مضامین قرآن (01) تعارف ۔ ابو یحییٰ
حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس پس منظر میں آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن کریم کل عالم کے لیے اللہ کی آخری ہدایت اور رہنمائی ہے۔ آپ ہی کی ذات اب قیامت تک کل انسانیت کے لیے اللہ کی رضا اور ناراضی کو جاننے کا واحد ذریعہ ہے اور اس پہلو سے آپ کی تعلیمات آفاقی ہیں۔ یہ حقیقت قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر بیان ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جان رہے ہیں، (سبا ۲۸:۳۴)
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کردینے والی کتاب اتاری تاکہ وہ اہل عالم کے لیے ہوشیار کردینے والا بنے،(فرقان ١:۲۵)
سورہ انبیا میں یہی حقیقت بڑے منفرد اور دلنشین انداز میں بیان ہوئی ہے۔ وہاں قرآن میں بیان ہونے والی قرب قیامت کی ایک عظیم نشانی کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ اپنا یہ حتمی فیصلہ سناتے ہیں کہ قیامت کے بعد نئی دنیا میں یہ دھرتی صالحین کی ملکیت و تصرف میں دے دی جائے گی۔ اس خبر میں اہل ایمان کے لیے ایک عظیم موقع کی آگاہی ہے اور اسی پہلو سے یہ خبر پہنچانے والی ہستی تمام عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجی گئی ہے،(انبیا ١۰۷:۲١)۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ابتداءً جزیرہ نما عرب کے رہنے والوں کی طرف کی گئی اور پھر آپ پر ایمان لانے والے صحابہ کرام پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی کہ جس طرح نبی کریم نے اِن پر حق کی شہادت دی ہے وہ کل انسانیت تک حق پہنچا کر اس کی شہادت دیں (الحج۷۸:۲۲) اور اسی پس منظر میں ان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے امت وسط قرار دیا، (بقرہ ١۴۳:۲)۔ یعنی ایسی امت جو اللہ کے رسول اور باقی انسانیت کے بیچ میں کھڑی ہے۔ وہ رسول سے حق پاتی ہے اور پھر اسے ساری انسانیت تک پہنچاتی ہے۔
قرآن کریم کے مضامین
قرآن مجید اس معاملے میں بھی بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو جب انذار کیا اور ان تک حق کا پیغام پہنچایا تو قرآن کریم ہی آپ کا آلہ انذار اور ذریعہ دعوت تھا۔ یہ کتاب الہی آیات الہی کا وہ مجموعہ ہے جس کے ذریعے سے رسول عربی نے براہ راست اپنی قوم پر اتمام حجت کیا۔ یہ کتاب اس اتمام حجت یعنی رسول عربی اور ان کے مخاطبین اہل عرب کے مابین برپا ہونے والی اس پوری کشمکش اور اس کے نتائج کی تفصیلی روداد بھی ہے جو تیئیس برس کی مدت میں سرزمین عرب میں برپا رہی۔
اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو قرآن مجید ماضی کے ایک واقعے کی روداد ہے۔مگر اس روداد کے اندر ہی قرآن مجید کی اصل دعوت، اس کے دلائل اور مطالبات کی تفصیل بھی ہے۔ یہ چیزیں اپنے اندر عالمی اپیل رکھتی ہیں۔ چنانچہ یہی وہ چیزیں ہیں جن کو اگر ایک منطقی ترتیب کے ساتھ مرتب کرکے لوگوں کے سامنے پیش کردیا جائے تو لوگ بلا تردد یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کس چیز کو بطور پیغام لوگوں کے سامنے رکھ رہا ہے، کن اساسات پر وہ اپنی بات لوگوں سے منوانا چاہتا ہے، لوگوں کے سامنے وہ کن اخلاقی قدروں کو اجاگر کررہا ہے، قانون کی سطح پر اس کے مطالبات کیا ہیں اور کس طرح کی شخصیت کی تشکیل اس کے پیش نظر ہے۔ قرآن کریم کے مضامین اگر اس طرح واضح کردیے جائیں تو پوری دنیا کے لوگو ں کے لیے مروجہ اسلوب میں قرآن مجید کے مضامین کو سمجھنا بہت آسان ہوجائے گا جو کہ عالمی دعوت کے پہلو سے انشاء اللہ ایک بہت مفید چیز ہوگی۔
