خواب زندگی ہوتے ہیں ۔ ابویحییٰ
خواب دیکھیے۔ ضرور دیکھیے۔ خواب زندگی ہوتے ہیں مگر۔ ۔ ۔ مگر کو ابھی چھوڑیے۔ اس پر بعد میں بات کریں گے۔ ابھی خواب پر بات کرتے ہیں۔
خواب انسان کی عظمت ہے کہ ہر سربلندی کا پہلا قدم خواب ہوتا ہے۔ انسان بڑا نہیں ہوتا، اسے اس کے خواب بڑا بناتے ہیں۔ سو خواب دیکھنے چاہیے۔ بڑے خواب دیکھنے چاہیے۔ تو پھر بڑا خواب کیا ہے؟ بنگلہ، گاڑی، شوہر، بیوی، بچے، عزت، شہرت، دولت۔ یہی ہمارے خواب ہیں۔ مگر یہ بڑے خواب کیا ہوں گے، یہ تو خواب ہی نہیں۔ یہ تو مقدر ہے جو نادان خواب میں دیکھتے ہیں۔ مقدر تو جتنا لکھا ہے، جب لکھا ہے مل ہی جائے گا۔ پھر ایک روز اچانک پتہ چلے گا کہ یہ زندگی ہی خواب تھی۔ ’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔‘
فانی انسان کو تو ابدی خواب دیکھنے چاہییں۔ ابدی زندگی کے دیکھنے چاہییں۔ ان خوابوں میں مالک ذوالجلال کے قدموں کی دھوون میں اپنا کوئی مقام دیکھنا چاہیے۔ سات آسمانوں کی بادشاہی میں اپنا حصہ دیکھنا چاہیے۔ انبیائے کرام کی مجلسوں کی رفاقت دیکھنی چاہیے۔ وہ محفلیں دیکھنی چاہییں جہاں فانی انسان چشمہ ابدیت کے کنارے بیٹھ کر عنایت خسروی کے جام پیے گا۔ جہاں حسن و لذت کی ہر حکایت اپنا کمال دیکھے گی۔ جہاں رنگ و نور کی برسات نگاہوں کو منور، نغمہ و آہنگ کا جادو سماعتوں کو مترنم اور بوئے گل کا اعجاز مشام جاں کو معطر کر دے گا۔
یہی خواب ہیں۔ صرف یہی خواب ہیں۔ باقی سراب ہے۔ سو خواب دیکھیے۔ اس لیے کہ یہی خواب زندگی ہیں مگر۔ ۔ ۔ خواب ہی دیکھتے رہنا موت ہے۔ خواب کو دیکھنے کے بعد تعصب کو سولی دینی پڑتی ہے۔ خواہش کو مٹانا اور انا کو فنا کرنا پڑتا ہے۔ شاید اسی لیے لوگ یہ خواب نہیں دیکھتے۔ مگر ایک فقیر بے نوا کے کہنے سے ہی سہی۔ ۔ ۔ خواب ضرور دیکھیے۔ خواب زندگی ہوتے ہیں۔