مسجد قرطبہ اور مسجد اقصیٰ ۔ ابویحییٰ
دور جدید میں امت مسلمہ نے جن عظیم ترین لوگوں کو جنم دیا ہے ان میں ایک نمایاں ترین نام علامہ اقبال (1876-1939) کا ہے۔ اقبال نے جس دور میں ہوش سنبھالا، اس دور میں امت مسلمہ اپنی تاریخ کے بدترین علمی، فکری، عملی اور سیاسی زوال کا شکار تھی۔ 1857 میں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ اگر اقبال کی پیدائش سے ذرا قبل ہوا تھا تو خلافت عثمانیہ کا خاتمہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جدید علوم سے ناواقفیت اور دینی علوم میں جمود اگر ان سے قبل مسلمانوں کا طریقہ تھا تو مغرب کی اندھی تقلید اور دور جدید سے آنکھیں بند کر لینے کی دو انتہاؤں کو انہوں نے اپنے سامنے مسلم معاشرے میں پنپتے دیکھا۔ مسلمانوں کا عظیم ماضی اگر ان سے پہلے تاریخ کی ایک داستان بن چکا تھا تو مغربی افکار اور سوشلسٹ انقلاب کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے انسانیت کی نئی تاریخ بناتے ہوئے دیکھا۔
سیاسی غلامی، فکری انحطاط اور مذہبی جمود کے ان حالات میں جنم لینے والے بلند پرواز اقبال کے ذمے ملت کی راہنمائی کا عظیم کام تھا۔ وہ اس کام کو کرنے کے پوری طرح اہل بھی تھے۔ وہ ایک درد مند انسان تھے جنہیں دردِ دل کے ساتھ فکر و نظر سے بھی نوازا گیا تھا۔ جہاں جدید علم و فکر، نئی روشنی اور مغربی اقوام کے حالات سے وہ واقف تھے تو وہیں مذہبی علوم، مسلم تاریخ اور امت کے مسائل پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ ان کا سرمایہ گہری نظر اور وسیع علم تک ہی محدود نہ تھا بلکہ اس کے ابلاغ کے لیے اپنے زمانے کے موثر ترین ذریعہ یعنی شاعری پر انہیں انتہائی غیرمعمولی عبور تھا۔ ان کی مخاطب قوم اگر زوال اور مایوسی کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھی تو اس کے ساتھ ہی وہ شدت سے کسی بانگ درا، کسی فکری قائد کی راہنمائی قبول کرنے کے لیے ذہناً تیار بھی تھی۔
یہ وہ حالات تھے جن میں علامہ اقبال اٹھے اور اپنے سوز، ترنم اور شعلہ بیانی سے مسلمانوں کے قافلہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ا قبال کے افکار نے مسلمانوں کو مایوسی کے گرداب سے نکالا، اہل مغرب کی ذہنی غلامی میں جانے سے روکا، کمیونزم کے بڑھتے سیلاب کے سامنے سر جھکانے سے باز رکھا اور کچھ ہی عرصے میں انہوں نے ہندو تہذیب کے بالمقابل دنیا کی سب سے بڑی مسلم سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔
اقبال کے افکار و خیالات کو اگر علامتی طور پر ان کی شاعری ہی سے کوئی نام دیا جاسکتا ہے تو وہ ’’مسجد قرطبہ‘‘ کا نام ہے۔ یہ اقبال کی وہ معرکۃ الآرا نظم ہے جسے اردو زبان کا تاج محل کہا جاتا ہے۔ فنی محاسن سے قطع نظر یہ ان کے افکار کے بنیادی نقطے کو بھی بہترین طریقے پر بیان کرتی ہے۔ یعنی مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی۔ اسپین کے شہر قرطبہ میں واقع یہ مسجد مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ عظمت رفتہ کے ایک نشان کے طور پر باقی ہے۔ یہ مسجد علامتی طور پر اس سانحے کو بیان کرتی ہے کہ کس طرح مسلمانوں نے ہزار برس تک دنیا پر حکومت کی اور پھر ان کا اقتدار مسیحی طاقتوں کے قدموں تلے روندا گیا۔ مگر اقبال اس مسجد میں بیٹھ کر، اس شہر میں ٹھیر کر اور اس کے دریا الکبیر کے کنارے کھڑے ہوکر مسلمانوں کے اندر عشق کی روح پھونکتے ہیں اور پھر ایک نئے زمانے کا خواب دیکھتے ہیں۔
