مضامین قرآن (02) قرآن مجید کا بنیادی مضمون: دعوت کے دلائل ۔ ابو یحییٰ
قرآن مجید کا بنیادی مضمون: دعوت کے دلائل
پچھلے مہینے ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ قرآن مجید کے تین بنیادی مضامین ہیں:
۱) دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج
۲) دعوت کے دلائل
۳) مطالبات
آج سے ہم ان میں سے ایک ایک پر تفصیلی گفتگو کرنا شروع کریں گے۔ مذکورہ بالا ترتیب کے لحاظ سے ہمیں سب سے پہلے دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج سے گفتگو کا آغاز کرنا چاہیے۔ تاہم ہمارا تاثر یہ ہے کہ اس معاملے میں سب سے کم کام دعوت کے دلائل پر ہوا ہے اور اسی حوالے سے لوگوں میں بہت کنفیوژن پایا جاتا ہے، اس لیے گفتگو کا آغاز اسی سے کیا جائے۔
دعوت کے دلائل
قرآن مجید کی بنیادی دعوت توحید، رسالت اور آخرت کی دعوت ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ ان بنیادی معتقدات پر کسی تعصب یا جبر کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعقل اور تفکر کی بنیاد پر ایمان لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ انسانوں پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے کہ توحید، آخرت اور رسالت کی دعوت پوری طرح عقل و فطرت پر استوار ہے۔ اس کی جڑیں انسان کے اپنے وجود سے پھوٹتی ہیں اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تائید میں کھڑا ہے۔ مسلمہ علم کی روایت ہو یا انسانی تاریخ کا تسلسل، نظم کائنات ہو یا اس میں پائے جانے والے قدرت اور ربوبیت کے آثار ہر چیز انہی دلائل کی تقویت اور حمایت میں یک زبان ہے۔ انسانی ضمیر سے لے کر انفس و آفاق کی نشانیاں تک اس دعوت کی امین ہیں اور اس کی گواہ بھی۔ مذہب کی روایت ہو یا سابقہ کتابوں کی پیش گوئیاں سب اس دعوت کی تصدیق کرتی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید کی دعوت کے دلائل محض مجرد الفاظ اور مبہم اشارات پر مشتمل نہیں بلکہ مسلمہ حقائق کے تفصیلی بیان پر مشتمل ہیں اور انتہائی منظم انداز میں باقاعدہ مرتب ہیں۔ یہ دلائل آخری درجے میں یہ ثابت کردیتے ہیں کہ یہ پیغام حق ہے اور اس کے سوا سچائی کہیں اور نہیں پائی جاتی ۔
دلائل سے متعلق ایک اہم بات
ہم ابتدا ہی میں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید کے دلائل کا یہ موضوع تفصیلی ہے۔ قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ انہی پر مشتمل ہے۔ ان دلائل کو جب تک ان کے پورے پس منظر کے ساتھ نہیں سمجھا جائے گا قرآن کی حجیت واضح نہیں ہوگی۔ مگر کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے چونکہ ہم مسلمان ہیں اور پہلے ہی ایمان لاچکے ہیں اس لیے یہ دلائل وغیرہ ہم سے غیر متعلق ہیں۔ اول تو ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے پیدائشی ایمان کو حقیقی ایمان بنائیں۔ ہم اپنے رب کی ذات، صفات، اس کے حضور پیشی اور اس کے پیغمبر کی ہستی کو کسی تعصب کی بنیاد پرماننے کے بجائے غور و فکر کے بعد مانیں اور ایمان کو اپنی ذاتی دریافت بنائیں۔ تب ہی یہ ہوگا کہ ہمارا ایمان اللہ کی بارگارہ میں وہ قدر و قیمت پائے گا جس پر قرآن و حدیث کے سارے فضائل اور نتائج منحصر ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نتائج کسی نسلی ایمان کا نہیں بلکہ حقیقی ایمان کا ثمرہ ہیں۔ یہی قرآن مجید نے اپنے پیروکاروں کو ’’یا ایھا الذین آمنو‘‘ کہا ہے یعنی ایمان لانے والے لوگو ! اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایمان لایا جاتا ہے، یہ خود بخود نہیں آجاتا۔ اور دلائلِ قرآن ہی وہ دلائل ہیں جن پر غور و فکر سے انسان حقیقی معنوں میں پورے شعور سے ایمان لاتا ہے۔
