منفی سوچ کا شاخسانہ ۔ ابویحییٰ
[یہ تحریر ایک ناقد کو لکھے گئے میرے خط سے لیا گیا ایک حصہ ہے۔ یہ تحریر ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی اس منفی سوچ کو واضح کرتی ہے جس کے شکار لوگ ہر چیز میں منفی پہلو ڈھونڈتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایسی جگہ بھی منفی چیزیں دریافت کر لیتے ہیں جہاں وہ سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔ پھر اس کے بعد وہ اپنے نتائج تحقیق اتنے اعتماد سے بیان کرتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں معاشرے سے علم کا اعتبار اٹھ جاتا ہے اور عام آدمی بری طرح کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے۔]
محترمی و مکرمی
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
عنایت نامہ موصول ہوا۔ میں تنقید کو بڑے کھلے دل و دماغ سے دیکھتا ہوں اور جہاں غلطی نظر آجائے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اپنی اصلاح کر لیتا ہوں۔ میرا اپنا ہی کہنا ہے کہ ’’خوش ہونا ہے تو تعریف سنیے اور بہتر ہونا ہے تو تنقید سنیے‘‘۔ البتہ یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ تنقید علم کی مستند روایت اور معقولیت کی بنیاد پر کی جائے نہ کہ اپنے جذبات، ذوق اور مزاج کے لحاظ سے کی جائے۔۔۔۔
میرے ناول ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کے آخری حصے سے میں بھی آپ کو غلط فہمی ہوئی۔ اس حصے کو دوبارہ پڑھیے تو واضح ہوجائے کہ عبداللہ ناعمہ کو دیکھ کر اس پر فریقتہ نہیں ہوا تھا۔ وہ زبردست صدمے اور شاک کی کیفیت میں آگیا تھا کیونکہ خواب میں جس لڑکی کو بطور بیوی وہ دیکھتا رہا تھا وہ انتہائی غیر متوقع طور پر اس کے سامنے آجاتی ہے اور اس کی شکل، آواز اور نام تینوں وہی ہوتے ہیں جو خواب میں دیکھا تھا۔ حالانکہ اس سے قبل نوجوان عبداللہ نے ساری زندگی اس لڑکی کو نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے اطمینان رکھیے عبداللہ اس پر فریقتہ ہوا تھا نہ اس کے حسن کی تعریفیں کرنا شروع ہوگیا تھا ۔نہ اس کے بے ہوش ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ناعمہ کے رنگ و روپ کی تاب نہیں لاسکا تھا۔ اس کے دل میں آنے والی قیامت کا سبب میں نے واضح طور پر بیان کر دیا تھا۔ یعنی خواب میں جسے دیکھا تھا وہ وجود یکایک ایک مجسم حقیقت بن کر سامنے آگیا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ وہ خواب محض ایک خواب نہیں تھا بلکہ مستقبل کے واقعات کی پیش گوئی تھی جس کا ظہور ناعمہ کی شکل میں فوراً شروع ہوگیا تھا۔ آپ نے سرسری نظر سے یہ مضمون پڑھا ہے۔ دوبارہ غور سے پڑھیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے وہ آپ کا اپنا فہم ہے جسے آپ نے اطمینان سے میرے سر ڈال دیا ہے۔ مجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ میری تحریر کے لاکھوں قارئین نے تو وہی سمجھا جو میں نے لکھا تھا۔ یعنی عبداللہ زبردست حیرت کا اس لیے شکار ہوا کہ جس لڑکی کو بطور بیوی رات خواب میں دیکھا تھا، وہ بعینہ سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ عبداللہ کسی طور اس پر ایک نظر میں فریقہ نہیں ہوا تھا۔ اس کی نفسیات کو ایک زبردست جھٹکا لگا تھا۔ جس کا سبب میں نے انتہائی صاف الفاظ میں اس طرح بیان کیا تھا۔
’’اس قیامت کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ لڑکی غیر معمولی طور پر حسین نقش و نگار اور رنگ و روپ کی مالک تھی۔ رہا عبداللہ تو اس جیسی بے داغ جوانی کہاں کسی نے دیکھی ہوگی۔ پھر وہ حرم میں جس کیفیت میں تھا وہاں صنف مخالف تو کیا اپنی جنس کے انسان بھی نظر آنا بند ہوجاتے ہیں۔۔۔ سوائے کعبہ اور رب کعبہ کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔‘‘
اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ اس نے ناعمہ کے حسن کی تعریفیں شروع کر دی ہیں۔ بلکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا کہ ناعمہ کی خوبصورتی کے باوجود اس نے نظر جھکانے کا راستہ ہی اختیار کیا تھا۔ ناعمہ کی خوبصورتی منظر نگاری کا حصہ تھی اور اس سے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ عبداللہ کا کردار کتنا غیر معمولی تھا کہ اس نے ناعمہ کی غیر معمولی خوبصورتی کے باوجود اسے دوبارہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ ناعمہ پر فریقتہ ہوجانا اور اس کی تعریفیں کرنا تو دور کی بات ہے، صرف اس بات کی تصدیق کے لیے کہ یہ وہی لڑکی ہے جسے خواب میں دیکھا تھا، عبداللہ، ناعمہ کو دوبارہ دیکھ لینے کے ارادے پر یہ سوچ کر قابو پاتا ہے۔
