معاشرے کو بہتر بنانے کا نسخہ ۔ ابویحییٰ
میری ابتدائی رسمی تعلیم تمام تر اردو زبان میں ہوئی ہے۔ تاہم اسکول کے زمانے میں میرے گھر والوں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ انگریزی میں مہارت بھی بہت ضروری ہے، مجھے انگریزی زبان کے ایک انسٹیٹیوٹ میں داخل کرا دیا جو اُس زمانے میں شہر کا واحد انسٹیٹیوٹ تھا اور جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انگریزی کے ماہرین انگریزی زبان کی تعلیم دیا کرتے تھے۔
یہ انسٹیٹیوٹ گھر سے کافی دور تھا۔ وہاں جانے کے لیے دو بسیں بدلنی پڑتی تھیں۔ اپنے گھر سے ہم ایک منی بس میں بیٹھا کرتے تھے۔ اسی منی بس کے راستے سے ہمیں دوسری بس مل جایا کرتی تھی۔ مگر یہ منی بس کا کوئی اسٹاپ نہ تھا۔ بسوں ویگنوں میں سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ انھیں مسافر بٹھانا ہو تو یہ کہیں بھی بس روک لیتے ہیں اور اتارنا ہو تو اسٹاپ ہی پر روکتے ہیں۔ چنانچہ وہاں بنے ایک اسپیڈ بریکر پر منی بس جب آہستہ ہوتی تو ہم چلتی ہوئی منی بس سے چھلانگ لگا کر اتر جایا کرتے۔ یہ ایک خطرناک کام تھا مگر ہمارا روز کا معمول تھا۔
یہ منی بس ہمارے گھر تک عام طور پر خالی ہوتی تھی۔ اس لیے ہمیں سیٹ مل جایا کرتی تھی۔ مگر بعد میں آنے والے کھڑے ہو کر سفر کیا کرتے تھے۔ میری عادت تھی کہ اگر کوئی بزرگ آجاتا تو میں اپنی سیٹ اسے دے کر خود کھڑا ہوجاتا تھا۔ ایک روز ایسا ہی ہوا کہ ایک بزرگ بس میں چڑھے اور میں ان کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ دوسری بس ملنے کی جگہ قریب آئی تو میں دروازے کے پاس چلا گیا تاکہ حسب معمول چھلانگ لگا کر اتر سکوں۔ کنڈکٹر نے جب دیکھا کہ میں وہی سیٹ چھوڑنے والا لڑکا ہوں اور یہاں حسب معمول منی بس نہیں رکے گی تو اس نے زور سے دروازے کو ہاتھ مار کر کہا۔ استاد گاڑی جام کر۔ بڑا قیمتی آدمی ہے۔
گاڑی مکمل رک گئی۔ میں آرام سے اتر گیا۔ کنڈکٹر نے”ڈبل ہے“ کا نعرہ لگایا۔ گاڑی تیزی سے آگے نکل گئی۔ اس واقعے پر کئی عشرے گزر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز پر بہت فضل فرمایا ہے اور اس کی تحریروں اور تقریروں کی تحسین اور تعریف میں بڑے بڑے لوگوں نے بہت کچھ کہا ہے۔ ان میں سے کوئی بات مجھے یاد نہیں۔ مگر اُس کنڈکٹر کی یہ آواز آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اُس وقت میں ایک عام سا اسٹوڈنٹ تھا جس کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم عام لوگوں کی تعریف کرنے، ان کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنے میں بہت بخیل واقع ہوئے ہیں۔ ہم خاص لوگوں کی تعریف کر دیتے ہیں۔ بلکہ بارہا ان کی عقیدت کو زندگی بنا لیتے ہیں۔ مگر عام آدمی اکثر ہمارے اعتراف سے محروم رہ جاتا ہے۔
ہم یہ بات نہیں جانتے کہ انسانی معاشرے خاص لوگ نہیں بلکہ عام لوگ چلاتے ہیں۔ ان کا اعتراف کرنا اور ان کی تعریف کرنا ان کے اندر ایک نئی زندگی پیدا کر دیتا ہے۔ اس اعتراف کے بعد وہ لوگ مزید شوق اور لگن سے اپنا کام کرتے، ذمہ داریاں اٹھاتے اور قربانیاں دیتے ہیں۔ یہ عام لوگ ہم میں سے ہر شخص کے اردگرد پائے جاتے ہیں۔ کوئی کنڈکٹر، کوئی ڈرائیور، کوئی ملازم، کوئی ماتحت، کوئی پھل فروش کوئی نانبائی اور کوئی طالب علم۔ یہ عام آدمی کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ آپ کا ایک جملہ، آپ کی ایک تھپکی، آپ کی ایک حوصلہ افزا مسکراہٹ؛ اس عام آدمی کو خاص بنا سکتی ہے۔ اس میں نئی روح اور نئی توانائی بھر سکتی ہے۔ اس کو اور زیادہ اچھا اور ذمہ دار بنا سکتی ہے۔
ہم سب کو دوسروں کی خوبیوں کے عدم اعتراف کی بری عادت کو چھوڑنا ہوگا۔ جہاں کوئی اچھا کام دیکھیں، جہاں اچھا رویہ دیکھیں، جہاں ذمہ داری اور فرض شناسی دیکھیں۔ اس کا اعتراف کریں۔ یہ معاشرے کو بہتر بنانے کا بہت آسان اور سستا نسخہ ہے۔