آبِروان کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
اس میں کوئی شک نہیں کہ بیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آنے والے اقبال کے افکار اس صدی کے خاتمے تک اصل میں مسلمانوں کی بنیادی فکری غذا رہے اور بعد میں پیدا ہونے والے فکری رہنما بھی اصل میں اقبال کا پھونکا ہوا صور ہی نئے سروں میں دہراتے رہے۔ تاہم ایک صدی بعد یہ حقیقت بالکل واضح ہوچکی ہے کہ اقبال کی تمام تر عظمت کے باوجود مسلمانوں کے مسائل، کچھ زمانی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔ اقبال نے جس عظمت رفتہ کا خواب دیکھا تھا وہ آج بھی اپنی تعبیر سے محروم ہے۔ اقبال جس مرد مومن کی نوید دیتے تھے وہ تو پیدا نہ ہوسکا، افرادِ ملت میں رہی سہی اخلاقی حس بھی کمزور پڑ گئی۔ اقبال اسلامی قانون کے جن مسائل کا حل اجتہاد کی راہ میں ڈھونڈتے تھے وہ تو سامنے نہ آسکا البتہ خود شراب کے حرام ہونے نہ ہونے کی بحثیں اقبال کے اپنے گھر سے پیدا ہوئیں۔ اقبال کا اتحادِ امت کا درس پہلے خلیج بنگال کی نظر ہوا اور اب باقی پاکستان کئی قومیتوں کے درمیان اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے۔ اقبال کے ممولے اور کبوتر مغربی شاہینوں سے لڑتے لڑتے اب خود مسلمانوں پر خود کش حملے کرنے لگے ہیں۔
ان حالات میں یہ ضروری ہوچکا ہے کہ ہم مان لیں کہ مسلمانوں کی قدیم فکری روایت کے آخری بڑے آدمی یعنی اقبال کی راہنمائی ہمارے مسائل کا حقیقی حل نہیں تھی۔ ہم مان لیں کہ ’’مسجد قرطبہ‘‘ کا ماڈل مسلمانوں کے مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے مسائل کا حل ان تین مسجدوں کا ماڈل ہے جو اس قابل ہیں کہ ان کی زیارت کے لیے جایا جائے۔ یعنی مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ ان تینوں مسجدوں کی نمائندگی کے طور پر ہم اگر علامت بنانا چاہیں تو ان تین مساجد میں سے مسجد اقصیٰ کو علامت بنایا جاسکتا ہے کیونکہ مسجد قرطبہ کی طرح یہ مسجد بھی اس وقت مسلمانوں کے قبضے سے نکل گئی ہے اور دوسری بات جو ہمارے حوالے سے زیادہ اہم ہے کہ سابقہ امت کے دور زوال کی جنگ مسجد اقصیٰ ہی میں لڑی گئی تھی۔
’’مسجد اقصیٰ‘‘ میں سیکڑوں انبیا اور ہزارہا صالحین نے جو داستان لکھی اور جو جنگ لڑی وہ سیاسی اقتدار کی نہیں بلکہ توحید کی جنگ تھی۔وہ جب غالب ہوئے تب بھی اور سیاسی طور پر مغلوب ہوئے تب بھی ان کی جنگ صرف یہ تھی کہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر خالق کی غلامی میں لایا جائے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے آخری رسول حضرت عیسیٰ ؑ دور غلامی میں پیدا ہوئے۔ مگر اپنی قوم میں عظمت رفتہ کا صور پھونکنے کے بجائے انہوں نے ان کی اخلاقی غلطیوں پر متنبہ کیا اور لوگوں کو ہدایت کے اس منصب کی طرف متوجہ کیا جس پر بنی اسرائیل فائز تھے۔
آج بھی مسلمانوں کا کام یہی ہے۔ انہیں اپنی عظمت رفتہ کی نہیں توحید کی جنگ لڑنی ہے۔ ان کی اصل ضرورت ان کے اقتدار سے زیادہ ان کے اخلاق کی بحالی ہے۔ ان کا ماڈل ’’مسجد قرطبہ‘‘ نہیں ’’مسجد اقصیٰ‘‘ ہونا چاہیے۔ یہی وہ ماڈل ہے جو نہ صرف انہیں رب کی نظر میں محبوب بنائے گا بلکہ چند برسوں میں انہیں دنیا کا حکمران بھی بنا دے گا۔