ماچس ۔ ابویحییٰ
اس دنیا میں ہوا اور پانی کی طرح آگ بھی انسانوں کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ اپنے جسم کو گرم رکھنے سے لے کر کھانا پکانے اور روشنی کے حصول جیسی اہم ترین ضروریات اسی آگ پر منحصر ہیں۔ زمانہ قدیم ہی سے سورج اس آگ کا بنیادی ذریعہ تھا۔ دوسرا ذریعہ جنگلات تھے جن میں بجلی گرنے یا دیگر وجوہات سے لگنے والی آگ نے انسانوں کو یہ احساس دلایا کہ سورج پر تو قابو پانا ممکن نہیں کیوں نہ آگ پر قابو پالیا جائے۔
انسان نے چقماق (Flint) کے ذریعے سے پہلی دفعہ آگ کو اپنے قابو میں کیا۔ لیکن یہ طریقہ انتہائی مشکل اور صبر آزما تھا۔ انسان نے صدیوں تک اس مسئلے کو حل کرنا چاہا یہاں تک کہ دور جدید میں سلفر کے عنصر کی جلنے کی خصوصیت کی دریافت کے بعد آخر کار ماچس یا دیا سلائی انیسویں صدی میں ایجاد ہوئی۔ اس میں آگ کو محفوظ طریقے پر اور انتہائی سستے داموں انسانوں کے لیے قابلِ حصول بنا دیا گیا۔ آگ جلا کر روشنی اور حرارت حاصل کرنا جو اس سے پہلے ایک خطرناک اور جوکھم کا کام تھا بچوں کا کھیل بن گیا۔
آج ہم جب صبح و شام ماچس اور لائٹر کے ذریعے بہت آسانی سے آگ حاصل کر کے چولہا اور گیزر وغیرہ جلاتے ہیں تو ہزاروں برس پر پھیلی یہ تاریخ ہمارے ذہن میں نہیں ہوتی۔ مگر درحقیقت یہ سادہ ایجاد ان ہزاروں عنایات میں سے ایک ہے جو اللہ تعالیٰ نے دور جدید کے انسانوں پر کی ہیں اور جن کی وجہ سے ہماری زندگی بہت آسان ہوگئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دور جدید کے انسان کے پاس اس کا سب سے بڑھ کر موقع ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ماضی سے کہیں بڑھ کر سراہے۔ اس کی حمد و تعریف کرے۔ اس کی محبت کے نغمے گائے۔ مگر آج کا انسان ہی وہ ہستی ہے جو سب سے بڑھ کر خدا کو بھولا ہوا اور اس کی ناشکری میں مصروف ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ جدید انسان کا المیہ۔