مضامین قرآن (04) ۔ ابو یحییٰ
قرآن مجید کے مضامین کا اجمالی خاکے کی تفصیلات کو بیان کرنے کے بعد اب ہم ایک ایک مضمون کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کریں گے ۔اجمالی خاکہ بیان کرنے سے ہمارا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے وہ ربط نمایاں ہوکر سامنے آجائے جو قرآن مجید میں بیان کردہ موضوعات میں پایا جاتا ہے ۔اس اجمالی خاکے میں ہم نے دیکھا تھا کہ قرآن مجید کے بنیادی موضوعات صرف تین ہی ہیں ۔ یعنی
۱) دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج
۲) دعوت کے دلائل
۳) مطالبات
ان کے ذیل میں آنے والے بنیادی مضامین کی تعداد تقریباً تین درجن ہے۔ قرآن مجید کم و بیش انہی موضوعات پر کلام کرتا ہے۔ ایک طالب علم اگر ان موضوعات کو سمجھ لے تو قرآن کریم کا مدعا سمجھنے میں نہ صرف بڑی سہولت رہتی ہے بلکہ فکرو تدبر اورہدایت و نصیحت کے پہلو سے بھی انسان کے لیے قرآن مجید سے نفع اٹھانا بڑا آسا ن ہوجاتا ہے۔ ان ذیلی موضوعات کی تفصیل کرتے وقت ہمارا طریقہ یہ ہو گا کہ ہم ہر مضمون میں بیان کی گئی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔ ا س مقصد کے لیے قرآن مجید کے بیانات کی روشنی میں یہ بیان کیا جائے گا کہ وہ کیا پیغام ہے جو انسانیت کو دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ کوشش کی جائے گی کہ بنیادی موضوعات سے ربط کو واضح رکھا جائے۔ اب اللہ کا نام لے کر ہم اس کام کا آغاز دلائل قرآ ن سے کرتے ہیں۔
وجود باری تعالیٰ کے دلائل
قرآن کریم کی بنیادی دعوت عبادت رب کی دعوت ہے۔ اس حوالے سے اہم مسئلہ جو قرآن مجید میں زیر بحث آیا وہ توحید باری تعالیٰ اور ایک اللہ کی عبادت تھی۔ انسان کی پوری تاریخ میں اصل اور بنیادی مسئلہ شرک رہا ہے۔ وجود باری تعالیٰ کو منوانے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی کہ ہر دور کے انسان، چند مستثنیات کو چھوڑ کر، اللہ تعالیٰ کے وجود کو مانتے رہے ہیں۔ تاہم انسیویں صدی میں ایک وقت آیا تھا جب بعض نامکمل سائنسی دریافتوں کی بنا پر انسانیت کو یہ غلط فہمی لاحق ہوگئی تھی کہ مادہ آخری حقیقت ہے اور جو چیز حواس انسانی کی گرفت میں نہ آ سکتی ہو، بلاواسطہ قابل مشاہدہ نہ ہو یا تجرباتی طور پر قابل تصدیق نہ ہو وہ موجود ہی نہیں ہو سکتی۔ تاہم بیسویں صدی میں خود سائنسی دریافتوں ہی نے اس غلط فہمی کو رفع کر دیا۔ گرچہ آج بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو خدا کے وجود کی قائل نہیں، مگر اس کی وجہ کوئی علمی یا عقلی دلیل نہیں بلکہ خارجی طور پر اہل مذہب کے بعض رویوں کے خلاف ردعمل یا پھر داخلی طور پر بعض نفسیاتی مسائل ہیں جو انسانی زندگی کی محرومیوں، اس کی محدودیت اور ناتمامی کودیکھ کر جنم لیتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ قرآن مجید نے براہ راست وجود باری تعالیٰ کے ثبوت پر تفصیلی کلام نہیں۔ گرچہ ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ توحید، رسالت اور آخرت کے حوالے سے دی جانے والی ہر دلیل درحقیقت بالواسطہ طور پر وجود باری تعالیٰ ہی کی دلیل ہے۔ یعنی اگر ثابت ہوجائے کہ معبود ایک ہے، وہ نبی اور رسول بھیجتا ہے اور اور ایک روز وہ یوم آخرت قائم کرے گا تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی نہ کوئی خالق بھی ہے۔ کیونکہ یہی خالق، معبود برحق، رسولوں کا بھیجنے والا اور ایک روز انسانیت کا حساب کتاب کرنے والا بھی ہے۔ تاہم اس حقیقت کے باوجود قرآن مجید نے دو اعتبارات سے اجمالی طور پر وجود باری تعالیٰ کا بالواسطہ اثبات کیا ہے۔ ایک انسان کی روحانی اساس کے پہلو سے اور دوسری کائنات کی عقلیہ توجیہ کے لحاظ سے۔
