مضامین قرآن (05) سابقہ دلیل کا خلاصہ ۔ ابو یحییٰ
سابقہ دلیل کا خلاصہ
ہم قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے وجود کے حوالے سے بیان ہونے والے دلائل کا جائزہ لے رہے ہیں۔ پہلی دلیل جسے ہم نے تفصیل سے دیکھا تھا ہم نے اسے انسان کا روحانی پہلواور تاریخی تسلسل کاعنوان دیا تھا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود گرچہ مادی حواس کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ مگر ایسا نہیں کہ خدا کا تصور انسان کے لیے ایک اجنبی اور نامانوس تصور ہے جسے زبردستی اس پر ٹھونسے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ انسان اپنی اندرونی ساخت میں چار ایسی چیزیں پاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک عام انسان باآسانی خدا کی ہستی کا ادراک کر لیتا ہے ۔
۱) انسان اپنی ہستی کا ایک بھرپور شعور رکھتا ہے ۔ وہ اندازہ کرسکتا ہے کہ ایک ایسی ہی برتر ہستی کا کائنات کا خالق ہونا ممکن ہی نہیں عین فطری ہے ۔
۲) انسان عقل و شعور رکھتا ہے۔ یہ عقل و شعور اسے یہ استعداد دیتی ہے کہ وہ انفس وآفاق میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر غور کر کے یہ سمجھ لے یہ کارخانہ عالم بخت و اتفاق کی کارستانی نہیں بلکہ ایک خالق کی تخلیق ہے ۔
۳) انسان خیر و شر کا اخلاقی شعور رکھتا ہے ۔ یہ شعور اسے بتاتا ہے کہ فزیکل لاز پر مبنی کائنات میں انسان کی شکل میں اخلاقی شعور کی موجودگی کسی ایسی ہستی کی طرف ہی سے ممکن ہے جو خود اخلاقی شعور رکھتا ہو۔ دوسری صورت میں یہ اخلاقی شعور ایک مادی کائنات میں اپنے وجود کی کوئی اساس نہیں رکھتا۔
۴) انسان اپنے اندر ایک روحانی پیاس محسوس کرتا ہے۔ جس طرح پانی ایک خارجی حقیقت کے طور پر مادی پیاس کا جواب ہے اسی طرح روحانی پیاس کا جواب خدا کا تصور ہے اور یہ تصور جب انسان کو مل جاتا ہے تو انسان وہی طمانیت محسوس کرتا ہے جو پیاسے کو پانی پی کر ملتی ہے ۔
انسان میں یہ سارے پہلو چونکہ قران کے مطابق ’’نفخ روح‘‘ کے عمل کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے ہم نے اسے انسان کا روحانی پہلو کا نام دیا تھا۔ اس اندرونی تائید کے ساتھ خارج میں خدا کا وجود ابتداء ہی سے انسانی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ اس دنیا میں آنے سے قبل براہ راست اور اس دنیا میں آنے کے بعد مسلسل انبیا اور ان کے معجزات کے ذریعے سے انسان عالم کے پروردگار کی ہستی سے واقف رہے ہیں ۔ یہ سب چیزیں مل کر خدا کے وجود کو انسانوں کے لیے ایک معقول اور مانوس وجود بناتی ہیں چاہے اس دنیا میں کسی انسان نے اسے دیکھا ہے نہ چھوا ہے۔ اسی کو ہم نے انسان کا روحانی پہلو اور تاریخی تسلسل کا نام دیا تھا۔
۲) توجیہ کی دلیل
اللہ تعالیٰ کے وجود کی دوسری دلیل توجیہ کی دلیل ہے۔ یہ دلیل دراصل پہلی دلیل پر کھڑی ہے جسے پیچھے ہم نے انسان کا روحانی پہلو اور تاریخی تسلسل کا نام دیا تھا۔ اس دلیل کی روشنی میں ہم نے ثابت کیا تھا کہ انسان ایک روحانی ، اخلاقی اورعقلی وجود ہے۔ توجیہ کی دلیل اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ یہ انسان کسی خلا میں نہیں جی رہا بلکہ ایک جیتی جاگتی ، زندہ، فعال، متحرک، منظم، مرتب اور بامقصد دنیا میں کھڑا ہے۔ یہاں بھوک اور پیاس جیسی ضروریات ہیں تو پانی اور خوراک کی شکل میں اس کا مکمل جواب ہے ۔ جنسی خواہش ہے تو اس کا جواب موجود ہے۔ ذوق جمال کی طلب ہے تو حسن و کمال کی بہاریں بھی جلوہ فرما ہیں ۔ جذبات محبت کا تلاطم ہے تورشتے ناطے کی وہ ناؤ بھی ہے جو زندگی کا سفر ممکن بناتی ہے۔ غرض یہ دنیا کی زندگی ایک، فعال، متحرک اور ممتا بھری ماں کی طرح انسان کی خدمت پر مامور ہے۔
