مضامین قرآن (09) دلائل آخرت: فطرت کی دلیل ۔ ابو یحییٰ
دلائل آخرت: فطرت کی دلیل
انکار آخرت: ایک مقبول نظریہ
انکار آخرت دور حاضر کا مقبول ترین نظریہ ہے ۔ آج کل کے مذہبی لوگ ہوں یا غیر مذہبی ان سب کی تگ و دو کا اصل مقصود اسی دنیا کی فلاح اور ترقی ہے ۔کچھ لوگ یہ کام مذہب کی نفی کر کے کرتے ہیں اور باقی مذہب کو مانتے ہوئے بھی کرتے ہیں ۔ جو لوگ مذہب کا انکار کرتے ہیں ، ان کو تو جانے دیجیے کہ وہ دنیا ہی کو مرنے اور جینے کی آخری جگہ مان چکے ہیں ، مگر مذہب کے نام لیوا بھی ایسے نظریات سے اتنے متاثر ہو چکے ہیں کہ وہ منکرین آخرت کے جواب میں کوشش یہی کرتے ہیں کہ مذہب کا اصل مقدمہ ہی یہ ثابت کریں کہ وہ فرد و اجتماع دونوں کی دنیوی زندگی کو بہتر بنانے آیا ہے۔ اس کا نصب العین دنیا کو جنت بنانا ہے ۔ بلاشبہ مذہب اسلام کی تعلیم کی یہ خصوصیت ہے کہ اس پر عمل کے بعد فرد اور اجتماع دونوں کے دنیوی معاملات بہتر ہوجاتے ہیں ۔ مگر یہ ایک ثانوی نتیجہ ہے ۔ دین کا اصل مقصد نہیں ۔ دین کا اصل مقصد آخرت کی زندگی کے لیے لوگوں کو تیار کرنا ہے جہاں اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے سوا کسی اور طریقے سے کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ رہی دنیا تو یہ آزمائش کی جگہ ہے جہاں سے موت، بیماری ، غم ، ظلم ، فساد نہ کبھی ماضی میں ختم ہوئے ہیں نہ مستبقل میں ختم ہوں گے ۔ ہم انھی معاملات میں آزمائے جاتے ہیں اور ان حالات میں ہمارا رویہ ہی آخرت میں ہماری نجات یا ہمار ی گرفت کا ذریعہ بنے گا۔
فردوس کی تلاش
تاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان فطری طور پر اس دنیا میں دکھ، غم، پریشانی، بیماری، موت، بڑھاپے اور اس نوعیت کی ہر چیز کو ناپسند کرتا ہے جو اس کی زندگی کو مشقت میں ڈال دے ۔ انسان خوشی چاہتا ہے، آسائش پسند کرتا ہے، آسانی کی خواہش رکھتا ہے، راحت اور سکون کی تمنا کرتا ہے ۔ وہ اپنی زندگی نقصان سے بچنے اور منفعت حاصل کرنے کے اصول پر گزارتا ہے ۔ اوپر جن لوگوں کا ذکر ہم نے کیا کہ یہ لوگ دنیا ہی کو جنت بنانے کے خواہش مند ہیں ؛ ان کی یہ خواہش غیر حقیقی سہی، مگر غیر فطری ہرگز نہیں ہے۔ ابدی زندگی، عیش جاوداں ، لذت کامل، راحت مسلسل اور بے غم زندگی وہ انسانی خواب ہے جس کی تعبیر تو آج تک نہیں ملی، مگر انسانیت نے ایک دن کے لیے بھی اس خواب سے دامن نہیں چھڑایا۔ جس کو جتنا موقع ملا اِس نے دنیا میں اپنے لیے اتنی ہی جنت بنالی۔ وسیع و عالی شان محلات، بڑی بڑی جاگیریں ، سرسبز و شاداب سیرگاہیں ، بہترین سواریاں ، سونے چاندی کے ڈھیر، مستعد خدام، نوخیز شباب کی حامل حسین عورتیں ، نشہ آور شراب کی لذت، تفریح و مستی، آرام و سکون، دولت و طاقت، حکومت و اقتدار غرض انسان نے ان سب چیزوں کے ذریعے سے اس دنیا میں ہمیشہ اپنی فردوس گمشدہ کو تلاش کرنا چاہا اور آج تک کیے جا رہا ہے ۔ مگر یہ جنت ہاتھ نہیں آتی۔ کبھی کسی کو لمحہ بھر کو مل بھی جائے تو پھسلتی ریت کی مانند خاموشی سے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔
انسان کے اندر اس جنت کی طلب اتنی فطری ہے کہ اس کے لیے کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں ۔ انسان کو صرف اس کا تعارف کرانے کی ضرورت ہے ۔ قرآن مجید نے جس وقت آخرت کو فطری بنیادوں پر ثابت کرنا شروع کیا ہے تو کچھ نہیں کیا، بس آخرت کی زندگی کا نقشہ سامنے رکھ دیا۔ لوگ لاکھ قیامت کا انکار کریں ، اسلام کو رد کریں ، پیغمبر کا مذاق اڑائیں ، آخرت کو نہ مانیں ، مگر کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں جنت نہیں چاہیے ۔ وہ ابدی جوانی ، عیش لازوال ، صحت و عافیت سے بھرپور زندگی ، مستی و سرور سے عبارت آزادی کے خواہش مند نہیں ہیں ؟ وہ درد و غم، اندیشہ و حزن، خوف و خطر ، زحمت و نقصان، دکھ اور الم، اذیت اور مصیبت، سختی اور تکلیف، گھبراہٹ اور مایوسی، پشیمانی اور پچھتاوے ، ڈر اور محرومی کے ہر سائے سے محفوظ دائمی زندگی کے خواہاں نہیں ہیں ؟ ایسا ہے تو پھر بلاشبہ آخرت کا انکار ان کا حق بنتا ہے اور اس کی دعوت ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ، مگر انسان صبح و شام اسی جنت کی تعمیر کے منصوبے بناتا اوراٹھتے بیٹھے اسی کے خواب دیکھتا ہو تو اس خواب کی تعبیر دکھانے سے زیادہ فطری دعوت اور کیا ہو سکتی ہے ؟ یہی آخرت اسلام کی بنیادی دعوت اور مذہب کا بنیادی مقدمہ ہے ۔
انسانی ضمیر کی گواہی
انسان کے اندر جنت کی طلب کی طرح ایک دوسری چیز بھی فطرت انسانی کا جزولاینفک ہے ۔ یہ انسانی ضمیر اور اس کے اندر پیوست سزا جزا کا تصور ہے۔ انسان نے ہر دور میں اپنی زندگی کا نقشہ اسی اصول کے مطابق بنایا ہے ۔ انسانی ضمیر اخلاقی بنیادوں پر خیر و شر کا ایک بھرپور تصور اپنے اندر رکھتا ہے اور اس بنیاد پر ہمیشہ سزا و جزا کا قائل رہا ہے ۔ انسان ظلم کو فطری طور پر برا سمجھتا ہے اور چوروں اور قاتلوں کو اسی ظلم کی بنیاد پر سزا دیتا ہے ۔ جھوٹ ، بددیانتی، نا انصافی، بد عہدی، خیانت، غبن وغیرہ ہر دور، ہر نسل اور ہر گروہ میں برائی سمجھے گئے ہیں ۔ ان کے ارتکاب پر ہمیشہ انسانی ضمیر نے آواز اٹھائی ہے اور معاشرے نے انھیں برا سمجھا ہے ۔ اسی طرح سچ، ہمدرری، احسان، رحم، محبت، امانت، دیانت ، ایثار، قربانی جیسی چیزیں اعلی انسانی اقدار سمجھی گئی ہیں اور ان کو زندگی بنانے والے اپنے عمل کی داد سب سے پہلے اپنی فطرت سے پاتے ہیں اور پھر سارا معاشرہ ان کی تحسین کرتا ہے۔ اسی اصول پر ہم بچوں کو کامیابی پر انعام دیتے ، مزدور و ملازم کو تنخواہ دیتے اور ملک و قوم کے لیے جاں نثار کرنے والوں کو اعلیٰ قومی اعزاز سے نوازتے ہیں ۔
تاہم جس طرح فردوس ارضی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ، اسی طرح عدل و انصاف کے تقاضے بھی کبھی اس دنیا میں پورے نہیں ہو سکے ہیں ۔ ایک قاتل کی جان لینے سے مقتول کی زندگی واپس آ سکتی ہے نہ اس کے خاندان کا نقصان پورا ہو سکتا ہے۔ ریپ اور گینگ ریپ کے مجرم کو کون سی سزا اس معصوم عفیفہ کے دکھ کا ازالہ کرسکتی ہے جس کا سامنا اسے کرنا پڑا ہے ۔ یہ تو سزا ملنے کا ذکر ہے ، اکثر تو اس دنیا میں ظالموں کو سزا ہوتی نہ قاتلوں کو پکڑا جاتا ہے ۔ کرپٹ لیڈر یہاں حکمران بن جاتے ہیں اور ظالم لوگ بادشاہ۔ مفاد پرست عیش کرتے ہیں اور ایثار کرنے والے دکھ اٹھاتے ہیں ۔ محنت کرنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں اور چوری کرنے والے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔
