مسائل کے حل کا دیرپا راستہ ۔ ابویحییٰ
پاکستان میں لوگوں کے نفسیاتی، سماجی، معاشی اور خاندانی مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ ایسے میں یہ لوگوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی جس پہلو سے مدد کرسکتے ہوں ضرور کریں۔
تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جس رفتار سے یہ مسائل بڑھ رہے ہیں، مستقبل میں ہر دوسرا تیسرا فرد کسی نہ کسی پہلو سے ان مسائل کا شکار ہوچکا ہوگا۔ ایسے میں مسائل کا شکار لوگ زیادہ ہوں گے اور ان کو حل کرنے والے لوگ بہت کم رہ جائیں گے۔ چنانچہ لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا اصل مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں ہے۔
ان مسائل کی وجوہات کئی ہیں۔ نوجوانوں کے لیے بے روزگاری اور شادی میں تاخیر، بچوں کے لیے ماں باپ کے درمیان اختلافات، جھگڑوں اور طلاق کے واقعات جبکہ باقی لوگوں کے لیے غربت، بیماری، زندگی میں پیش آنے والی ناکامیاں اور مایوسیاں، دوسروں کی طرف سے پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات وہ عام اسباب ہیں جنھوں نے مزاجوں میں چڑچڑاپن، دل و دماغ میں مایوسی اور رویوں میں تلخی پیدا کر دی ہے۔
تاہم ان وجوہات سے قطع نظر ہمارے نزدیک ان مسائل کا اصل تعلق ان وجوہات سے نہیں ہے۔ یہ وجوہات جنھیں زندگی کی منفی حقیقتیں کہا جاسکتا ہے، کم یا زیادہ، ہمیشہ زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یہ قابلیت عطا کی ہے کہ ان کو درست زاویہ نظر دے دیا جائے تووہ ان سارے حالات کا بڑے حوصلے سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانی نفوس کی صالح بنیادوں پر تربیت کی جائے۔
ہمارے نزدیک ہمارے معاشرے کا اصل المیہ یہ ہے کہ یہاں مثبت بنیادوں پر تربیت دینے والے سارے ادارے اپنی جگہ چھوڑ چکے ہیں۔ والدین، خاندان کے بزرگ، محلے کے بڑے بوڑھے، اساتذہ، علماء اور دانشور غرض ہر گروہ نے تربیت کا اپنا کام چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ کئی پہلوؤں سے منفی تربیت کا کام کر رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر سیاست اور مذہبی فکر میں در آنے والی انتہا پسندی اور میڈیا کی منفی، مایوسی کو بڑھاوا اور بے راہ روی کو فروغ دینے والی روش نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں ہمارا سوشل فیبرک تباہی کے دہانے پر آپہنچا ہے۔
ایسے میں جتنی اہمیت اس بات کی ہے کہ لوگوں کے فوری مسائل کے حل کے لیے کام کیا جائے، اس سے کہیں زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ تربیت کا ایک نیا نظام قائم کیا جائے۔ ایمان و اخلاق کی ان صالح بنیادوں پر لوگوں کو اعلیٰ اور حوصلہ مند انسان بنایا جائے جن کو قرآن مجید نے نجات کا معیار قرار دیا ہے۔
قرآن مجید کے بیان کردہ یہ اخلاقی معیارات قرآن کی اپنی اصطلاح میں اعمال صالح کہلاتے ہیں۔ ان کو اعمال صالح کہا ہی اس وجہ سے جاتا ہے کہ ان سے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں فساد ختم ہوتا ہے اور ہر چیز درست ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان قرآنی معیارات کو ایک عام سی چیز سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں پر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ہر خیر منحصر ہے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ انھی پر اللہ تعالیٰ نے آخرت کی نجات کو موقوف قرار دیا ہے۔ ہم نے ان تمام کو نہ صرف اپنی کتاب قرآن کا مطلوب انسان میں جمع کر دیا ہے بلکہ ان کی بنیاد پر لوگوں کی تعلیم و تربیت کا ایک سلسلہ شروع کردیا ہے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور انشاء اللہ معاشرے میں اعلیٰ انسانوں کی ایک نئی فصل سامنے آنا شروع ہو جائے گی۔ یہی وہ لوگ ہوں گے جو معاشرے کے ہر شر کو خیر سے بدل دیں گے۔