انسان کے اندر جو کچھ طلب ہے یہ کائنات نہ صرف اس کا بھرپور اور مکمل جواب دے رہی ہے بلکہ انتہائی بامقصد طور پر جواب دے رہی ہے ۔ مثلاً جنسی جذبہ ایک شدید ترین خواہش ہے ۔ مگر اس کے ساتھ زندگی کے تسلسل کا وہ بوجھ بھی لاد دیا گیا ہے جسے اٹھانا بہت مشکل ہے ، مگر جنسی خواہش ہر شخص کو یہ بوجھ اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انسانی خوراک لذتِ کام و دہن کا سامان ہی نہیں جسم وجان کو طاقت و توانائی کا وہ خزانہ بھی عطا کرتی ہے جس کے بغیر زندگی ایک دن بھی اپنا سفر جاری نہ رکھ سکے۔
زندگی کی فعالیت اور مقصدیت سے بھرپور جس کائنات کا انسان حصہ ہے وہ الل ٹپ اصولوں پر نہیں کھڑی بلکہ ہر جگہ ایک انتہائی منظم اور مرتب مشین کی طرح لگاتار کام کیے جا رہی ہے۔ یہ نظم اور یہ ترتیب اتنا حیرت انگیز ہے کہ انسانی عقل اس کو کسی اتفاق کی کارفرمائی ماننے کے لیے ایک لمحے کے لیے بھی تیار نہیں ہو سکتی۔ عقل اور شعور دونوں کا تقاضہ ہے کہ انھیں یہ بتایا جائے کہ یہ انتہائی حیرت کدہ کس نے تخلیق کیا ہے اور کون اسے چلا رہا ہے ۔ پہلی دلیل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بنیادی سوال کا جواب دے کر انسان کو اس دنیا میں بھیجا تھا، مگر وقت کے ساتھ توہمات کی گرد نے حقیقت کو اس طرح ڈھانپ دیا کہ سچ کی روشنی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ پھر انسان نے خود اپنے طور پر جب کبھی اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی تو اس کے حصے میں سوائے اندھیروں کے کچھ نہیں آیا۔ انسان کی روحانی پیاس اسے مجبور کرتی رہی کہ وہ روحانیت کے چشمہ صافی سے خود کو سیراب کرے ، مگر ہر دفعہ وہ توہمات کو روحانیت سمجھ کر شرک و اوہام کے سرابوں کے پیچھے بھاگتا رہا۔ حالانکہ حقیقت ایک روشنی کی طرح پوری کائنات میں بکھری ہوئی تھی۔ پیغمبر انسانوں کو یہ سمجھاتے رہے کہ روشنی کو دیکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے روشنی میں حقیقت کو دیکھنا سیکھو۔ خدا کو دیکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے نورخدا سے کائنات کو دیکھو گے تو ہر جگہ اس کی قدرت، ربوبیت کی نشانیوں اور اپنی فطرت میں اس کی زندہ تصویر پاؤ گے۔ یہی وہ بات ہے جسے سورہ نور میں اس طرح بیا ن کیا گیا ہے ۔
’ اللہ ہی زمین وآسمان کا نور ہے ۔ اُس کے نور کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس ایسا ہو جیسے ایک چمکتا ہوا تارا۔ یہ چراغ زیتون کے ایسے شاداب درخت کے روغن سے جلایا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی۔ اُس کا روغن آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑکا پڑتا ہو۔ روشنی پر روشنی! اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے ۔ (یہ ایک تمثیل ہے ) اور اللہ یہ تمثیلیں لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے بیان کرتا ہے ۔ (وہ ہر ایک سے وہی معاملہ کرتا ہے جس کا وہ سزاوار ہے ) اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔‘‘(النور40:24)
اللہ آسمان و زمین کا نور ہے
اس آیت میں اصل دلیل ایک سادہ سے جملہ یعنی ’’ اللہ آسمان و زمین کا نور ہے ‘‘ ہے ۔ یہ جملہ اپنے اندر ایک جہانِ معانی پوشیدہ رکھتا ہے۔ تاہم ان معانی کی وضاحت سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس میں اللہ کو نور یا روشنی سے تشبیہ نہیں دی جا رہی۔ اللہ تعالیٰ ہر تشبیہ و تمثیل سے بلند ہیں ۔ وہ خود کہتے ہیں لیس کمثلہ شیئا یعنی ان جیسا کوئی نہیں ۔ یہاں روشنی کا ذکر صرف اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے استعما ل کیا گیا ہے کہ ایک انسان اپنی نگاہ سے روشنی کو نہیں دیکھ سکتا مگر روشنی وہ مظہر ہے جس کے ذریعے سے ہر چیز بالکل صاف اور جیسی وہ ہے اور جہاں ہے نظر آ جاتی ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا ہے وہ خود نظر نہیں آتے نہ حواس ان کو گرفت میں لے سکتے ہیں ، مگر ان کو ماننے کے بعد زمین و آسمان کی ہر چیز اپنی جگہ پر نظر آنے لگتی ہے۔ یعنی یہاں مراد ایمان کی روشنی ہے کہ اللہ کو ماننے کے بعد کائنات کے ہر مظہر اور یہاں رونما ہونے والے ہر واقعے کی ٹھیک توجیہ ہوجاتی ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