دوسری طرف ان دلائل کا مطالعہ تذکیر و معارفت کے پہلو سے بہت اہم ہے۔ یعنی جو سمجھنا چاہیں یہ ان کے لیے دلیل راہ ہیں اور جو ایمان لاچکے ہیں ان کے لیے اضافہ ایمان، معرفت حق اور تذکیر و یاد دہانی کا ایک بڑا غیر معمولی ذریعہ ہیں۔ اس لیے کوئی مسلمان یہ کہہ کر ان سے صرف نظر نہیں کرسکتا کہ ہم تو مان چکے ہمیں دلائل کی کیا ضرورت۔ یہ دلائل ہی نہیں بلکہ معرفت حق کی کنجیاں ہیں۔ ان کو پڑھ کر اور ان پر غور و فکر کر کے ایمان بڑھتا ہے۔ یہ اضافہ ایمان وہ چیز ہے جس سے کوئی مومن کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے۔
دلائل قرآن : ایک اجمالی خاکہ
اس قسط میں ہم توحید، رسالت اور آخرت کے ان دلائل کا ایک اجمالی خاکہ پیش کردیتے ہیں اور انشاءاللہ آئندہ اقساط میں ان میں سے ایک ایک کی قرآن مجید کی آیات و بیانات کی روشنی میں تفصیل کریں گے۔
الف :توحید کے دلائل
قرآن مجید میں توحید کی پانچ دلیلیں بیان ہوئی ہیں۔
۱) دلیل ربوبیت
یہ دلیل بتاتی ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو سامان زندگی بہترین طریقے پر میسر کیے گئے ہیں وہ زبان حال سے گواہ ہیں کہ اس درجہ متنوع کائنات میں ہم آہنگی پیدا کرکے زمین سے آسمان تک انسان کی ربوبیت کا اہتمام کرنے والی ایک ہی ہستی ہے اور وہی ہے جو انسان کے جذبہ پرستش اور بندگی کی تنہا حقدار ہے۔
۲) دلیل قدرت
اس دنیا میں قدرت کاملہ صرف ایک ہی ہستی کو حاصل ہے جو کسی کی محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔ ہر نفع و ضرر اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے وہی مستحق عبادت ہے۔ اس کے علاوہ جن کی پوجا کی جاتی ہے وہ کوئی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ بے جان بت ہیں، کمزور اور محتاج انسان ہیں یا پھر وہ فرشتے ہیں جو خود کوئی قدرت اور طاقت نہیں رکھتے۔
۳) دلیل فطرت
انسانی فطرت اندر سے گواہی دیتی ہے کہ اس کا رب ایک ہی ہے۔ ربوبیت کا یہ اقرار روز ازل سے اس کی فطرت کے اندر ودیعت کردیا گیا ہے۔ خواہشات اور تعصبات کی بنا پر اس فطرت پر پردہ پڑجاتا ہے، مگر مصیبت میں یہ پردہ پھٹ جاتا ہے اور انسان ہر طرف سے مایوس ہوکر ایک ہی رب کو پکارتا ہے۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک خدا ہی اصل معبود ہے۔
۴) نظم کائنات کی دلیل
انسان جس کائنات میں کھڑا ہے وہ بالکل متضاد اور متنوع عناصر کا مرکب ہے۔مگر مشاہدہ ہے کہ زمین و آسمان، خشکی و پانی، ہوا اور آگ جیسے متضاد عناصر ملتے ہیں اور بقائے زندگی کا وہ سامان (life supporting System) فراہم کرتے ہیں جو ایک خالق کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ان کے خالق الگ الگ ہوتے تو اپنی مرضی سے ان متضاد عناصر کو کنٹرول کرتے اور یوں زمین میں فساد برپا ہوجاتا۔ مگر یہ دھرتی فساد سے نہیں بلکہ زندگی کے حسن سے عبارت ہے۔ یہ ایک خالق کے وجود کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
۵) انسانی علم و روایت کی دلیل
انسان کا سفر توحید کی سیدھی شاہراہ سے شروع ہوا۔ انسان اس راہ سے بھٹک کر بارہا شرک کی تاریک راہوں میں نکل گیا لیکن توحید کی سیدھی راہ اپنی جگہ باقی رہی۔ ایک خدا کے سوا کتنے معبود بنے اور وہ کون تھے اس بارے میں بہت اختلاف ہے، مگر ایک خدا موجود ہے۔ یہ انسانی روایت کی وہ وراثت ہے جس میں کبھی اختلاف نہیں ہوا۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل تعلیم ابتدا ہی سے توحید کی تھی۔ باقی سب انحرافات تھے۔ مزید یہ کہ توحید کے حق میں تو آسمانی صحائف میں بہت کچھ پایا جاتا ہے، مگر شرک کے حق میں ان میں ایک دلیل بھی موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ حضرت عیسی جنہیں سب سے زیادہ بڑے پیمانے پر اللہ کا شریک بنایا گیا ان کی تعلیم بھی شرک کے بیان سے بالکل خالی ہے۔ یہی معاملہ انفس و آفاق اور فطرت انسانی کا ہے جس میں شرک کے حق میں کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
