خدا کی محفل ۔ ابویحییٰ
خدا کی طرف بلانے والے نے اردگرد نظر کی، اپنی تنہائی کو دیکھا اور پھر خدا سے کہا۔ یہاں کسی کو تیری ضرورت نہیں۔ یہاں لوگوں کو اپنی مشکلات کے حل کے لیے وظیفے چاہئیں۔ سیاسی تحریکیں برپا کرنے والے لیڈر چاہییں۔ قوم پرستانہ جذبات بھڑکا کر غیرمسلموں کے خلاف نفرت پیدا کرنے والے مقرر چاہییں۔ چند ظاہری اعمال کی بنیاد پر جنت دلانے والے اہل علم چاہییں۔ تیری طرف بلانے والے، ربانی انسان بنانے والے، جس طرح پہلے تنہا تھے، آج بھی تنہا ہیں۔ یہاں کوئی ان کا ہم نفس نہیں۔ یہاں کوئی ان کا ہم سخن نہیں۔
یہاں کے لوگوں کے لیے دنیا اور اس کے مسائل اہم ہیں۔ وہ انہی کے لیے روتے اور انہی کے لیے ہنستے ہیں۔ شادی بیاہ، تنگدستی و بیماری، اولاد اور روزگار، گھر اور خاندان، یہی لوگوں کی جنت اور یہی لوگوں کی جہنم ہیں۔ تیری جنت کے لیے تڑپنے والا کوئی نہیں۔ تیری جہنم کے خوف میں لرزنے والا کوئی نہیں۔ لوگوں کی مجلسوں میں، ان کی باتوں میں، تیری فردوس اور تیری سعیر ناقابل تذکرہ ہیں۔
مالک! جس طرح تو کافروں میں تنہا تھا، آج مسلمانوں کی بھیڑ میں بھی تنہا ہے۔ کوئی نہیں جو تیرے شوق میں روئے، جو تیرے خوف میں لرزے۔ کوئی نہیں جو تیری جنت کے لیے زندگی کی ہر آزمائش پر صبر کرے۔ کوئی نہیں جو تیری امید پر خواہشات، مفادات اور تعصبات کی دیواروں سے ٹکرا جائے۔ ہاں تیرے نام پر دھوم مچانے والے، تیرے دین سے دنیا کمانے والے بہت ہیں۔ کیا اسی فصل کے لیے تو نے یہ کھیتی اگائی تھی؟
پکارنے والا جب پکار چکا تو اس نے اردگرد نظر کی اور دیکھا کہ وہ خدا کی دنیا میں کھڑا ہے۔ یہ وہ محفل ہے جہاں کائنات کا ذرہ ذرہ پروردگار کی تسبیح کر رہا ہے۔ کتابِ زندگی کے ہر ورق اور صفحہ ہستی کی ہر سطر پر خدائے ذولجلال کی حمد لکھی جا رہی ہے۔ وقت کے ہر ہر لمحے میں رب کائنات کی کبریائی کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ اس محفل کی رونق دیکھ کر وہ اپنی تنہائی کا غم بھول گیا۔ اسے معلوم تھا کہ یہی وہ محفل ہے جو کل فردوس کی ابدی بادشاہی میں بدل جائے گی۔ مگر اُس روز اِس بادشاہی میں صرف وہی داخل ہوگا جو آج ہی اس محفل میں شامل ہوگیا۔ آج ہی تنہا ہوگیا۔
اس نے سوچا کہ اگر لوگ نہیں آتے تو کیا ہوا میں نے تو اس راز کو پا لیا ہے۔ کیوں نہ جینے کے لیے اسی محفل کا انتخاب کر لیا جائے۔ اس نے قدم اٹھائے اور پھر تیزی سے انسانوں کی دنیا سے نکل کر خدا کی محفل میں داخل ہوگیا، اس بات سے بے پرواہ کہ کون اس کے پیچھے آرہا ہے اور کون نہیں۔ مگر وہ اس سے بے خبر رہا کہ وہ تنہا نہیں، بہت سے لوگ اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اس کے پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