۱)تخلیق و بقا کا سلسلہ
اس دنیا میں انسان کا سب سے بڑا مشاہدہ یہ ہے کہ یہاں ہر آن تخلیق کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ دھرتی گویا زندگی پیدا کرنے کا ایک کارخانہ ہے جہاں ہر شے یا تو تخلیقی عمل سے گزر رہی ہے یا پھر اس میں بالواسطہ طور شامل ہے۔ مگر یہاں ہر شے اپنے وجود سے یہ گواہی دیتی ہے کہ یہ نہ خود وجود میں آ سکتی ہے نہ خود باقی رہ سکتی ہے۔ ہر شے اپنے وجود کے لیے کسی دوسرے وجود کی محتاج ہے۔ مثلاً ایک بچہ اپنے وجود کے لیے ماں باپ کا محتاج ہے ۔ وجود میں آنے کے بعد زندگی کی بقا کے لیے بھی وہ ماں باپ یا ان کی غیر موجودگی میں کسی اور ایسی ہی طاقتور پناہ کا محتاج ہوتا ہے جو اس کی زندگی برقرار رکھ سکے ۔ یہ ایک بچے کا نہیں زمین و آسمان کی ہر شے کا معاملہ ہے ۔ عقل کہتی ہے کہ کوئی نہ کوئی ہستی ہونی چاہیے جو پیدا بھی کرے اور بقا کی ضمانت بھی فراہم کرے ۔ انسان اپنی عقل سے آج کے دن تک کسی ہستی کو نہیں تلاش کرسکا جو یہ کام کر رہی ہو۔ مگریہ سوال اپنی جگہ باقی ہے ۔ چنانچہ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب قرآن کریم میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے۔ اختصار کے پیش نظر ہم صرف ایک مثال دے رہے ہیں ۔
اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے ، (الزمر62:39)
یہی بات ایک سوال کی شکل میں یوں کہی گئی۔
’’کیا یہ بغیر کسی خالق ہی کے پیدا ہوگئے ہیں یا پھر یہ خود ہی خالق ہیں ۔ کیا انہی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ۔ بلکہ یہ یقین نہیں رکھتے ۔‘‘، (سوره طور 52: 35-36)
ہم نے جو بات اوپر بیان کی ہے بعض لوگ شاید یہ خیال کریں کہ یہ وہی دلیل ہے جسے فلسفے کی اصطلاح میں دلیل علت casual argument یا پھر Cosmological Argument کہا جاتا ہے ۔ علت کی دلیل کا مطلب ہے کہ دنیا کی ہر چیز کسی سبب یا علت سے وجود میں آئی ہے اور علت ومعلول کا یہ سلسلہ آخر میں خدا پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ تاہم قرآن مجید یہ نہیں کہہ رہا خدا تخلیقی عمل کی آخری کڑی ہے ۔ بلکہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا وہ یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہر شے کا خالق ہے۔ ایک بچہ بظاہر ماں باپ کے ذریعے سے پیدا ہوتا ہے ، مگر اس کا خالق اللہ ہی ہے۔ چنانچہ کائنات کی ہر شے بظاہر اسباب کے پردے سے ظہور پذیر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ، مگر اس کے پیچھے براہ راست اللہ کا اذن اور اس کی ربوبیت کام کر رہی ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ ہر شے براہ راست اللہ کے حکم سے تخلیق پاتی ہے ۔ ہر شے کی تخلیق، اور تخلیقی نظام میں لاکھوں کروڑوں عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک عامل بھی کم ہوجائے تو تخلیق کا عمل نہیں ہو سکے گا اور ہو چکا ہو تو فنا کے گھاٹ اتر جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ کائنات کی ہر شے براہ راست اللہ کی تخلیق ہے اور اپنے وجود کی بقا اور تسلسل کے لیے بھی یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ ہی کے محتاج ہیں ۔ چنانچہ فرمایا:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں ۔ اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دوسرا ان کو تھامنے والا نہیں ہے ۔ بے شک اللہ بڑا حلیم اور درگزر فرمانے والا ہے ۔‘‘، (فاطر41:35)
[جاری ہے ]