۱) انسان کا روحانی پہلواور تاریخی تسلسل
انسان کے نفسیاتی وجود کی ساخت میں یہ چیز اساسی طور پر شامل ہے کہ وہ مادی، جبلی اور حیوانی تقاضوں سے بلند تر ہوکران لطیف احساسات کو اپنے اندر محسوس کرے جن کی کوئی توجیہ اس کی حیوانی جبلت اور عقلی استعداد کی روشنی میں نہیں کی جا سکتی۔ ان میں سب سے اہم اور بنیادی جذبہ کسی برتر ہستی کے سامنے جھکنے، اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے، ہر کرم و احسان کو اس کی عطا ماننے اور اس کا شکریہ ادا کرنے، اس کے غضب سے بچنے اور ہر مشکل میں اسے پکارنے کا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق یہ احساسات تخلیق کے وقت نفخ روح اور تسویہ کے عمل کے دوران انسانی فطرت میں ودیعت کیے گئے اور اس دنیا میں آنے سے قبل ایک باقاعدہ عہد و پیمان کی شکل میں خالق کائنات نے باقاعدہ اپنا تعارف کرا کے انسانوں کو اس دنیا میں بھیجا۔ اس مخصوص واقعہ کا نقش گرچہ امتحان کی غرض سے ذہن انسانی سے محو کر دیا گیا، مگر اس کی فطرت پر روحانیت کی یہ تحریر اتنی واضح ہے کہ فلسفہ، تشکیک اور الحاد کی گرد اس تحریر کو کتنا ہی دھندلادے، انسان اسے ہمیشہ اپنے اندر کی صدا ہی سمجھتے رہے ہیں۔
پھر یہی نہیں بلکہ موجودہ شکل میں انسان کی تخلیق کرتے وقت ابتدائی دو انسانوں یعنی آدم و حوا کو باقاعدہ ان کے رب سے متعارف کروا کر اس دنیا میں بھیجا گیا۔ حضرت آدم کو مخاطبت کا شرف عطا کر کے منصب نبوت پر فائز کیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے یہ تصور رب باقاعدہ اپنی اولاد کو منتقل کیا۔ اور ان کی اولاد بھی اپنے مشاہدات کی بنیاد پر ابتدا ہی سے اپنے خالق سے واقف رہی ہے۔ یوں داخل ہی کی نہیں بلکہ خارج کی شہادت بھی روز ازل سے انسان کو اس کے رب کا تصور دیتی رہی ہے اور شیطان کی تمام تر دراندازی کے باوجود لوگ اس رب کے ساتھ شریک بنانے پر تو آمادہ ہوگئے، لیکن اس کے وجود کے انکار کی روایت انسانیت میں کم ہی جڑ پکڑ سکی ہے۔
قرآن مجید کے بیانات
جیسا کہ ہم نے عرض کیا وجود باری تعالیٰ کا اثبات چونکہ قرآن مجید کا براہ راست موضوع نہیں ہے۔ اس لیے استدلال بھی بالواسطہ ہی ہے۔ اس بنا پر اس میں ایک نوعیت کا ایجاز و اجمال پایا جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی قرآن مجید کے بیانات کو انسانی فطرت کے آئینے اور انسانی دنیا کے حقائق کے سامنے رکھ کر دیکھا جاتا ہے، بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ یہی معاملہ انسان کی روحانی اساس کا بھی ہے۔
قرآن مجید نے انسانی تخلیق کے مدارج کو کئی مقامات پر موضوع بحث بنایا ہے۔ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔ جب اس کو درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑ نا۔ ‘‘، (ص72-71:38)
اس بات کی مزید تفصیل اس طرح کی گئی ہے۔
’’اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ جب اس کو درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا ۔‘‘، (الحجر29:15)
