مضامین قرآن (07) وجود باری تعالیٰ کے دلائل ۔ ابو یحییٰ
وجود باری تعالیٰ کے دلائل
سابقہ گفتگو کا خلاصہ
ہم قرآن مجید میں بیان ہونے والے وجود باری تعالیٰ کے دلائل پر گفتگو کر رہے ہیں۔ دور جدید میں چونکہ علمی سطح پر اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے ہم بہت تفصیل میں جا کر قرآن مجید کے ان دلائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اس بات کو بالکل متعین کر دیتے ہیں کہ کس طرح عمل و عقل کی انسانی روایت خدا کو ماننے پر مجبور ہے ۔ ہم نے اب تک دو بنیادی دلائل دیکھے ہیں ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اس مادی کائنات میں حیوانی وجود لے کر پیدا ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ اپنے اندر ایک روحانی اور اخلاقی حس بھرپور طریقے سے محسوس کرتا ہے۔ یہ حس نہ صرف مادی حواس خمسہ سے بالکل جدا ہے بلکہ تقاضہ کرتی ہے کہ اس کا ماخذ خدا کی ہستی کو مانا جائے۔ دوسری دلیل یہ بتاتی ہے کہ انسان کو عقل و فہم کی جو استعداد دی گئی ہے وہ اس کائنات کا تجزیہ اور اپنے اندر سے اٹھنے والے جذبات و احساسات کا ادراک کرسکتی ہے ۔ وہ جب یہ کرتی ہے تو کائنات میں موجود زندگی اورتخلیق کا سلسلہ، متضاد عناصر میں پایا جانے والا ربط و مقصدیت کا عنصر اور وجود انسانی کی اندرونی پکار یہ سب مل کر مطالبہ کرتے ہیں کہ حیات و کائنات کو ایک خالق ، اس میں پائی جانے والی ربط و نظم کو ایک ناظم اور انسان کی جبین نیاز کو ایک معبود کی ضرورت ہے ۔ اس خالق، ناظم اور معبود کا انکار کر کے انسان ساری زندگی بے مقصد اندھیروں میں بھٹکنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔
تیسری دلیل: خدائے متکلم
اب تک کے دلائل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے ۔انسان اس خالق کا بھرپور شعور رکھتا اور کائنات اس خالق و ناظم کا مکمل تعارف کراتی ہے۔ یہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ انسان نے اوہام سے نکل کر فلسفہ و سائنس کی وادیوں میں قدم رکھا تو بہرحال ایک خالق کا انکار وہ نہیں کرسکے ۔مگر یہ خالق بہرحال ایک ایسی ہستی محسوس ہوتا ہے جس نے کائنات اور انسان کو بنا تو دیا، مگر اس کے بعد گویا وہ اس جہاز کو ایک آٹو پائلٹ کے حوالے کر کے غیر متعلق ہو چکا ہے۔ قوانین فطرت زلزلے اور سیلاب کی شکل انسانی آبادیوں کو نگل جائیں مگر وہ بے پروا، اس کے نام پر کھڑے لوگ اختلاف و عناد میں ہر حد عبور کرجائیں مگر وہ بے نیاز، ظلم و فساد دھرتی کے خشک و تر کو بھر دے مگر وہ بے حس وحرکت؛ ایسے خدا کو ماننا کسی معقول آدمی کے لیے بہت مشکل کام ہے۔ چاہے کائنات کچھ بھی کہے اور انسان کا اندرونی وجود کچھ بھی پکارے۔ عقل، علم، فہم، بصیرت، معرفت غرض سب کا تقاضہ ہے کہ اگر خدا ہے تو اپنے آپ کو ظاہر کرے۔ انسانی آنکھ اس کی براہ راست دید کا تقاضہ کرے تو اس کا غضب بجا لیکن سماعت کے دریچے اس کی صدا سنیں اور فہم کی آنکھ اس کا ادراک کرے ، یہ مطالبہ کیسے غلط ہو سکتا ہے۔ سب سے نہ سہی وہ کچھ سے کلام کرے۔ سو اگر وہ ہے تو اسے سامنے آنا ہو گا۔ نہیں ہے تو کبھی سامنے نہیں آئے گا۔ پھر جو ہے وہ بس کہانیاں ہیں اور داستانیں ہیں اور کچھ نہیں ۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے پیغمبر اٹھتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ نہیں نہیں! ایسا نہیں ہے ۔ باخدا ایسا نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ خدائے کائنات نے ان سے کلام کیا ہے ۔اپنی مرضی سے انھیں آگاہ کیا ہے۔ فطرت کی پکار کو انسانی الفاظ میں بیان کیا ہے۔ کائنات کے اسرار کو کھلے حقائق میں بیان کیا ہے ۔ ظلم و فساد کی وجوہات کو کھولا ہے ۔ مذہبی اختلاف میں اپنی ہدایات کو کھولا ہے۔ اس کے آغاز و انجام کی حقیقتوں کو واضح کیا ہے ۔ اس کے ماضی اور مستقبل کی سچائیوں کو واضح کیا ہے ۔ وہ بول رہا ہے۔ اپنے وجود کو بول کر ثابت کر رہا ہے ۔ وہ اپنی بندگی کی طرف بلا رہا ہے تو اس کے ناقابل انکار دلائل دے رہا ہے ۔ وہ رسولوں کو اٹھا رہا ہے تو ان کی سچائی کے یقینی دلائل پیش کر رہا ہے ۔ وہ اپنی مرضی بتا رہا ہے ۔ اپنی مرضی پر چلنے کا انجام بتا رہا ہے ۔ اپنی ناراضی کا نتیجہ بتا رہا ہے ۔ یقین دلا رہا ہے کہ ایک روز تم اس کے حضور پیش ہو گے جہاں آج کے روحانی حقائق کل کے مادی حقائق میں بدل جائیں گے ۔ آج کا ہر اخلاقی عمل کل جنت کے انعام اور آج کی ہر بداخلاقی کل جہنم کی آگ میں بدل جائے گی۔
اچھا ! تمھیں یقین نہیں آتا۔ تم عقل و فطرت پر مبنی اور انفس و آفاق سے اٹھنے والے دلائل کو نہیں مانتے ۔ چلو کچھ دیر رکو ! ہم ان نتائج کو اسی دنیا میں برپا کر کے دکھاتے ہیں ۔ پھر زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ تنہا اٹھنے والے پیغمبر اور ان کے گنتی کے پیروکار زمین کے وارث بنا دیے جاتے ہیں ۔ اور وقت کے فرعونوں اور رسولوں کے منکرین کی جڑ کاٹ دی جاتی ہے۔ ایک معجزہ ہوجاتا ہے ۔ ایک ناقابل یقین واقعہ پیش آ جاتا ہے ۔ مادی دنیا میں طاقت کا سارا زور رکھنے والے برباد ہوجاتے ہیں اور اخلاقی زندگی جینے والے ضعفاء بادشاہ بن جاتے ہیں ۔ یہ واقعہ کچھ صدیوں کے بعد بار بار کیا جاتا رہا اور آخری دفعہ چودہ سو برس قبل اس واقعہ کو رونما کر کے اس کی پوری روداد قرآن مجید میں محفوظ کر دی گئی۔ابو جہل اور ابو لہب جیسے قریش کے طاقتور سردار ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگئے اور تنہا اٹھنے والے خدا کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے بادشاہ بن گئے ۔ قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ گئے اور نبی عربی کے غلام عرب و عجم کے مالک بن گئے ۔
قرآن مجید درحقیقت ایسا ہی ایک صحیفہ رسالت ہے جس میں خدائے متکلم پورے طور پر زندہ و جاوید، فعال و متحرک ہستی کے روپ میں نظر آتا ہے۔ وہ پیغمبر کو اٹھاتا ہے ۔ کلام نازل کرتا ہے ۔ لوگوں کو دعوت دیتا ہے ۔ دعوت کے دلائل بیان کرتا ہے ۔ چلنے والوں کو راہ دکھاتا ہے ۔ ماننے والوں کی رہنمائی کرتا ہے ۔ سوال کرنے والوں کے جواب دیتا ہے ۔ انکار کرنے والوں کو سمجھاتا ہے ۔ شک کرنے والوں کو یقین دلاتا ہے ۔ معترضین کو جواب دیتا ہے ۔ غافلوں کو متنبہ کرتا ہے ۔ ظالموں کو جھنجھوڑتا ہے ۔ منافقین کو لتاڑتا ہے ۔ غداروں کو وعید کرتا ہے۔ کافروں کو انذار کرتا ہے ۔ مومنین کو بشارت دیتا ہے۔ اور آخر کار اپنی مرضی کو نافذ کر کے دکھاتا ہے ۔
قرآن مجید اول تا آخراسی حقیقت کا بیان ہے۔ اس کی دعوت، دعوت کے دلائل، دعوت کو ماننے اور اس کے انکار کے نتائج اور مطالبات کے ضمن میں اب آگے ہم جو کچھ بیان کریں گے ، وہ اسی بات کی تفصیل ہے۔ گویا کہ مضامین قرآن اپنی ذات میں اول تا آخراس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کائنات کا ایک رب ہے ۔ زندہ و جاوید رب جو دیکھتا ہی نہیں بولتا بھی ہے ۔ یہی بولنے والا رب ، یہی خدائے متکلم اپنے وجود کا سب سے بڑ ا ثبوت ہے ۔
جدید فلسفے کے بانی رینے ڈیکارٹ (1650 – 1596) کا ایک جملہ فلسفے اور دانش سے بہرہ مند ہر انسان کو زبانی یاد ہوتا ہے ۔ یہ جملہ انسانی تاریخ کا مشہور ترین جملہ ہے جسے علم و دانش کی دنیا میں انسانی ہستی کا سب سے بڑا ثبوت مانا جاتا ہے ۔
"I think, therefore I am”
خدا کے وجود کے دلائل کے خاتمے پر اوپر بیان کردہ گفتگو کی روشنی میں یہ فقیر، یہ بندہ عاجز چاہتا ہے کہ ہر پڑھنے والا اس جملے کو یاد رکھ لے جو خدا کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔
” ۔He Speaks, therefore He is”
[جاری ہے ]