ابو یحییٰ کی شہرہ آفاق کتاب ’’خدا بول رہا ہے‘‘ پر تبصرہ ۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد
ہمارے محترم جناب ابویحییٰ صاحب کا نیا ناول ’’خدا بول رہا ہے‘‘ پڑھنے بیٹھا تو ایک حیرت، ایک بے خودی کی کیفیت میں پڑھتا ہی چلا گیا۔ معلوم تب ہوا جب ناول ختم ہوگیا۔ دیکھا تو میری آنکھیں اشک بار تھیں۔ سچ کہوں، آنکھیں اشک بار نہیں تھیں، میں اندر سے بہت رو رہا تھا، دل پگھل کر حلق میں آپھنسا تھا۔ خدا سے مل کر آدمی روئے نا، یہ تو نہیں ہوسکتا، اور یہ ملنا بھی تو بہت دن بعد جو ہوا تھا۔
غفلت کی کتنی تہیں ہیں، جو ہمارے اور خدا کے درمیان حجاب بن گئی ہیں۔ ان تہوں کو اتارنے کے لیے جو قرآن اتارا گیا تھا، اس کو بھی ہم نے کبھی غلاف کی تہوں میں تو کبھی منطق و فلسفہ، تصوف و کلام، روایات و خرافات اور مسلک اور تعصب کی تہوں میں گم کر دیا ہے۔ یہ ناول ان حجابوں کو ایک ایک کر کے اتارتا ہے اور ہمیں قرآن کی آواز بے غبار کر کے سناتا ہے کہ:
’’لوگو اللہ کی عبادت کرو، جس نے تمھیں پیدا کیا۔ تم ایک روز اس کے حضور لوٹ کر پیش ہوگے۔ وہاں تمھارے ہر عمل کا حساب ہوگا۔ جس نے خدا کی عبادت، بندوں کی خدمت اور سچائی پر خود کو قائم رکھا اور دوسروں کو بھی اس پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی، وہی نجات پائے گا۔ باقی لوگ جہنم کے کوڑے خانے میں ہمیشہ کے لیے بلکتے سسکتے چھوڑ دیے جائیں گے۔‘‘ (۱۹۷)
میں عموماً اصلاحی قسم کے ناول پڑھنے کے لیے مائل نہیں ہو پاتا۔ اس میں ادب ایک طرف رہ جاتا ہے اور پند و نصیحت غالب آجاتی ہے۔ مگر یہ ناول کچھ اور چیز ہے۔ عجب دردِ دل اور بصیرت سے لکھا ہوا ہے کہ غفلت ہو یا تنقیدی اپچ، ہر رکاوٹ کو عبور کر کے قاری کے دل پر جا دستک دیتا ہے۔ ایسی صدا لگاتا ہے کہ کوئی اہل دل اس سے کان بند نہیں کرسکتا۔ اس ناول کو پڑھنے میں گزرا وقت، زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے:
دل کے لیے ہزار سود ایک نظر کا زیاں
یہ ناول، ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ سے شروع ہونے والی داستان کی چوتھی قسط ہے۔ اس داستان کا آغاز دنیا میں حق و باطل کی کش مکش اور آزمایش کی خدائی اسکیم کی داستان سے شروع ہو کر موت کے بعد میدانِ حشر کی منزل، اور اس کے آگے، اس ناول میں، جنت میں داخلے اور اس کے برتنے تک پہنچ کر یہ داستان اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس ساری داستان میں قرآن کے پیغام کو بار بار واضح کیا گیا ہے کہ وہ انسان کو موت کے بعد کی ہمیشہ کی زندگی کی کامیابی کے لیے اس دنیا میں ایمان و عمل کا مطلوبہ معیار اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس داستان کے اگلے حصوں، یعنی ’’قسم اس وقت کی‘‘ اور ’’آخری جنگ‘‘ میں بہت سے عقلی، اخلاقی و شرعی مسائل مثلاً الحاد، لاادریت، صبر و شکر کی حقیقت، فقہی تفصیلات اور پیچیدگیوں سے ہٹ کر نکاح و طلاق کا شرعی طریقہ، گھریلو ناچاقی وغیرہ کو بھی قرآن کی روشنی میں داستان کی شکل میں بڑی عمدگی سے سمجھایا گیا ہے۔
موجودہ ناول ’’خدا بول رہا ہے‘‘ میں خدا سے روٹھے ایک عام مسلمان کی خدا کی طرف پلٹنے کی داستان بیان ہوئی ہے، جو ہمارے آج کے سماج کا بہت بڑا مسئلہ ہے، مگر اس کا ادراک نہایت ہی کم لوگوں کو ہے اور اس کا علاج تو اس سے بھی کم کو معلوم ہے۔ یہ ناول اس درد کا درمان کرتا ہے۔
مصنف نے قرآن کے پیغام کو کیسی سادہ بیانی سے بیان کیا ہے ملاحظہ کیجیے:
’’اگر آپ اجازت دیں تو کیا میں یہ سوال کرسکتا ہوں کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ جنت میں جائیں گی؟‘‘(۱۴۵)
بعض جملے تو آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں:
’’خدا نے دنیا انسانوں کے امتحان کے لیے بنائی تھی، مگر انسان پچھلی دنیا میں بیشتر وقت خدا کا امتحان لیتے رہے۔ اللہ میاں یہ کر دیں۔ اللہ میاں وہ کر دیں۔ کر دیں گے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم نے نہ آپ کو ماننا ہے اور نہ آپ کی بات کو ماننا ہے۔‘‘ (۷۵)
’’ایک لڑکی کو مرد سے دو طرح کا تحفظ چاہیے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اس مرد کے ساتھ ہونے پر خود کو دوسرے مردوں کے شر سے محفوظ سمجھے۔ دوسرے یہ کہ خود اس مرد کے شر سے بھی محفوظ رہے۔‘‘ (۲۰۳)