ایسے میں فطرت انسانی چیخ چیخ کر یہ کہتی ہے کہ ایک دنیا اور بننی چاہیے جہاں عدل کامل ہو۔ جہاں مجرموں کو ان کے کیے کی مکمل سزا ملے ۔ اور جہاں نیکوں کاروں کو ان کی نیکی، صبر، ہمدردی، احسان اور ایثار کے صلے میں وہ فردوس ملے جو انسانیت کا خواب ہے ۔ قرآن اپنا مقدمہ ٹھیک اسی جگہ سے اٹھاتا ہے اور اتنے کمال طریقے سے اٹھاتا ہے کہ دوجملوں میں کل داستان ختم ۔ گرچہ اس کی تفصیل سے بھی قرآن بھرا پڑا ہے ۔ چنانچہ قیامت کے جھٹلانے والوں کے جواب میں قرآن مجید اپنا کل فطری مقدمہ جو ہم نے دو نکات کی شکل میں اوپر تفصیل سے بیان کیا ہے انتہائی مختصر اور جامع انداز میں یوں بیان کرتا ہے ۔
قرآنی بیانات
’’(یہ قیامت کو جھٹلاتے ہیں )؟ نہیں (وہ تو ہو کر رہے گی اور اس کے لیے )، میں قیامت کے دن کو گواہی میں پیش کرتا ہوں اور نہیں (یہ کیسے جھٹلا سکتے ہیں ) میں (ان کے اندر) ملامت کرنے والے نفس کو گواہی میں پیش کرتا ہوں ۔‘‘، (القیامہ 75 : 2-1)
اس سورہ قیامت سے اگلی سورت یعنی الدھر(76) میں قرآن مجید ایک دوسرے انداز سے فطرت کی اس دلیل کو اس کے سامنے رکھ دیتا ہے ۔ پہلے وہ بتاتا ہے کہ ہم نے انسان کو خیر و شر کا شعور دیا اور ساتھ میں یہ اختیار بھی کہ چاہے تو شکر گزار ی کی راہ اختیار کرے اور چاہے تو ناشکری کی۔ اس کے فوراً بعد جہنم کا نقشہ اختصار سے اور اس فردوس گمشدہ کا نقشہ بڑی تفصیل سے اس کے سامنے رکھ دیتا ہے ۔
’’ہم نے کفر کرنے والوں کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے ۔ ہاں ، وفادار بندے ایسی شراب کے جام نوش کریں گے جس میں چشمۂ کافور کی ملونی ہو گی۔ اس چشمہ سے اللہ کے خاص بندے پئیں گے اور اسی کی شاخیں نکال لیں گے جدھر جدھر چاہیں گے ۔ یہ اپنی نذریں پوری کرتے اور اس دن سے ڈرتے رہے ہیں جس کا ہول ہمہ گیر ہو گا اور وہ مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے رہے ہیں ۔ خود اس کے حاجت مند ہوتے ہوئے۔ (اس جذبہ کے ساتھ کہ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلاتے ہیں ، نہ تم سے کسی بدلے کے طالب ہیں نہ شکریہ کے ، ہم اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن سے اندیشہ ناک ہیں جو نہایت عبوس اور سخت ترش ہو گا۔ تو اللہ نے ان کو اس دن کی آفت سے بچایا اور ان کو تازگی اور سرور سے نوازا۔ اور انھوں نے جو صبر کیا اس کے صلہ میں ان کو جنت اور ریشمیں لباس عطا فرمایا۔ ٹیک لگائے ہوں گے اس میں تختوں پر۔ نہ اس میں گرمی کے آزار سے دوچار ہوں گے نہ سردی کے ۔ باغِ جنت کے سائے ان پر جھکے ہوئے اور اس کے خوشے بالکل ان کی دسترس میں ہوں گے ۔ اور ان کے سامنے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش میں ہوں گے ۔ شیشے چاندی کے ہوں گے ۔ ان کو انھوں نے نہایت موزوں اندازوں کے ساتھ سجایا ہو گا۔ اور وہ اس میں ایک اور شراب بھی پلائے جائیں گے جس میں ملونی چشمۂ زنجبیل کی ہو گی۔ یہ اس میں ایک چشمہ ہے جو سلسبیل سے موسوم ہے اور ان کی خدمت میں غلمان گردش میں ہوں گے جو ہمیشہ ایک ہی سِن پر رہیں گے ۔ جب تم ان کو دیکھو گے تو ان کو بکھرے ہوئے موتی گمان کرو گے ۔ جہاں دیکھو گے وہیں عظیم نعمت اور عظیم بادشاہی دیکھو گے ۔ ان کے اوپر سندس کا سبز اور استبرق کا لباس ہو گا اور وہ چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب ان کو پاکیزہ مشروب پلائے گا۔ بے شک یہ تمھارے عمل کا صلہ ہے اور تمھاری سعی مقبول ہوئی۔ (سورہ الدھر 76: 22-4)
