کیا جنت میں جانے کے لیے بھی ۔ ابویحییٰ
میرا سوال بہت سادہ تھا۔ ”کیا جنت میں جانے کے لیے بھی حالات خراب ہیں؟“
یہ سوال میں نے اپنے مخاطب کی جس طویل گفتگو کے بعد کیا تھا اس میں ملکی اور بین الاقوامی حالات کی خرابی، سیاسی اور مذہبی لوگوں کی برائی، ملک کے معاشی اور سیاسی مسائل، غیر مسلموں کی سازشیں، مسلمانوں کی زبوں حالی اور ان جیسی تمام منفی چیزوں کا بیان شامل تھا جو بہادر سے بہادر انسان کا حوصلہ پست کردینے کے لیے بھی کافی تھا۔
میں نے حالات کا مثبت رخ دکھانے کی جتنی کوشش کی، ان صاحب کی باتوں میں اتنی ہی تلخی اور مایوسی اجاگر ہوتی چلی گئی۔ جب مجھے پوری طرح اندازہ ہوگیا کہ میں ایک اندھے کو روشنی دکھا رہا ہوں تو میں نے وہ سوال اٹھایا جو شروع میں بیان ہوا ہے۔
وہ کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر بولے۔ ”آج کل فحاشی بہت عام ہے، ہر جگہ سود پھیلا ہوا ہے، علمائے سو کا دور دورہ ہے….“، مجھے معلوم تھا کہ ان کی تقریر لمبی ہوگی، اس لیے میں نے ان کی بات کاٹ کر کہا۔ ”یقین کیجیے یہ چیزیں جتنی زیادہ عام ہوں گی جنت میں جانا اتنا ہی آسان ہوگا کیونکہ حالات کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کا احتساب ہلکا ہوگا ۔ آج جو آدمی جنت میں جانے کا عزم کرلے اور اس کے لیے اخلاص سے کوشش شروع کر دے، وہ انشاءاللہ جنت میں جانے میں ضرور کامیاب ہو گا۔“
میں نے ان کی دلیل انہی پر الٹ دی تھی۔ میں نے مان لیا تھا کہ حالات اتنے ہی خراب ہیں جتنے وہ بیان کر رہے ہیں، مگر جنت میں جانا انہی خراب حالات میں زیادہ آسان ہے۔ اس لیے انہیں چپ ہونا پڑا۔ میں نے رخصت کے لیے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”حالات خراب ہیں تو ان کا رونا رونے کے بجائے لوگوں کو یہ بتائیے کہ جنت میں جانا آسان ہوتا ہے۔ خدارا لوگوں کو کوئی تو مثبت بات بتائیں۔ شاید یہی سامان بخشش بن جائے۔“