مصنف ایک جگہ بہت خوب صورت مثال سے سمجھاتا ہے کہ کس طرح قرآن کی اہمیت کم کی گئی۔ کہانی کا کردار ایک لکیر کھینچتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے چھوئے بغیر چھوٹا کر کے دکھاؤ۔ مخاطب کہتا ہے کہ یہ ناممکن ہے۔ کردار اس کے ساتھ مزید اس سے بڑی لکیریں لگا کر دکھاتا ہے کہ دیکھو اب یہ لکیر دوسری لکیروں سے چھوٹی نظر آنے لگی۔ قرآن کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ اس کو چھوٹا نہیں کیا گیا۔ مگر اس کے ساتھ دوسری چیزوں کو عملی طور پر اس سے بڑا اور اہم مان لیا گیا اور قرآن کی اہمیت ختم ہوتی چلی گئی۔
ایک جگہ مصنف کی غیرتِ قرآن کچھ اس طرح جوش کھاتی نمودار ہوتی ہے:
’’حقیقت یہ تھی کہ مذہب کے نام پر دنیا میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے اس میں کوئی چیز قرآن کے مقابلے کی نہیں۔ کون سی چیز ہے جس کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے کر رکھا ہے۔ کون سی چیز ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ باطل اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے۔ کون سی چیز ہے جسے انسانیت اور اہل ایمان کے لیے ہدایت کہا گیا ہے۔ کون سی چیز ہے جسے دوسری مذہبی چیزوں کو تولنے کا میزان یعنی ترازو اور ان کو پرکھنے کی کسوٹی کہا گیا ہے۔ کون سی چیز ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ کون سی چیز ہے جس کے متعلق آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی شکل میں خدا بول رہا ہے۔ کوئی ہے؟ کوئی نہیں۔‘‘ (۱۴۰)
اس ناول میں مصنف نے انسانی جذبات اور نفسیات کے بارے میں اپنے گہرے مشاہدے کا ثبوت بھی دیا ہے، جس سے ناول کی کہانی ہمارے اور قریب آجاتی ہے، مثلاً کہانی کی ایک کردار، اسریٰ احمد کے بارے میں لکھا ہے:
’’اسریٰ ہر وقت مردوں کے بیچ میں رہتی تھی۔ وہ اندر سے مردوں سے خوفزدہ تھی، اپنے خوف کو چھپانے کے لیے وہ بظاہر بہت سخت بن چکی تھی مگر اس سختی کو خود پر طاری رکھنے کی وجہ سے وہ کچھ تھک جاتی تھی۔‘‘ (۱۳۶)
اسریٰ جب وقار سے شادی کا فیصلہ کر لیتی ہے تو اس کے اظہار کے لیے وہ فائل پر اپنے نام کے آگے لکھا اپنا خاندانی نام کاٹ کر کہانی کے ہیرو کا نام لکھ لیتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرتی پسِ منظر میں عورت کی نفسیات کا دل چسپ بیان ہے۔ اسی طرح دفاتر میں کولیگز کی آپسی گپ شپ حقیقت سے بہت قریب ہے۔ انسان کا ضمیر کس طرح دیر سے اثر پذیر ہوتا ہے، معاشی عدم تحفظ کا شکار نوجوان، جمال، اس کی مثال ہے۔ ضمیر بیدار ہونے کے باوجود بھی وہ معاش کے خوف سے مکمل خلاصی نہیں حاصل کر پاتا۔ اسی طرح بوڑھی والدہ کی ممتا بھری جذباتی بلیک میلنگ بھی خوب صورتی سے بیان کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ برتن دھونے کی جو تفصیل اور اس سے اخذ کردہ نتائج، مصنف کے مشاہدے یا تجربے یا دونوں پر دلالت کرتی ہے۔
بعض جگہ مصنف نے لطیف حسِ مزاح کا ذائقہ بھی چکھایا ہے اور بعض جگہ جذبات و احساسات کو مؤثر مگر سادہ استعاراتی زبان میں بیان کیا ہے۔ شادی کا پروپوزل ملنے پر کہانی کے دو مرکزی کرداروں کی گفتگو دیکھیے:
’’اسریٰ! آپ قرض ادا کرتے کرتے سود ادا کرنے پر آگئی ہیں۔ سود کھانا ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ میں یہ سود نہیں کھا سکتا۔‘‘
’’یہ سود نہیں ہے انویسٹمنٹ ہے۔ میں بزنس وومن ہوں۔ خسارے کا سودا نہیں کرتی۔‘‘ (۲۱۳)
جنت اور اس کے مناظر کی منظر کشی اگرچہ کسی انسان کے تخیل کے بس کی چیز نہیں، مگر اس میں بھی مصنف نے وہ کیفیت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ قاری خود کو جنت کے ماحول میں کرداروں کے ساتھ چلتا پھرتا اور ان کی گفتگو سنتا محسوس کرتا ہے۔
اس ناول کو پڑھنا ایک دریافت ہے: خدا کی دریافت، قرآن کی دریافت اور خود اپنی اور اپنے مقصدِ حیات کی دریافت۔ مصنف نے دل جلا کر سرِ عام رکھ دیا ہے، اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی۔
ہر دردمند دِل کو رونا مِرا رُلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں، شاید اُنھیں جگا دے