’’ہاں یہی لمحہ بطور آزمائش میری زندگی میں آگیا ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ میں اس لڑکی کو اپنے خواب کی تعبیر سمجھ کر اپنی آنکھوں میں شیطان کو بسیرا کرنے دوں۔ میں اس کو ایسا نہیں کرنے دوں گا۔ ہرگز ایسا نہیں کرنے دوں گا۔‘‘
ناول کا اختتام عبداللہ کی بے ہوش ہوجانے کی اس کیفیت پر ہوتا ہے جس کا سبب ناعمہ کی آواز، اس کا نام اور اس کی شکل کا بعینہ وہی ہونا ہوتا ہے جو رات خواب میں دیکھا تھا۔
’’اس کے سامنے واقعی ناعمہ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ لڑکی جسے اس نے زندگی میں پہلی دفعہ جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مگر جسے وہ رات خواب میں۔۔۔
عبد اللہ نے گھومتے ہوئے دماغ سے سوچا:
’’اگر وہ خواب تھا تو یہ کیسی حقیقت تھی۔ یہ اگر حقیقت ہے تو پھر وہ خواب۔۔۔۔‘‘
معاملہ عبد اللہ کی برداشت سے زیادہ ہوچکا تھا۔ اسے آنے والے چکر اب تیز ہوگئے۔ وہ ناعمہ کو دیکھتے ہوئے لہرایا اور بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑا۔‘‘
یہ سب عبداللہ کے دل کی کیفیات کا بیان ہے کہ وہ خواب کو حقیقت کے روپ میں دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس پورے منظر میں عبداللہ کی زبان سے صرف ایک جملہ نکلا ’’میرا نام عبد اللہ ہے۔‘‘۔ مگر عبداللہ کی ان انتہائی پاکیزہ دلی کیفیات اور اپنے تعارف پر مبنی اس ایک جملے سے فریقتہ ہوجانے، ناعمہ کے حسن کی تعریفیں اور اس کے حسن کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہوجانے جیسے مضامین جو آپ نے نکالے ہیں، وہ زبان و بیان کا معمولی سا ذوق رکھنے والا کوئی شخص یہاں سے برآمد نہیں کرسکتا۔ تاہم آپ نے یہ مضامین نکال ہی لیے ہیں تو میں دعا ہی کرسکتا ہوں۔
جو دیگر چیزیں آپ نے تحریر فرمائی ہیں میں ان کا جواب بھی تحریر کرسکتا ہوں۔ مگر میرے خیال میں یہی ایک مثال کافی ہے اس بات کے لیے کہ انسان کو مثبت ذہن سے چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ منفی انداز فکر کے ساتھ اس عاجز کی تو کیا حیثیت ہے، آپ قرآن و حدیث بھی پڑھیں گے تو وہاں سے بھی وہ سارے بلکہ ان سے بھی کہیں زیادہ خطرناک مضامین برآمد فرمالیں گے جو میری تحریروں سے نکال رہے ہیں۔ آپ سے درخواست یہ ہے کہ میری کتاب تیسری روشنی کا مطالعہ کیجیے۔ خاص کر اس کے نظر ثانی شدہ ایڈیشن کا جو نیٹ پر فری دستیاب ہے۔ اس میں میں نے کئی ناقدین کی نقد کی بے وقعتی کو ان کے اسی منفی انداز فکر کے پس منظر میں واضح کیا ہے۔
میرے لہجے میں شاید کچھ تلخی ہے، مگر اس کا سبب یہ ہے کہ یہ کسی ایک آدھ فرد کا معاملہ نہیں کہ جسے نظر انداز کر دیا جائے۔ یہاں تو پوری کی پوری نسل کی تربیت یہ کردی گئی ہے کہ جو بات ان کے ذوق، مزاج اور علم کے مطابق نہ ہو تو وہ بے دریغ اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی سامنے والے سے سوال کرکے اس کا نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ کبھی اپنے علم پر نظر ثانی کرکے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ہوسکتا ہے ہمارا علم ہی کم یا غلط ہو اور سامنے والا اس معاملے میں ہم سے زیادہ علم رکھتا یا تحقیق کرچکا ہو۔ وہ سطحی انداز میں ایک رائے قائم کرتے ہیں اور پورے اعتماد کے ساتھ اسے ایسے بیان کرتے ہیں جیسے ان پر آسمان سے وحی اتری ہو اور ان کی اپنی غلطی کا امکان صفر ہے۔ حتیٰ کہ وہ ایسے معاملات میں بھی کسی اختلاف رائے کی اجازت نہیں دیتے جہاں ایک سے زیادہ رائے لوگ ہمیشہ سے قائم کرتے چلے آرہے ہیں۔
اس لیے میری اس خط کو ذاتی حیثیت میں مت لیجیے گا۔ اس خط کا مخاطب کوئی شخص نہیں، ایک بری تربیت ہے۔ میں اس بری تربیت کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں اور جب تک اللہ نے ہمت دی، یہ جنگ لڑتا رہوں گا۔ کیونکہ ہمارے ہاں علم و تحقیق کے سوتے اسی بری تربیت نے بند کر دیے ہیں۔
ابو یحییٰ
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