مٹی پاؤ کا فلسفہ ۔ فرح رضوان
آپ کے ساتھ کسی کے برے، گھٹیا یا ناروا عمل کے بعد ردعمل کا مکمل اختیار آپ کے پاس ہوتا ہے۔ آپ جوابی کارروائی کرتے وقت اس سے زیادہ بھی گراوٹ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ برابری کا لحاظ رکھتے ہوئے اسی سطح پر بھی آسکتے ہیں۔ لیکن ’’اس سطح‘‘ پر آجانا بھی تو پھر سطحی سی ہی بات ہو جاتی ہے۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ کسی اعلیٰ انسان کے لیے اکثر ایسے کسی رد عمل کی گنجائش سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی، وہ صرف ایک ہی عمل کر سکتا ہے۔ ۔ ۔ وہ ہے صبر۔
کئی سال پہلے بھائی سوات گئے تو ان کے دوست کے گھر والوں نے ان کو اپنے گھر میں سُکھائے گئے مکئی کے دانوں کا تھیلا تحفے میں دیا۔ امی نے ان سے پوپ کارن بنانے چاہے تو چند دانوں کے سوا باقی ویسے ہی ڈھیٹ بنے، جل تو گئے، پر کھل کر نہ دیئے، یہ عمل دو تین بار دھرانے کے بعد، ہم بچے تو ان مکئی کے دانوں سے مایوس ہوگئے۔
لیکن امی نے ان کو کچن سے متصل باغ میں بو دیا۔ ۔ ۔
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، ہم بچہ پارٹی تو بھول بھال گئے، البتہ امی اس پراجیکٹ پر کام کرتی رہیں۔ باغ کا یہ ایریا کچن کی سیوریج کی پرابلم سے کافی متاثر ہونے کے سبب اچھی خاصی بو کا شکار ہوچکا تھا لیکن اس پراجیکٹ کے سبب مزید مٹی ڈلوانے پر نہ صرف بدبو سے نجات مل گئی بلکہ جس سبب سے ناگوار بو باغ کے حسن کو متاثر کر رہی تھی وہ از خود کھاد میں تبدیل ہوگئی۔ اور پھر۔ ۔ ۔ کچھ ہی عرصے میں اس حصے میں ہریالی پھوٹ پڑی، تو حیرت کے ساتھ ہی امید نے بھی جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے باقاعدہ کئی کئی فٹ لمبی مکئی کی فصل تیار ہوگئی۔ جس کے ایک ایک پودے میں کئی کئی سو انتہائی میٹھے رس دار اور رنگ دار دانے لیے خوب صحت مند قسم کے بھٹے موجود تھے۔
ان کو دیکھ کر جو خوشی ہوئی وہ اُس وقت پوپ کارن کھا کر نہیں ہوتی۔ تب اگر پوپ کارن بن بھی جاتے تو ہم کتنے لمحے وہ لذت یا خوشی یاد رکھتے؟ اور جو خوشی اور سبق ہمیں اس پورے معاملے سے ملا وہ کیسے سیکھ پاتے؟ مکئی کے دانوں کو مٹی میں دبانے سے جو فصل نکلی، وہ کیسے دیکھ پاتے۔
مٹی پاؤ جو اکثر خاندانی تنازعات میں سیانے لوگوں کا وطیرہ ہوتا ہے اس کا مطلب شاید یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگ، یا لوگوں کی وجہ سے وہ حالات جو آج کسی صورت ٹھیک نہیں ہو رہے، ان کو وقت کی گرد میں دبا دیا جائے۔ وقتی طور پر کوئی بات بھی امید افزا دکھائی نہیں دیتی تب بھی صبر کرنا چاہیے۔ کیونکہ مایوسی گناہ ہے اور امید پر دنیا قائم ہے۔
ہمارا رب ہمیں دن رات اپنی اس کائنات میں اپنی قدرت اور صناعی سے یہی آرٹ آف لیونگ سکھا رہا ہوتا ہے۔ دانوں کو زمین میں ڈال کر مٹی ڈال دینے کا سبق بھی یہی ہے کہ جو ذات باری نیچر میں تبدیلی کی قدرت رکھتی ہے، لوگوں کے نیچر کو بدل دینا اور نقصان کو بے گنتی فوائد میں بدل ڈالنا بھی تو اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