خدا، ارتقا اور جنس کا امتحان ۔ ابویحییٰ
ہماری دنیا اور اس میں موجود ہر چیز اپنی ساخت اور کارکردگی کے لحاظ سے حکمت کا شاہکار ہے۔ مگر منکرین خدا کے سامنے جب کائنات کی ہر ہر چیز کی تخلیقی حکمت رکھی جاتی ہے تو وہ شان بے نیازی سے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ یہ ارتقا نے کیا ہے۔
مثلاً مرد و زن کے جوڑے کی شکل میں تخلیق ایک ایسا معجزہ ہے جس پر انسان جتنا غور کرے، اس کی حیرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ مثلاً انسانی جوڑا جانوروں کی طرح صرف اولاد حاصل کرنے کے لیے اکٹھا نہیں ہوتا۔ انسانوں میں جنسی جذبہ انتہائی غیر معمولی ہے۔ یہ جذبہ انھیں مجبور کرتا ہے کہ وہ اولاد حاصل کرنے کے مقصد کے علاوہ بھی مستقل طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔ ان کا یہ ساتھ ایک خاندان کو جنم دیتا ہے۔
یہ خاندان ایک دوسری انسانی ضرورت کو خود بخود پورا کر دیتا ہے جس کی کسی اور جانور کو ضرورت نہیں۔ وہ یہ کہ انسانی بچپن کسی بھی جانور سے زیادہ طویل ہوتا ہے۔ خاندان کی چھتری ان بچوں کو وہ تحفظ دیتی ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ یوں مر دو زن کی جبلت میں موجود باہمی کشش حیرت انگیز طور پر ایک اہم انسانی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات ہزارہا برس سے مرد و زن کا کم و بیش برابر کی تعداد میں دنیا میں موجود رہنا ہے جس کے بغیر جوڑے بن نہیں سکتے۔
ایک منکر خدا کے سامنے جب اس جوڑے میں رکھی گئی حکمتیں آتی ہیں تو ان پر غور کرنے کے بجائے ارتقا کا لفظ بول کر مطمئن ہوجاتا ہے۔ جیسے ایک ڈاکومنٹری میں ایک مغربی اسکالر کو اس حوالے سے اس طرح گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ وہ فرماتے تھے کہ تمام انسان اپنی حیاتیاتی ساخت میں جوڑے کی شکل میں بنے ہیں۔ انھی جوڑوں سے وہ بچے جنم لیتے ہیں جن کے بغیر انسانیت کچھ عرصے میں فنا ہوجائے گی۔ مگر(انسانوں اور خاص کر مردوں میں جنس کی بنا پر دوسری عورتوں میں دلچسپی لینے، زنا وغیرہ کا جو اتنا زیادہ رجحان پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے) یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ (جس ارتقا نے یہ جوڑے بنائے ہیں)، اس ارتقا نے ہمیں عمر بھر ایک دوسرے سے سو فی صد وفادار رہنے کا جذبہ کیوں نہیں دیا تاکہ ہماری خارجی جنسی دلچسپیاں خاندان کے ادارے کو نقصان پہنچانے کا باعث نہ بنتیں۔
ان کے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ ہوجاتا تو پھر کسی ایک فریق کی قبل از وقت موت کے بعد جو زمانہ قدیم کا معمول تھا، انسانوں کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ تنہا رہنا پسند کرتی جو نسل انسانی کے لیے باعث ضرر ہوتا۔ اسی سے بچنے کے لیے اس نظام میں یہ لچک پائی جاتی ہے۔