یہ توحید کے وہ پانچ دلائل ہیں جو قرآن پاک میں بار بار مختلف پہلوؤں سے دہرائے گئے ہیں۔ توحید کے یہ دلائل وجود باری تعالیٰ کی بھی دلیل ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ایک جگہ براہ راست وجود باری تعالیٰ کی بھی دلیل دی گئی ہے۔ اسے ہم توجیہ کی دلیل کہہ سکتے ہیں۔
توجیہہ کی دلیل
اس دلیل کا استدلال یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے اپنی توجیہ چاہتی ہے۔ مگر خود اس کائنات کی کوئی توجیہہ انسان آج تک نہیں پیش کرسکا۔ کائنات کی واحد توجیہہ اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات والا صفات ہے جس کے نور سے دیکھا جائے تو آسمان و زمین کی ہر شے اپنے ٹھکانے پر نظر آئے گی۔ اس نور سے محروم ہونے کے بعد شرک کا سراب باقی رہ جاتا ہے یا پھر الحاد کا تہہ در تہہ اندھیرا۔ جس کے بعد کوئی روشنی ممکن نہیں۔
ب : رسالت کے دلائل
رسالت کے سات دلائل قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں۔ رسالت و نبوت کا انسٹی ٹیوشن اب تاقیامت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی پر منحصر ہے اس لیے ہم دلائل اسی پس منظر میں بیان کررہے ہیں۔ گرچہ قرآن جب سابقہ انبیا کی دعوت کو بیان کرتا ہے تو ان کی سچائی کے دلائل بھی وہاں زیر بحث آجاتے ہیں۔ مگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے کم و بیش وہی ہوتے ہیں جو نبی آخر زمان کے حوالے سے بیان ہوئے ہیں۔
۱) کلام کا معجزہ
پہلی دلیل جو رسالت کے اولین مخاطبین کو دی گئی جو زبان و بیان کے ہنر میں یکتا تھے۔ انہیں چیلنج دیا گیا کہ اس کلام کو اگر گھڑا ہوا انسانی کلام سمجھتے ہیں تو اس جیسی کوئی ایک سورت بنا لائیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے کفار مکہ نے آپ کی مخالفت اور ایذا رسانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن کبھی اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش تک نہ کی۔ اس لیے کہ یہ ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ یہی اس کلام کے الوہی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
۲) سابقہ سیرت
نبوت کی دوسری دلیل خود سیرت مصطفیٰ تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت سے قبل اہل عرب کے درمیان ایک عام آدمی کی حیثیت میں چالیس برس رہے۔ اس بے مثل سیرت کے شخص کو وہ خود صادق و امین کہتے تھے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق کے پیکر ایک تاجر تھے جنہیں مذہبی مباحث اور شعر و ادب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پھر یہی ہستی ایک روز اچانک اعلان نبوت کرتی ہے اور مذہب اور ادب دونوں کی روایت کو لاجواب کردیتی ہے۔ سوائے اس بات کے کہ ان پر اللہ کا کلام اترا اس بات کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی کہ یہ انقلابی تبدیلی کیسے رونما ہوئی۔
۳) کلام کا ارتقا اور تضاد سے پاک ہونا