ان دونوں آیات میں انسان کے مادی وجود کے حیوانی قالب میں تسویے (درست کرنے) کے بعد نفخ روح یعنی رو ح پھونکنے کے عمل کا بیان ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امور مشابہات میں سے ہے جس کی حقیقت ہم مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے۔ مگر جب یہی بات سورہ شمس میں بیان کی گئی تو وہاں تسویے کے بعد نفخ روح کی جگہ الہام کا لفظ لا کر یہ واضح کر دیا گیا کہ انسان کاحیوانی وجود مختلف مراحل سے گزر کر جب درجہ کمال کو پہنچ گیا تو پھر انسان پر ایک خاص نوعیت کا الہام کیا گیا جس سے انسان کو نیکی و بدی کا و ہ شعور ملا جس کی اساس سرتا سر اخلاقی تھی۔ سورہ سجدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی ا لہام کے نتیجے میں انسان کو اپنی ذات کا شعور اورعقل و فہم کی وہ صلاحیت بھی عطا ہوئی جو اسے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان دونوں آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
’’اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔ پھر اس کی نسل حقیر پانی کے خلاصے سے چلائی۔ پھر اُس کو درست کیا۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی اور تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے مگر تم بہت کم شکر کرتے ہو۔‘‘، (السجدہ9:32)
اس آیت میں نفخ روح سے قبل انسان کا ذکر غائب کے صیغے میں ہورہا تھا، مگر اس کے بعد فوراً انسان کو مخاطب کر کے عقل و فہم کی صلاحیتوں کے عطا کیے جانے کا ذکر ہے۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نفخ روح کے بعد ہی انسان کو اپنی ہستی کا ادراک ہوا اور اسی کے نتیجے میں انسان کو کان، آنکھ اور دل یعنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا ہوئی۔
انسان میں اپنی ذات کے شعور اور عقل و فہم کی صلاحیت کے ساتھ خیر و شرکا شعور بھی اسی نفخ روح کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ سورہ شمس میں اللہ تعالیٰ نے تسویے کے ذکر کے بعد میں نفخ روح کی جگہ الہام کے عمل کو بیان کر کے اس کی وضاحت کر دی ہے۔
’’قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا کہ اسے ٹھیک بنایا۔ پھر اس کی بدی اور تقویٰ اسے الہام کیا، کامیاب ہوا وہ جس نے اس نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کر دیا۔‘‘ ، (الشمس91:7۔10)
یہی وہ اخلاقی شعور ہے جومثال کے طور پر انسان کواس پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بوڑھے والدین کی ذمہ داری اس وقت اٹھائے جب ایسا کرنے میں اسے کوئی مادی نفع حاصل ہوتا ہو نہ کسی جبلت کی تسکین ہوتی ہو۔ ’’نفخ روح‘‘ کا عمل انسان میں احساس ذات، عقل و فہم کی صلاحیت اور اخلاقی شعور کے علاوہ ایک روحانی حس بھی پیدا کرتا ہے جس کی تسکین بندگی کے سوا ممکن نہیں۔ قرآن کریم نے ان تینوں مقامات (سورہ سجدہ، ص، حجر) پر انسا ن کی اس روحانی اساس کو ’’اپنی روح‘‘ کے الفاظ لا کر واضح کیا ہے۔ روح کی حقیقت جو بھی ہو مگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دینے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسان کے مادی قالب میں جو روح پھونکی گئی، وہ جس کی طرف سے آئی ہے ا س کی طرف ایسے ہی لپکتی ہے جیسے بچی ماں کی طرف۔ یہ انسان میں ایک ایسا روحانی طلب پیدا کرتی ہے جس کی تسکین کسی مادی ذریعے سے ممکن نہیں۔ اسی کی بنا پر انسان کا مادی وجود اور حیوانی قالب؛ مادیت سے بلند ایک روحانی ہستی کے شعور سے کبھی خالی نہیں رہتا۔
قرآن کریم یہی واضح نہیں کرتا کہ روحانیت انسان کی اجزائے ترکیبی کا ایک لازمی حصہ ہے وہ انسان کو یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ یہ اس کے لاشعور کا بھی حصہ ہے۔ اس حقیقت کو قرآن مجید اس طرح بیان کرتا ہے۔