تین بنیادی مضامین
قرآن مجید ہزاروں آیات پر مشتمل ایک بہت بڑی کتاب ہے۔ مگر مضامین کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی مختصر کتاب ہے جس کے بنیادی موضوعات انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ یہ موضوعات نہ صرف تعداد میں بہت کم ہیں بلکہ آپس میں مربوط طریقے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہزاروں آیات پر مشتمل پورا قرآن مجید صرف تین بڑے اور چند درجن ذیلی عنوانات کے تحت نہ صرف مرتب ہوجاتا ہے بلکہ یہ مضامین و عنوانات ہر فرد اور ہر دور کے انسان سے براہ راست متعلق رہتے ہیں۔ یہ بنیادی تین موضوعات درج ذیل ہیں۔
۱) دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج
۲) دعوت کے دلائل
۳) مطالبات
پھر ان تین موضوعات کو مضامین کے اعتبار سے ذیلی مضامین میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ ہم بعد میں الگ الگ عنوان کے تحت بیان کریں گے۔
قرآن مجید کے موضوعات اور ان کا باہمی منطقی ربط
قران مجید کے پیغام کو متعین عنوانات اور جامع موضوعات کے تحت مرتب کرنے کے اس کام کو عملی طور پر کرنے کی دو شکلیں ممکن ہیں۔ ایک شکل یہ ہے کہ ترتیب کے پہلو سے اول تا آخر قرآن مجید کی تفسیر یا حواشی لکھے جائیں۔ اس تفسیر میں اصل زور اس بات پر ہو کہ ایک مجموعہ آیات لے کر اس میں موجود مضامین کی نشاندہی کردی جائے۔ یہی وہ شکل تھی جس میں پچھلے کچھ عرصے سے مضامین قرآن کے عنوان کے تحت سورہ فاتحہ اور پھر سورہ بقرہ کی تفسیر بیان ہورہی تھی۔ مگر بعض دوستوں کا اصرار تھا کہ اس طریقے سے پورے قرآن مجید پر کام کرنے کا عمل بہت وقت طلب ہے۔ یہ بات چونکہ پیچھے بیان ہوچکی ہے کہ اصل مضامین کی تعداد بہت زیادہ نہیں بلکہ تمام تر تفصیل میں جاکر بھی درجن سے زیادہ نہیں بڑھتی ہے اور یہی مضامین مختلف پہلوؤں سے قرآن مجید میں دہرائے جاتے ہیں۔ اس لیے ایک دوسری بہتر شکل اب میں یہ اختیار کررہا ہوں کہ قرآن مجید کے مضامین کو مرتب انداز میں عنوانات کے تحت بیان کردیا جائے۔ ساتھ ساتھ یہ واضح کیا جائے کہ یہ مضامین آپس میں کس طرح ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ ان عنوانات کو قرآن مجید کے متعلقہ بیانات اور آیات کے ساتھ جب جمع کردیا جائے گا تو انشاء اللہ العزیز مطالعہ قرآن مجید کی ایک ٹیکسٹ بک مرتب ہوجائے گی جو درج ذیل چار پہلوؤں سے انشاء اللہ انتہائی موثر ثابت ہوگی۔
قرآن کریم کے مطالعے کی چار سطحیں
یہ ٹیکسٹ بک ایک طالب علم کے لیے فہم قرآن کے پہلو سے بے حد مفید ہوگی۔عام طور پر ہمارے یہاں طالب علمانہ سطح پر جب قرآن مجید کو پڑھایا جاتا ہے تو اس میں زیادہ تفسیری مباحث زیر بحث آجاتے ہیں۔ خود قرآن مجید کا اپنا متن اس طرح زیر بحث نہیں آتا جس طرح آنا چاہیے۔ مگر جب ایک طالب علم ایک دفعہ اچھی طرح اس ٹیکسٹ بک کا مطالعہ کرلے گا تو اسے اندازہ ہوجائے گا کہ کلام الہی کے موضوعات کیا ہیں۔ اور دوران مطالعہ جب کبھی کوئی اشکال پیدا ہوگا تو وہ اس ٹیکسٹ بک سے رجوع کرکے جان لے گا کہ فلاں مقام پر کیا چیز زیر بحث ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن مجید کے مطالعے کا یہ طالب علمانہ طریقہ انشاء اللہ قرآن کو سمجھنے میں بے حد مدد گار ہوگا۔