اگلا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا ارتقا اور تضاد سے پاک ہونا ہے۔ اس دنیا میں ہر مفکر، شاعر، دانشور کا ایک فکری ارتقا ہوتا ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں زانوئے تلمذ تہ کرتا ہے۔ وہ سیکھنے اور سمجھنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ وہ فکری درستی، ارتقا اور بہتری کے مسلسل ایک لازمی مرحلے سے گزرتا ہے۔ اس عمل میں ممکن نہیں کہ اس کی فکر اور کلام تضادات سے پاک رہ جائے۔ دنیا کے کسی عالم، مفکر، شاعر اور دانشور کو اس سے استثنا نہیں۔ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی وہ ہے جس نے سیکھے بغیر بہترین کلام دنیا کے سامنے پیش کیا جس میں نہ ارتقا آیا اور نہ کہیں تضاد پیدا ہوا۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں نہ کہ کوئی عام انسان۔
۴) ماضی کا درست اور تصیح شدہ بیان اور مستقبل کی بالکل درست پیش گوئیاں
آپ نے نہ صرف اُمی ہونے کے باجود سابقہ کتابوں اور انبیا کے واقعات کو بیان کیا بلکہ وہاں جو کچھ تاریخی اور علمی غلطیاں تھیں ان کو چھوڑ کر صرف صحیح واقعہ سنایا۔ بارہا آپ نے اہل کتاب کے پوچھنے پر ایسے تاریخی واقعات پوری جزئی تفصیلات کے ساتھ بیان کردیے جس کا علم عرب کے کسی شخص کو تھا ہی نہیں۔ بلکہ اہل کتاب میں سے بھی چند ہی علماء ان سے واقف تھے۔ یہ علم خدا کے سوا آپ کو کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ آ پ کے رسول اللہ ہونے کا ثبوت ہے۔
ماضی کے ساتھ آپ نے مستقبل کی بالکل درست پیش گوئیاں کیں جو جزئی تفصیلات کے ساتھ بالکل درست ثابت ہوئیں۔ یہ پیش گوئیاں جن حالات میں کی گئیں ان میں ان کا پورا ہونا عملاً ناممکن تھا۔ مگر وقت نے ان میں سے ہر ایک کو بالکل درست ثابت کیا۔ اتنی صحت کے ساتھ واقعات بلکہ اقوام کے حالات کی پیش گوئیاں کرنا سوائے نبی کے کسی اور کے لیے ممکن نہیں جو خدا کے اذن ہی سے کلام کرتا ہے۔
۵) سابقہ کتابوں کی پیش گوئیاں
آپ کے وجود اور زندگی میں وہ سارے حالات جمع تھے جن کی پیش گوئی پچھلے صحیفوں اور انبیا کی تعلیمات میں ملتی ہے۔ آپ سے قبل نہ صرف آپ کے آنے کی پیش گوئی کی گئی تھی بلکہ کئی نشانیاں بھی بتادی گئی تھیں۔ آپ کا وجود ان نشانیوں کے عین مطابق تھا۔ اس لیے اہل کتاب آپ کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح لوگ اپنی اولاد کو پہنچاننے میں غلطی نہیں کرتے۔
۶) تعلیمات
آپ کی دعوت فطرت و اخلاق کے مسلمات، صالحین کی روایت، سابقہ مذہبی صحیفوں کی تعلیمات اورعلم و عقل کی روایت کے عین مطابق ہیں۔ نیز آپ کا کلام ہر طرح کے انسانی اضافوں اور شیاطین کے اثرات سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اس پس منظر میں یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ الوہی تعلیم کے آسمانی سلسلے ہی کا ایک حصہ ہیں نہ کہ اس سے جدا کوئی اجنبی۔ آ پ کی تعلیم میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے فطرت اور اخلاق رد کریں یا علم عقل جس کے خلاف ہو۔ ڈیڑھ ہزار برس کے بعد بھی قرآن کا ایک بیان بھی علم و عقل کے مسلمات کے خلاف ثابت نہیں ہوسکا۔ یہ آپ کی خدائی نسبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
۷) رسولوں کی اقوام کا انجام
رسول اس دنیا میں حق کی دعوت ہی لے کر نہیں آتا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس دعوت کے رد و قبول کے نتائج کیا نکلیں گے۔ یہ نتائج آخرت کے حوالے سے بھی ہوتے ہیں۔ مگر دلیل رسالت کے پہلو سے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ دعوت کے رد و قبول کے نتائج کی اس دنیا میں بھی نکلنے کی پیش گوئی نہ صرف کی جاتی ہے بلکہ لوگ اپنی آنکھوں سے ان پیش گوئیوں کو پورا ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ رسول کے منکرین اس کی پیش گوئی کے عین مطابق عذاب کی زد میں آکر ہلاک کردیے جاتے ہیں اور ماننے والے زمین کے وارث بنادیے جاتے ہیں۔ یہ رسول کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
[جاری ہے]