لگے رہو منے بھائی! ۔ عارف انیس
ایک کشش ثقل کا قانون ہے، ایک حرکت کا قانون ہے، ایک توانائی کا قانون ہے، اور اسی طرح ایک چلتے جانے کا قانون ہے، بے ثمر کوششوں کا قانون ہے جس کے بارے میں ہم انسان بہت کم جانتے ہیں۔ تاہم چرند، پرند، درند، اس قانون کے بارے میں ہم سے بہت بہتر جانتے ہیں۔
سارے تیر اپنے اہداف تک نہیں پہنچتے۔ ساری گولیاں اپنا نشانہ نہیں ڈھونڈ پاتیں۔ سارے کوہ پیما ایورسٹ کی بلندیوں کو فتح نہیں کرسکتے۔ سارے قدم اپنی منزلوں تک نہیں پہنچ پاتے، ساری جاں گسل راتوں کی صبح نہیں ہوپاتی۔ سارے تعویذ اثر نہیں کرتے۔ کچھ کاموں میں صرف انگلیاں فگار ہوتی ہیں اور خامہ خونچکاں ہوتا ہے۔
جب شیر اپنے شکار پر نکلتے ہیں تو چار میں سے ایک مرتبہ کامیاب ہوتے ہیں۔ یعنی جنگل کے بادشاہ کی کامیابی کا تناسب ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں رہتا۔ تاہم بادشاہ اس بات کو بالکل مائنڈ نہیں کرتا۔ وہ اسی تناسب سے اپنی کوششوں کا تناسب بڑھا دیتا ہے۔
70 فیصد سے زیادہ درختوں کے بیج پرندے کھا جاتے ہیں۔ آدھے سے زیادہ مچھلیوں کے انڈے پھلنے پھولنے سے پہلے ہی کھا لیے جاتے ہیں۔ آدھے سے زیادہ ریچھوں کے بچے بلوغت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ نصف سے زیادہ بارشیں، سمندروں پر برس جاتی ہیں۔
سائنس دانوں کی تحقیقات کے مطابق نباتات، حیوانات اور قدرت کے نظام میں موجود باقی مخلوقات بے ثمر کوششوں کے قانون سے آگاہ بھی ہیں اور اسی کے تابع بھی ہیں۔ وہ اس قانون کے حوالے سے کوئی واویلا نہیں کرتے۔ کوئی رولا نہیں ڈالتے۔ جنگل میں شیروں اور چیتوں نے کبھی ہڑتال نہیں کی کہ ہماری تین چوتھائی کوششیں ناکام کیوں رہتی ہیں۔ بس سب سر نیچا کیے اگلی کوشش کے لیے متحرک ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ وہ تو صرف جبلت کے ہاتھوں بھاگ رہے ہیں۔ انسان کے برعکس اپنے مقصد یا منزل کا حصول ان کے لئے شعوری کارروائی نہیں ہوتی۔ ان کے اندر چپ لگی ہے، سو چلا چل!
بے ثمر کوششوں کا قانون ہے کیا؟ یہ کہ ساری سعی بارآور نہیں ہوگی، ثمر آور نہیں ہوگی۔ سو زیادہ بار کرنا پڑے گا، زیادہ خجل ہونا پڑے گا، زیادہ خواری اٹھانی پڑے گی۔ پہلی کے بعد دوسری، پھر تیسری، پھر چوتھی…… شاید پھر ساتویں، دسویں، بیسویں…… مرتبہ بیج کونپل میں، پھر شگوفے میں، پھر تنے میں اور پھر درخت میں بدل جائے گا۔ اور یہ ساری کوششیں ناکام نہیں ہوتیں، بلکہ بیسویں کوشش تک پہنچنے کی سیڑھی ہوتی ہیں، رستہ ہوتی ہیں۔
انسان کیا کرتا ہے؟ انسان واویلا کرتا ہے۔ اپنا گریبان پھاڑ لیتا ہے، چہرے پر تھپڑ مار منہ لال کرلیتا ہے، یا پھر شرم سے منہ چھپا لیتا ہے۔ سٹریس کا مرض پال لیتا ہے۔ ڈیپریس ہوجاتا ہے۔ آپ لوگوں نے کتنے سٹریسڈ زیبرے، یا بھالو یا دکھی چیتے دیکھے ہیں۔ تاہم انسان دیکھے ہوں گے۔ انسان کہتا ہے، ”دیکھو، میں ناکام ہوگیا۔“ آئی ایم اے لوزر۔ ہاں ناکام ہوا جاسکتا ہے، مگر صرف اس وقت جب ہاتھ اٹھا لیے جائیں، ہتھیار پھینک دیے جائیں، دوسری، تیسری، چوتھی،…… دسویں کوشش سے انکار کر دیا جائے۔ سپر ڈال دی جائے۔ ہاں ناکام ہونے کا قانون بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگلی کوشش کو ترک کر دیا جائے۔ اگلا قدم اٹھانے سے گریز کر لیا جائے، خوابوں کے تعاقب سے پرہیز کرلیا جائے۔
پھر راستہ کیا ہے؟ سب سے پہلے اپنی منزل کا، مقصد کا پتہ چلانا اور اپنے ماتھے پر اس مقصد کو نقش کرلینا، کہ روٹ ہمراہ ہے۔ پھر اگلی کوشش، اس سے اگلی، پھر اس سے اگلی…… ہاں مگر اس طرح کہ پہلی غلطی دوسری مرتبہ دوہرائی نہ جائے، تیسری مرتبہ پرانی لکیر پر لکیر نہ ماری جائے۔ کم از کم غلطی ہر مرتبہ نئی کی جائے، جب تک پہاڑ رستہ نہیں دے دیتے، صحرا مہربان نہیں ہو جاتا، دریا پھٹ نہیں جاتا، محبوب کا دل گداز نہیں ہوجاتا اور منزل قدموں میں سمٹ نہیں جاتی۔
یہ کائنات ایسے ہی قوانین کے زیر اثر ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کو یہ قانون پسند نہ آئے، لیکن یہ آپ کی ناپسندیدگی کے باوجود مؤثر رہے گا۔ بہت سے لوگوں کو کشش ثقل کا قانون پسند نہیں ہے، لیکن وہ رد عمل میں بیسویں منزل سے احتجاجاً چھلانگ نہیں لگا دیتے۔ وہ یا تو ہوا میں تیرنا سیکھ لیتے ہیں، یا پھر زمین پر چلنا سیکھ لیتے ہیں۔
سادہ لفظوں میں یہ چلتے جانے کا قانون ہے۔
رکنے والو، چلتے جاؤ۔