فطرت انسانی میں خیر و شر کے اس شعور کو دوسرے مقامات پر ’’نفس میں نیکی و بدی کے الہام‘‘ ، ( الشمس 8:91) اور ’’دونوں راستوں کی طرف رہنمائی‘‘، (البلد 10:90) سے تعبیر کیا ہے ۔ جبکہ اس خیر و شر کی بنیاد پر کامل سزا و جزا پر مبنی آخرت کی ابدی دنیا کا نقشہ قرآن کریم میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے ۔ ہم ایسے ہی ایک مقام کے بیان کے ساتھ اس دلیل فطرت کا بیان مکمل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت انسان کا خواب ہے اور سزاو جزا اس کی فطرت کی پکار ہے ۔ قرآن اسی پکار کا الہامی اور آخری جواب ہے ۔
’’یاد رکھو، جب کہ واقع ہو پڑے گی واقع ہونے والی۔ اس کے واقعہ ہونے میں کسی جھوٹ کا شائبہ نہیں ۔ وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہو گی۔ جب کہ زمین بالکل جھنجھوڑ دی جائے گی اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ ہو کر منتشر غبار بن جائیں گے ۔ اور تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے ۔ ایک گروہ داہنے والوں کا ہو گا، تو کیا کہنے ہیں داہنے والوں کے ! دوسرا گروہ بائیں والوں کا ہو گا، تو کیا حال ہو گا بائیں والوں گا! رہے سابقون، تو وہ تو سبقت کرنے والے ہی ہیں ! وہی لوگ مقرب ہوں گے ۔ نعمت کے باغوں میں ۔ ان میں بڑی تعداد اگلوں کی ہو گی اور تھوڑے پچھلوں میں سے ہوں گے ۔ جڑاؤ تختوں پر، ٹیک لگائے ، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے ۔ ان کی خدمت میں غلمان، جو ہمیشہ غلمان ہی رہیں گے ، پیالے جگ اور شرابِ خالص کے جام لیے ہوئے گردش کر رہے ہوں گے جس سے نہ تو ان کو دردِ سر لاحق ہو گا اور نہ وہ فتورِ عقل میں مبتلا ہوں گے اور میوے ان کی پسند کے اور پرندوں کے گوشت ان کی رغبت کے ۔ اور ان کے لیے غزال چشم حوریں ہوں گی، محفوظ کیے ہوئے موتیوں کے مانند۔ صلہ ان کے اعمال کا جو وہ کرتے رہے ۔ اس میں وہ کوئی لغو اور گناہ کی بات نہیں سنیں گے۔ صرف مبارک سلامت کے چرچے ہوں گے ۔
اور رہے داہنے والے تو کیا کہنے ہیں داہنے والوں کے ! بے خار بیریوں ، تہہ بہ تہہ کیلوں اور پھیلے ہوئے سایوں میں ۔ اور پانی بہایا ہوا۔ میوے فراواں ، نہ کبھی منقطع ہونے والے نہ کبھی ممنوع۔ اور اونچے بستر ہوں گے اور ان کی بیویاں ہو گی جن کو ہم نے ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہو گا، پس ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں ، دلرُبا اور ہم سنیں ۔ یہ نعمتیں داہنے والوں کے لیے ہوں گی۔ ان میں اگلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ ہو گا اور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ۔
اور بائیں والے تو کیا ہی برا حال ہو گا بائیں والوں کا! وہ لُو کی لپٹ، کھولتے پانی اور دھوئیں کے سایہ میں ہوں گے جس میں نہ کوئی ٹھنڈک ہو گی اور نہ کسی طرح کی کوئی افادیت۔ یہ لوگ اس سے پہلے خوش حالوں میں سے تھے اور سب سے بڑے گناہ پر اصرار کرتے رہے ۔ اور کہتے تھے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا از سرِ نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ! اور کیا ہمارے اگلے آباء و اجداد بھی! کہہ دو! اگلے اور پچھلے سب جمع کیے جائیں گے۔ ایک معین دن کی مقررہ مدت تک۔ پھر تم لوگ، اے گمراہو اور جھٹلانے والو، زقّوم کے درخت میں سے کھاؤ گے اور اسی سے اپنے پیٹ بھرو گے ، پھر اس پر کھولتا پانی تونسے ہوئے اونٹوں کی طرح پیو گے ۔ یہ جزا کے دن ان کی پہلی ضیافت ہو گی! (واقعہ 56: 56 -1)
[جاری ہے ]