’’اور یاد کرو، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی اولاد کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ بنا کر پوچھا: کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ضرور، آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اِس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس سے بے خبر ہی تھے یا اپنا عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر آپ کیا اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟ ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں، (اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو) اور اِس لیے کہ وہ رجوع کریں۔‘‘ (الاعراف7:172۔174)
یہ بات بالبداہت واضح ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کو بھیجتے وقت اس خاص واقعہ کا شعور انسانی یادداشت سے اسی طرح مٹا دیا گیا ہے جس طرح مثال کے طور پر شیرخوارگی کے عمر کے بیشتر یا تمام واقعات انسان کو یاد نہیں رہتے۔ مگر اس کے شعور کی تشکیل میں یہ واقعات بڑ ا کردار ادر کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ماضی کا یہ عظیم واقعہ انانیت کے لاشعور کا لازمی حصہ ہے جسے گرچہ انسان بھولا ہوا ہے، مگر اس کی روحانی شخصیت کی صورت گری میں اس واقعہ کا بھی بہت اہم حصہ ہے۔ نفخ روح کے ساتھ یہ واقعہ بھی خالق کی ذات کا شعوراس کے اندر اس طرح پیوست کر دیتا ہے جب تک انسان ارادی طور پر یہ طے نہ کر لے کہ اسے ساری زندگی خدا کا نام لینا ہی نہیں، اس کی فطرت خدا کی طرف لپکتی رہتی ہے۔
انسان کے اجزائے ترکیبی اور لاشعور کی تشکیل کے ساتھ وجود باری تعالیٰ کو انسانی تاریخ کے آغاز میں میں ایک محسوس اور معلوم واقعے کے طور پر متعارف کرانے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ قرآن میں یہ بات کئی مقامات پر واقعہ آدم و ابلیس کے حوالے سے بیان ہوئی ہے۔ جس سے واضح ہے کہ اس دنیا میں مادی قالب میں بھیجتے وقت انسان کو اس کی فطرت اور لاشعور ہی پر نہیں چھوڑا گیا بلکہ انسانوں کے جدامجد حضرت آدم اور حضرت حوا کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا مکمل شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا۔
’’اور وہ واقعہ بھی اِنھیں سناؤ، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سجدہ ریز ہوگئے، لیکن ابلیس نہیں مانا۔ اُس نے انکار کیا اور اکڑ بیٹھا اور اِس طرح منکروں میں شامل ہوا۔ اور ہم نے آدم سے کہا: تم اور تمھاری بیوی، دونوں اِس باغ میں رہو اور اِس میں سے جہاں سے چا ہو، فراغت کے ساتھ کھاؤ۔ ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ ظالم قرار پاؤ گے۔ پھر شیطان نے اُن کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس حالت میں وہ تھے، اُس سے اُنھیں نکلوا کر چھوڑا۔ اور ہم نے کہا: (یہاں سے) اتر جاؤ، اب تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین پر ٹھیرنا ہے اور وہیں گزر بسر کرنی ہے۔ پھر آدم نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے) چند الفاظ سیکھ لیے (اور اُن کے ذریعے سے توبہ کی) تو اُس کی توبہ اُس نے قبول کر لی۔ بے شک، وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘ ، (البقرہ2:34۔37)
