خدا کی جنگ ۔ ابویحییٰ
مسلمانوں کی تاریخ کے کئی ادوار ہیں۔ ایک دور وہ تھا جس میں امت کی قیادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض یافتہ صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں میں تھی ۔یہ خلافت راشدہ کا دور تھا۔ دین حق کا غلبہ تھا۔ زمین پر وہ عدل تھا کہ آسمان والے بھی داد دیتے تھے۔ زمین والوں نے بھی یہ دیکھ لیا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایمان لانے کی جزا دیتے ہیں ت وزمین کا اقتدار کیسے ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اسی طرح روزِقیامت دنیا کا اقتدار اور جنت کی بادشاہی، ابدی طور پر اللہ کے نیک بندوں کے حوالے کر دی جائے گی۔
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِیْ الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْن (الانبیا 21:105)
یہ دنیا انعام کی نہیں آزمائش کی جگہ ہے۔ اس لیے جلد ہی خلافت راشدہ کا دور ختم ہو گیا۔ یہ ایک عظیم سانحہ تھا مگر اس کے باجود مسلمانوں کے عروج کا سورج آنے والے دنوں میں مزید بلند ہوا۔ بنو امیہ کے دور میں بر عظیم ہند اور براعظم یورپ میں مسلمانوں کے قدم جا پہنچے۔ چین کی عظیم سلطنت نے مسلمانوں کو خراج ادا کرنا شروع کر دیا۔ بنو عباس کے دور میں مسلمانوں کو ایک دھچکا یہ لگا کہ مسلم امہ کی وحدت باقی نہ رہی اور اندلس میں بنو امیہ کی الگ حکومت قائم ہوگئی۔ تاہم اس کے باوجود مسلمانوں کی عظمت و سطوت میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایک طرف مسلمانوں کی پیش قدمی فرانس کے قلب تک جا پہنچی اور دوسری طرف عیسائی دنیا قسطنطنیہ کی مضبوط فصیلوں اور رومی حکومت کے کمزور سائے میں بمشکل چھپی، مسلمانوں کی یلغار کو خائف نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
مسلمان ذرا کمزور ہوئے تو عیسائی دنیا نے اپنی پوری قوت کے ساتھ نبیوں کی سرزمین شام و فلسطین پر حملہ کر دیا۔ مگر مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہی یورپ بھر کی قوتوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ دو سو برس بعد انہیں ذلت آمیز طریقے سے اسلامی ممالک سے رخصت ہونا پڑا۔ مسلمان اس مغربی یلغار کو سہہ گئے مگر مشرق سے اٹھنے والے تاتاریوں کے ٹڈی دل نے مسلم اقتدار کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ صدی بھر کو تو یوں لگا کہ مسلمانوں کی تاریخ اگر ختم نہیں ہوئی تو کم از کم ان کی عظمت کا چراغ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا ہے۔ مگر ایسے میں دینِا سلام کی دعوتی قوت حرکت میں آئی۔ تاتاری جو مسلمانوں کے فاتح تھے، اسلام سے مغلوب ہوگئے۔ ان نئے مسلمانوں نے آنے والوں دنوں میں ایسی عظیم سلطنتیں قائم کیں کہ مسلمان نہ صرف بغداد بلکہ غرناطہ کا غم بھی بھول گئے۔ خاص طور پر عظیم عثمانی سلطنت نے جو چھ سو سال تک تین براعظموں ایشیا، افریقہ اور یورپ میں تنہا سپر پاور تھی، مسلمانوں کی عظمت کا علم اٹھائے رکھا۔
انیسویں صدی میں مغربی اقوام سائنس اور ٹیکنالوجی کے اسلحے سے لیس ہو کر یورپ سے نکلیں اور دنیا بھر پر چھا گئیں۔ مسلمانوں کی دنیا اب یورپی اقوام کی دنیا تھی۔ نئی زبان، نئے تمدن اور نئی فکر کے اس دور میں مسلمان مغلوب ہوگئے۔ مسلمانوں کے اس زوال پر اب کم و بیش دو سو برس گزر چکے ہیں۔ محرم کے مہینے میں جب سال نو کا آغاز ہورہا ہے تو طلوع ہوتے ہوئے نئے سورج کا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا زوال کب تلک جاری رہے گا؟
اس سوال کا جواب ہمارے اس عظیم ماضی میں پوشیدہ ہے جس کی ایک جھلک چند سطروں میں ہم نے قلمبند کی ہے۔ ہمارا ماضی یہ بتاتا ہے کہ چاہے قریش مکہ کا ظلم ہو یا تاتاریوں کا فساد، یہ اسلام کی دعوتی طاقت ہے جو مایوسی اور ناامیدی کے ہر موڑ کے بعد امید کی راہ کھول دیتی ہے۔ مکہ میں جب ظلم کی رات ناقابل برداشت حد تک طویل ہوگئی تو سحر، انصارِمدینہ کے قبول اسلام کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اسی طرح تاتاریوں کے سیلابِ بلا خیز کو اسلام کی دعوتی طاقت نے ایک ایسے پرسکون دریا میں بدل دیا جو صدیوں تک عالم اسلام کی بنجر زمینوں کو زرخیز کرتا رہا۔
ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
دو سو برس کی مسلسل شکستوں کے بعد آج بھی اگر کوئی امید ہے تو اسلام کی اسی تسخیری قوت سے ہے جو ہر دور کی فاتح ہے۔ شرط یہ ہے کہ مسلمان صبر کرنا سیکھ لیں۔ صبر کے بغیر کوئی دعوتی عمل ممکن نہیں ہوسکتا۔ صبر کرنا بزدلی کی علامت نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا عمل ہے جس کا اجر وہ بغیر حساب عطا کرے گا۔ دعوت کے لیے صبر اس لیے ضروری ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ آپ بیک وقت اپنے مدعو سے جنگ بھی کر رہے ہوں اور اسے اسلام کی دعوت بھی دے رہے ہوں۔ دعوت اصلاً ایک مظلومانہ جدو جہد ہے۔ یہ ظلم کے باوجود کی جاتی ہے۔ اس میں مخاطب کے مقابلے سے ہٹنا پڑ تا ہے۔ مگر یہ پسپائی اپنے مقابل سے ہار جانے کا نہیں اسے جیت لینے کا نام ہے۔
آج مسلمان دوسروں سے اپنی قومی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ ہر اعتبار سے کمزور ہیں۔ اس لیے دو سو برس سے پٹ رہے ہیں۔ جب وہ لوگوں کو دین حق کی دعوت دیں گے تو وہ خدا کی جنگ لڑیں گے۔ خدا سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ جو خدا کی سمت کھڑا ہو کر اس کی جنگ لڑے گا، فتح ہر حال میں اس کا مقدر ہے۔ یہی قرآن کا پیغام ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔ یہی سال نو کے طلوع ہوتے ہوئے سورج کے ہر سوال کا جواب ہے۔