خدا اور انسان کی نگاہ ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کی سورہ انعام میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ نگاہیں اسے نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے (103)۔ اس آیت میں دو عظیم حقائق کا بیان ہے۔ ایک یہ کہ خدا ہر لحظہ انسان کے ساتھ ہے۔ گرچہ وہ انسانوں کو نظر نہیں آتا۔ کیونکہ یہ خدا کا وصف ہے کہ وہ نگاہوں کی گرفت سے ہمیشہ باہر رہتا ہے اور کوئی نظر اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔
یہ دوسری بات ایک اور عظیم حقیقت کا بیان ہے۔ وہ یہ کہ دیکھنے والے اپنی نگاہوں سے جو کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں خدا اس سے پوری طرح باخبر ہوتا ہے۔ اس بات کی اہمیت اس پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسان زندگی میں جو کچھ بھی کرتا ہے اس میں اس کی نگاہیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ انسانی علم میں سب سے بڑھ کر اضافہ اس کی نگاہیں کرتی ہیں۔ آنکھوں سے ہم صرف دیکھتے ہی نہیں بلکہ پڑھتے بھی ہیں۔ یوں ہمارا علم اور اس کے نتیجے میں ہمارے عمل کا بیشتر حصہ نگاہوں پر منحصر ہوتا ہے۔ خدا نگاہوں سے حاصل ہونے والے اس تمام علم اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ہر عمل سے واقف ہوتا ہے۔
نگاہوں کی مزید اہمیت یہ ہے کہ انسان جو گناہ چھپ کر کرتا ہے یا جن کے متعلق وہ چاہتا ہے کہ دوسرے واقف نہ ہوں، ان میں سب سے بڑھ کر گناہ نگاہوں سے کیے جاتے ہیں۔ انسان تنہائی میں نگاہوں کے استعمال میں ویسے ہی احتیاط نہیں کرتے۔ تاہم وہ پبلک میں ہوں تب بھی کسی شخص کے لیے آسان نہیں ہوتا کہ وہ بتا سکے کہ دیکھتے ہوئے کسی شخص کا زاویہ نگاہ کس جگہ پر مرتکز ہے۔ مگر خدا کی ہستی انسان کی نظر کی ہر آوارگی، خیانت اور غلاظت سے واقف ہے۔
اس آیت کا یہ پہلو کسی شخص پر پوری طرح واضح ہوجائے تو اسے ہمیشہ یاد رہے گا کہ وہ ہر لمحہ ایک نظر نہ آنے والے خدا کی نظر میں ہے۔ یہی شعور انسان میں تقویٰ اور قلب و نظر کی پاکیزگی پیدا کرتا ہے۔