یہی شعور بعد میں اولاد آدم میں جاری رہا۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد آدم کے ابتدائی لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود اور نیکی بدی کے اس تصور سے پوری طرح آگاہ تھے جو فطرت میں الہام کیا گیا اورجس کی تعلیم حضرت آدم نے دی تھی۔
’’اور اِنھیں آدم کے دوبیٹوں کی سرگزشت بھی ٹھیک ٹھیک سنا دو، جب اُن دونوں نے قربانی پیش کی تو اُن میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔ اُس نے کہا: میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اُس نے جواب دیا: اللہ تو صرف اپنے پرہیزگار بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھاؤ گے تو میں تمھارے قتل کے لیے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میں اللہ رب العٰلمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تم ہی سمیٹ لو اور دوزخی بن کر رہو اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔ بالآخر اُس کے نفس نے اُسے بھائی کے قتل پر آمادہ کر لیا اور وہ (اُسے مار کر) نامرادوں میں شامل ہو گیا۔‘‘، (المائدہ5: 27۔30)
قرآن کریم بالکل واضح ہے کہ ایک زمانے تک لوگ ان تصورات میں ایک ہی جگہ کھڑ ے ہوئے تھے اور اختلاف بعد میں پیدا ہوا جسے رفع کرنے انبیا آتے رہے (البقرہ213:2)۔
اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ انسان کی روحانی اساس، شخصیت انسانی کی تشکیل کرنے والا لاشعور، اس کی فطرت کا الہام، اس کے ابتدائی اجداد کے براہ راست مشاہدات سے قائم ہونے والی انسانی تاریخ کی روایت؛ سب مل کر وجود باری تعالیٰ کی اس طرح شہادت دیتی ہیں کہ انسان کبھی اس تصور سے ہٹ کر زندگی نہیں گزارسکتا۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ انسان اس دنیا میں ایک حیوانی قالب میں بھیجا گیا ہے۔ اس کی زندگی و نسل کو برقرار رکھنے کے لیے یہ خصوصی اہتمام کیا گیا ہے کہ مادی اور اور جبلی تقاضے ہمیشہ بہت شدید ہوتے اور فوری اپنا تقاضا چاہتے ہیں۔ مثلاً بھوک و پیاس فوری اپنی تسکین کا تقاضہ کرتی ہے۔ جنس کی جبلت صنف مخالف کے قرب کا شدید تقاضہ کرتی ہے، خوف کی جبلت اپنے تحفظ کے لیے انسان کو فوراً متحرک کر دیتی ہے۔ یہ سب نہ ہوں تو انسان کا مادی وجود بقا کی جدوجہد میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ اس لیے انسان پر بالعموم مادی تقاضوں کا غلبہ رہتا ہے۔ مگرانسانی تاریخ میں پائی جانے والی مذہب کی مستقل روایت، مراسم عبودیت اورپرستش کی کثرت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر فطرت انسانی ایک برتر ہستی کے سامنے جھک جانے کے تصور کی تصوب و تائید اپنے اندر سے نہ پاتی تو کبھی اس طرح ان چیزوں کو قبول عام حاصل نہ ہوتا۔ مادیت کا سیلاب، مفادات کی دوڑ، خواہش کی یلغار بندگی کی اس عظیم انسانی رویت کو کب کا خس و خاشاک میں ملا چکی ہوتی۔ مگرسب سے بڑھ کر حیرت انگیز بات انسانی تاریخ کا یہ سبق ہے کہ خواہش تو دور کی بات ہے مذہب اور نظریے کے نام پر بھی اگر تصور خدا کو مٹانے کی کوشش کی گئی تو اس کے بالکل الٹے نتائج نکلے ہیں۔ مثلاً جب بدھ مت نے مذہب کے نام پر خدا کی روایت کو ختم کرنا چاہے تو گوتم بدھ کے پیروکاروں نے اسی کو معبود بنا ڈالا اور جب کمیونزم نے نظریہ کی بنیاد پر خدا کے تصور کو ماضی کا قصہ قرار دیا تو انسانیت نے خود کمیونزم ہی کو ماضی کے قبرستان میں دفن کرڈالا۔ اس سے بڑھ کر اس بات کا ثبوت کیا ہو گا کہ خدا کا تصور خارج کی ٹھونسی ہوئی چیز نہیں بلکہ انسان کی فطرت کی آواز ہے جو وقتی طور پر دبائی جا سکتی ہے، ختم نہیں کی جا سکتی۔
[جاری ہے ]