اس گفتگو کو دوبارہ پڑھیے اور دیکھیے کہ کس اطمینان سے حکمتوں سے بھرے اس نظام کو ایک اندھے بہرے ارتقا کی تخلیق قرار دے دیا گیا۔ مگر درحقیقت یہ عمل کچھ نہیں، خدا کی تخلیق کو ارتقا کی طرف منسوب کرنے کی وہی قدیم روایت ہے جو مشرکین کے ہاں بتوں کے حوالے سے پائی جاتی تھی۔ یعنی جو کچھ خدا کرتا ہے وہ سب اطمینان سے اندھے بہرے بتوں کی طرف منسوب کر دیا جاتا۔ دور جدید میں اب یہی’’خدمت‘‘ ارتقا سے لی جا رہی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ اول تو بے شعور مادہ اور ارتقا اتنا حکیمانہ نظام کیسے بنا سکتا ہے؟ اور اگر بنا سکتا تو بہتر ہوتا کہ اس پیچیدہ نظام کے بجائے ایک سادہ نظام بناتا جس میں مرد و زن کے جوڑے کے بجائے تنہا مرد یا عورت میں خود اپنے آپ کو بڑھانے کی صلاحیت ہوتی۔ اس نظام میں کبھی کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا۔ یا جوڑوں کا نظام بنا بھی دیا تھا تو انسانوں کو جانوروں کی طرح بنایا جاتا اور ان میں وہ اخلاقی شعور رکھا ہی نہ جاتا جو جنسی بے راہ روی کو برا سمجھتا ہے۔ ان جیسے ان گنت سوالات ہیں جو اندھے بہرے مادے سے جنم لینے والے ارتقا کے تصور پر کیے جاسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ خدا کی ہستی ہے جس نے اپنی بے پناہ قدرت اور حکمت سے یہ کائنات بنائی۔ اس میں ہر طرف اپنی رحمت اور ربوبیت کے آثار رکھ دیے۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تھا کہ لوگ بن دیکھے خدائے رحمان پر ایمان لاتے۔ اس کی قدرت پر اس کی کبریائی، اس کی حکمت پر اس کی پاکی، اس کی رحمت پر اس کی حمد اور اس کی ربوبیت پر اس کی خوبی بیان کرتے۔
جو لوگ یہ کام کرتے ہیں خدا ان پر کائنات کی مزید حکمتیں کھولتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ یہ کائنات ایک روز انسان کو ابدی طور پر بطور انعام دے دی جائے گی۔ شرط یہ ہے کہ انسان خدا کے اس امتحان میں کامیاب ہوجائے جس میں اسے خدائے عظیم کو اپنی عقل سے دریافت کرنا اور اپنے اختیار و خواہش کو اس کے سامنے سرنگوں کرنا ہے۔ اس کی ایک مثال جنسی خواہش کے منہ زور گھوڑے کو قابو رکھنے اور میاں بیوی کے تعلق تک محدود رکھنے کا امتحان ہے۔ امتحان کی یہی وہ مصلحت ہے جو مذکورہ بالا سائنسدان نہیں بیان کرسکا۔
یہ نظام انسانوں کے امتحان کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس لیے جوڑوں کے انتہائی پیچیدہ نظام کو بنا کر اس جنسی بے راہ روی کا امکان کھلا چھوڑ دیا گیا۔ مگر جانوروں کے برخلاف انسان میں وہ اخلاقی حس رکھ دی گئی جس کی بنا پر انسان جنسی بے راہ روی کو برا سمجھتا ہے۔ اور کوئی مرد و زن ایسے جوڑے میں رہنا پسند نہیں کرتا جہاں دوسرا شخص دغا باز ہو۔
انسانی جوڑے میں جنس کا یہ بے لگام جذبہ رکھا گیا ہے تاکہ خاندان وجود میں آجائے۔ مگر اسی بے لگام جذبے کی بنا پر انسان جوڑے سے باہر دلچسپی لینے کا رجحان رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مصلحت تو پیچھے گزری کہ یہ نہ ہوتا تو فریق ثانی کی موت کے بعد ہر انسان تنہا رہتا۔ مگر دوسری زیادہ بڑی مصلحت امتحان ہے کہ جو شخص اپنی شدید خواہش کے باوجود جنسی تعلق کو میاں بیوی کے بندھن تک محدود رکھے گا، وہی ابدی طور پر کائنات کی بادشاہی کا انعام پانے کا حقدار ہوگا۔ وہ اس جنت میں ایسے جوڑوں کی شکل میں رہے گا جو ہمیشہ ایک دوسرے کے وفادار رہیں گے۔
کہا ں ارتقا کی وہ بے سروپا کہانی اور کہاں خدا کی یہ حکیمانہ تخلیق ہے جس میں دنیا کی فانی زندگی کا جوڑا آخرت کی ابدی زندگی ہے۔ اب جس کا جی چاہے خدائے رحمان پر ایمان لائے اور جس کا جی چاہے خدا کی جگہ ارتقا کا نام لے کر اپنے آپ کو بے وقوف بناتا رہے۔