کرسیوں کا پیغام ۔ ابویحییٰ
آج کل مساجد میں صفوں کے ساتھ ساتھ رکھی ہوئی کرسیاں عام دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ کرسیاں ان بزرگوں کے لیے رکھی جاتی ہیں جو بڑھاپے اور جوڑوں کی کمزوری کی بنا پر قیام، رکوع اور سجود آسانی سے نہیں کرسکتے۔ چنانچہ یہ بزرگ صف کے آخری حصے میں رکھی ان کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے ہیں اور رکوع و سجود اشارے سے ادا کرتے ہیں۔
یہ بے جان کرسیاں زبان حال سے تمام انسانوں کو خواہ وہ نمازی ہوں یا بے نمازی ایک خاموش پیغام دے رہی ہیں۔ یہ کرسیاں انہیں بتاتی ہیں کہ ان کا پروردگار کتنا کریم ہے جس نے انہیں بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اس نے انہیں وہ جسم عطا فرمایا ہے جس میں کھڑے ہونے اور چلنے، اچھلنے اور کودنے، اٹھنے اور بیٹھنے، جھکنے اور مڑنے کی غیر معمولی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ انسان زندگی بھر ان صلاحیتوں کو بے دریغ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مگر انسان نعمت دینے والے کو ہمیشہ بھولے رہتا ہے۔
انسان کے لیے حصول معاش، تعلیم، تفریح اور آرام جیسی نعمتیں جسم کی اس صلاحیت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ مگر انسان یہ عظیم موقع کھو دیتا ہے کہ وہ جسم کی اس صلاحیت کو استعمال کر کے اپنے رب کے سامنے قیام کرے۔ وہ رکوع میں اس کے سامنے جھک جائے، سجدہ میں اس کے حضور زمیں بوس ہوجائے اور تشہد میں اس کی بارگاہ میں ادب سے بیٹھ جائے۔
ایک بے نمازی یہ عظیم موقع کھو دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا جسم اس کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیتا ہے۔ مگر وہ پھر بھی مسجد نہیں آتا اور ان کرسیو ں کا سہارا لے کر نماز نہیں پڑھتا۔ یہاں تک کہ قیامت کا وہ دن آجائے گا جب ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جائے گا۔ مگر اس وقت اس بے نمازی سے سجدہ کا یہ موقع چھین لیا جائے گا۔ یہی ان خاموش کرسیوں کا پیغام ہے اور یہی ان کی آخری تنبیہ ہے۔