دوسری سطح وہ ہے جس میں یہ ٹیکسٹ بک غیر مسلمانوں کو قرآن کریم کی تعلیمات اور اسلام کی دعوت سے جامع انداز میں روشناس کرنے کا یہ ایک انتہائی آسان اور موثر ذریعہ ہے۔ اس ٹیکسٹ بک کی صرف فہرست کے مطالعہ ہی سے ایک غیر مسلم باآسانی یہ سمجھ لے گا کہ قرآن مجید کن مضامین پر مشتمل ہے۔ لوگ دور جدید میں کتابوں کو اسی طرح سمجھتے ہیں۔ اس جدید طریقے پر غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت پہنچانا اور ان کے لیے اس دعوت کا سمجھنا انشاء اللہ بہت آسان ہوجائے گا۔ یہ ٹیکسٹ بک گویا اس پہلو سے ایک غیر مسلم کے لیے قرآن مجید کا ایک تعارفی مطالعہ بن جائے گی۔
قرآن کریم کے مطالعے کی تیسری سطح تذکیری مطالعہ ہے۔ اس میں ایک عام مسلمان یاددہانی اور نصیحت کے پہلو سے قرآن مجید کو پڑھتا ہے یا اسے پڑھنا چاہیے۔ اس پہلو سے بھی اگر کوئی شخص پہلے اس ٹیکسٹ بک کو پڑھ چکا ہو تو اسے قرآن سے نصیحت لینا بہت آسان ہوجائے گا۔ اس کی دعوت، دلائل، مطالبات کو سمجھنے میں انسان کبھی ٹھوکر نہیں کھائے گا۔ بلکہ زیادہ بہتر انداز میں گہرائی میں جاکر کتاب الٰہی کی نصیحت کو سمجھ سکے گا۔ وہ جان لے گا کہ قرآن میں چاند سورج اور تاروں کا ذکر کس پہلو سے آرہا ہے۔ کس موقع پر اسے کس پہلو سے نصیحت کی جارہی ہے۔ تاریخ کے آئینے اور فطرت کے مناظر میں کیا اسباق دیے جارہے ہیں۔ اسے زندگی میں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا۔ غرض ہر پہلو سے ایک عام آدمی محسوس کرے گا کہ وہ اب اپنے رب کی بات بہتر طریقے پر سمجھ سکتا ہے۔
قرآن مجید کے مطالعے کی چوتھی سطح تحقیقی ہے۔ اس میں بھی یہ ٹیکسٹ بک بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک طرف تو یہ تدبر قرآن کے نئے پہلو سامنے لاتی ہے تو دوسری طرف یہ قرآن مجید کے مختلف بیانات کو ان عنوانات کے تحت متعین کردیتی ہے جو آیات کے معنی متعین کرنے اور ان کے نئے پہلو سامنے لانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
یوں تلمذ کی سطح ہو یا تعارف کی، تذکیر کی سطح ہو یا تحقیق کی، یہ کام انشاء اللہ ہر پہلو سے قرآن کا ذوق رکھنے والوں کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔
اس کام کی اساسات کو متعین کرنے میں مجھے کم و بیش پندرہ برس لگے ہیں۔ میری نیت یہ ہے کہ تازیست اپنے آپ کو اس کام کے ابلاغ کے لیے وقف کردوں۔ پروردگار عالم کے کلام کی شرح و وضاحت اور اس کے ابلاغ سے بڑا کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ دور جدید میں لوگ جس طرح چیزوں کو سمجھتے ہیں، میری نیت اور ارادہ ہے کہ ان تمام پہلوؤں سے اس کام کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اس کی پہلی شکل تو وہی ٹیکسٹ بک ہے جس کا اوپر ذکرہوا۔ دوسری شکل ملٹی میڈیا پریزینٹیشن کی ہے جسے میں نے ابتدائی درجے میں مکمل کرکے اپنے طلبا کو پچھلے برسوں میں پڑھایا ہے۔ اس کی اگلی شکل ماس میڈیا ہے۔ جس میں عالمی سطح پر قرآن مجید کی دعوت، دلائل اور مطالبات کا ابلاغ میرے پیش نظر ہے۔نظری طور پر اس کام کو کرنے کے بعد اب عملاً اس کام کو شروع کرنا ہے۔ یہ ایک اور پہاڑ ہے جسے مجھے سرکرنا ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس کام کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق آسان فرمادیں اور یہ کام اگر کسی خیر کا سبب ہے تو اس کی تکمیل کے اسباب اپنے فضل و کرم سے عطا فردیں۔ اللھم وفقنا ماتحب و ترضی، آمین یا رب العالمین۔