سکون چاہتا ہے مگر بڑھاپا، بیماری، معذوری، غربت، محدودیت اور بوریت انسان کو بے چینی کے صحرا میں بھٹکتا چھوڑ دیتے ہیں اور وہ کبھی منزل مراد تک نہیں پہنچ پاتا۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں مدر ٹریسا جیسی خاتون جس نے ساری زندگی انسانوں کے دکھ دور کرتے ہوئے اورمذہب کے نام پر تیاگ دی، اس بنیاد پر خالق کے وجود پر شک میں مبتلا ہوگئی کہ دنیا میں اگر غربت، بیماری اور معذوری کے یہ دکھ پائے جاتے ہیں تو پھر خدا کا ہونا بہت مشکل ہے ۔
خدا کو جیسے تیسے مان بھی لیا جائے تب بھی یہ تلخ سوال اپنی جگہ باقی رہتا ہے کہ جب ہر خالق اپنی تخلیق کو عیوب سے پاک رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے تو اس زندگی کے خالق نے اسے محرومی اور مصائب کی ان گنت اقسام سے داغدار کیوں کیا؟ اگراس دنیا میں کوئی مقصدیت ہے تو یہاں شر اور خرابی اس درجے عام کیوں ہے ؟ اس دنیا میں اگر زندگی ہے تو کمال زندگی کیوں نہیں ؟
انسان اور عدل
عدل انسان کی فطرت کی طلب ہے ۔ وہ انصاف کو زندگی کی بنیاد سمجھتا ہے ۔مگر اس دنیا میں عدل نہیں پایا جاتا۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم اس کا سب سے بڑا مظہر ہے ۔ یہاں ذہین سے ذہین آدمی جوتیاں چٹخاتا رہ جاتا ہے جبکہ احمق اور ناکارہ لوگ اربوں میں عیش کرتے رہتے ہیں ۔ چلیے انسان مال کمانے کی کوشش کر کے کچھ نہ کچھ اپنے حالات بہتر کر لے ، مگر مال ہی کیا دیگر بہت سے پہلوؤں سے لوگوں میں ایسی تفریق پائی جاتی ہے جس کی کوئی تاویل اور کوئی تشریح نہیں کی جا سکتی۔ حسن، ذہانت، قد و قامت اوردیگر فطری اور قدرتی صلاحیتیں کس سے پوچھ کر بانٹی گئی ہیں ؟ کچھ لوگ اعلیٰ خاندانوں اورترقی یافتہ ممالک میں کیوں پیدا ہوجاتے ہیں ؟ ان میں ایسی کیا خوبی ہے جو کسی غریب یا کم صلاحیت والے کے ہاں پیدا ہونے والے بچے میں نہیں ؟
پھر اس دنیا کا نظم عجیب اصولوں پر چل رہا ہے ۔ سکندر اعظم حملہ کرتا ہے اور یونان سے ہندوستان تک ایک دنیا فتح کر لیتا ہے ۔ تاتاریوں کی آندھی اٹھتی ہے اور وسط ایشیا سے مشرق وسطیٰ تک کے مسلمانوں کو روندھتی چلی جاتی ہے ۔ ہٹلر جرمنی کا حکمران بنتا ہے اور یورپ کے کروڑوں لوگ دوسری جنگ عظیم میں اس کی ہوس اقتدار کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ ان فتوحات، ان جنگوں اور ان یلغاروں میں جو ہوس اقتدار کا شکار چند لوگوں کی تسکین کے لیے برپا کی گئی ہیں ، عام آدمی پر جو گزرتی ہے ، وہ جس طرح قتل ہوتا ہے ، اس کا خاندان جیسے برباد ہوتا ہے ، اس کی عورتیں جیسے پامال ہوتی ہیں ، اس کے بچے جیسے مارے جاتے ہیں ، اس کا اسباب جیسے لٹتا ہے ، وہ دلوں کو ہلادینے والی داستان ہے ۔ ایک حساس انسان بے اختیا ر چیخ اٹھتا ہے کہ اس دنیا کا اگر کوئی خدا ہے تو وہ کہاں ہے ؟ یہ دنیا اگر کسی اصول پر بنی ہے تو وہ کیا ہے ؟
جب انسان کو اس سوال کا جواب نہیں ملتا اور اکثر لوگوں کو نہیں ملتا تو تین رد عمل سامنے آتے ہیں ۔ ایک فکری رد عمل جس کی نمائندہ مثال برٹینڈ رسل ہے ، جس نے اپنی تصنیف ?Why I am not a christian میں ایسی ہی چیزوں کی بنیاد پر خدا کے وجود پر سوال اٹھا دیا۔ دوسرا ردعمل رہبانیت کی وہ تحریک ہے جس کی نمائندہ مثال سدھارتھ گوتم بدھ ہے ۔ وہ مسائل زندگی سے ناواقف ایک شہزادہ تھا جس نے پہلی دفعہ جب ایک جنازے ، بیمار اور بوڑھے کو دیکھا تو تخت وتاج اور ریاست چھوڑ کر رہبانیت اختیار کر کے اس میں سکون ڈھونڈنے لگا۔ تیسرا ردعمل وہ ہے جو عام لوگ اختیار کرتے ہیں کہ ان سوالات سے آنکھیں بند کر کے جو لذت دنیا مل سکتی ہے ، ہر خیر و شر سے بے نیاز ہوکر اختیار کی جائے ۔ مگر اس عمل کے نتیجے میں دنیا میں ظلم و فساد اور بڑھ جاتا ہے اور خود ایسے لوگ بھی کبھی حقیقی سکون نہیں پاتے اور بے نیل و مراد اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔ یہ وہ اہم ترین سوالات ہیں جنھوں نے ہر دور میں فکری اور عملی انسانوں کو مذہب سے دور کیا ہے اور ان کے جواب کے بغیر کوئی مذہب انسانی فطرت کا جواب نہیں ہو سکتا۔
[جاری ہے ]