خالق و مخلوق کے عارف ۔ ابویحییٰ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول تھے۔ آپ پر وحی کے ذریعے سے پیغام الہی اتارا جاتا اور پھر آپ اپنی زبان مبارک سے اسے انسانوں تک پہنچاتے۔ اس مقصد کے لیے ایک طرف آپ خدا اور دوسری طرف انسانوں سے پوری طرح متعلق تھے۔ خالق و مخلوق سے آپ کا یہ تعلق محض رسمی نہیں تھا بلکہ آپ کی سیرت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جس طرح آپ خدا کو جانتے تھے کوئی نہیں جانتا تھا اور جس طرح مخلوق کو سمجھتے تھے، کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ آپ بلاشبہ اس دنیا میں خالق و مخلوق کے سب سے بڑے عارف تھے۔ اس کا اندازہ سیرت طیبہ کے دو واقعات سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک مکی زندگی کا واقعہ ہے اور دوسرا مدنی زندگی کا۔ اس ماہ کے رسالے میں میرے تمام مضامین چونکہ سیرت طیبہ کے حوالے سے ہیں اس لیے آج اس کالم میں بھی میں اسی حوالے سے کچھ گفتگو کروں گا۔
مکی زندگی کا واقعہ
مکہ مکرمہ میں اعلان نبوت کے بعد آپ کو قریش مکہ کی طرف سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ عام لوگ گرچہ ایمان لاتے رہے، مگر سرداروں میں سے کوئی ایمان نہیں لایا۔ ابتدا میں انہوں نے کچھ ہلکی مخالفت کی۔ مگر پھر اسلام کے اس سیلاب کا راستہ روکنے کے لیے انہوں نے ایمان لانے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ چنانچہ مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرنا پڑی۔ جو مسلمان مکہ میں بچے انھیں قریش کے بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ نوبت فاقوں تک آگئی۔ کئی برس آپ کو اسی ظلم و ستم کو سہتے اور بدترین حالات میں دعوت کا کام کرتے ہوئے گزر گئے۔ یہاں تک کہ دس نبوی میں آپ کا تحفظ کرتے رہنے والے جناب ابوطالب اور آپ کی مونس و غمگسار محبوب رفیقہ حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا۔ ابوطالب کے بعد ابولہب قبیلہ کا سربراہ بنا اور آپ کو اس قبائلی حمایت سے محروم کر دیا جس کے خوف سے کفار مکہ نے آپ کو ابھی تک براہ راست کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد ہی وہ واقعات پیش آئے جس میں کفار نے آپ کے سر پر مٹی یا اوجڑی ڈالی اور دیگر ایسی تکالیف پہنچانی شروع کیں جو ابھی تک نہیں دی تھیں، (ابن ہشام)۔
سفر طائف
ان حالات میں آپ نے ایک آخری چارے کے طور پر طائف جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ مکہ سے سو کلومیٹر دور ایک بلند پہاڑی مقام یا ہل اسٹیشن (6165 فٹ) تھا جہاں مکہ کے سردار گرمیاں گزارا کرتے تھے۔ آپ یہ طویل فاصلہ پیدل طے کر کے اس امید پر طائف پہنچے کہ یہاں کے سرداروں میں سے کوئی ایمان لے آیا تو اس کے اثر سے قریش بھی ایمان لے آئیں گے یا پھر ان کے شر سے مسلمانوں کو کچھ تحفظ مل جائے گا۔ اس سفر میں حضرت زید بن حارثہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے یہاں آباد قبیلہ بنو ثقیف کے تین سرداروں سے مل کر انھیں دعوت اسلام دی۔ مگر انھوں نے توہین آمیز جواب دے کر آپ کی دعوت کو رد کر دیا۔
آپ نے یہاں دس دن قیام کر کے کم و بیش ہر اہم سردار کو دعوت دی، مگر طائف کے ان پتھروں پر کوئی جونک نہ لگی۔ بلکہ یہ لوگ اپنی سنگدلی میں اہل مکہ سے بھی آگے بڑھ گئے۔ انھوں نے شہر کے اوباشوں کو آپ کی اذیت رسانی کی مہم پر لگا دیا۔ چنانچہ وہ تالیاں پیٹتے، سیٹیاں بجاتے، جملے کستے، گالیاں دیتے آپ کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے۔ یہ تماشہ دیکھنے کو بھیڑ جمع ہوگئی۔ اس پر شہہ پا کر ان بدبختوں نے رحمت للعالمین پر پتھروں کی برسات کر دی۔ حضرت زید اپنے جسم کو ڈھال بنا کر آپ کو بچانے کی کوشش کرتے، مگر وہ کتنے پتھر روکتے۔ آپ لہولہان ہوگئے اور نعلین مبارک جسم سے بہتے خون سے بھر گئے۔ آخرکار طائف سے تین میل دور ایک باغ میں آپ نے پناہ لی تو ان اوباشوں سے جان چھوٹی۔
بے مثال دعا
یہی وہ وقت تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعا مانگی جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ دعا کا ترجمہ درج ذیل ہے:
’’یا اللہ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے تو ہی ضعیفوں کا رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے۔ تو مجھے کن لوگوں کے حوالے کر رہا ہے۔ کسی بیگانے ترش رو کے یا کسی دشمن کے جس کے ہاتھ میں تو نے میرا معاملہ دے دیا ہے؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ لیکن تیری عافیت میرے لیے کافی ہے۔ میں تیری ہستی کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوتے ہیں کہ مجھ پر تیرا غضب اترے یا تیری ناراضی مجھ پر آئے۔ تیری رضا ہی مطلوب ہے کہ یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے۔ اور تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوت۔‘‘، (الجامع الصغیر، رقم:1483)
اس دعا کے الفاظ میں وہ تڑپ ہے جو کسی ترجمے یا تشریح میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ اس میں ہر وہ اسلوب موجود ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اس میں شکویٰ ہے، مگر یہ شکویٰ اپنی ذات کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں بلکہ اس کام کے حوالے سے ایک فریاد ہے جو اللہ ہی کا تھا اور اس کام کے کرنے والوں کی مدد کا اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اس میں اظہار عجز اور اضطرار ہے۔ مضطر کی فریاد کا جواب دینا اللہ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ اس میں امید ہے۔ اس ہستی سے امید ہے جس سے مایوسی کفر ہوتی ہے۔ اس میں سوال ہے۔ اس ہستی سے سوال ہے جس سے مانگنے والا کبھی محروم نہیں رہتا۔ اس میں دینے والے کی غیرت کو پکارا گیا ہے۔ اس میں تنہا صاحب اقتدار بادشاہ کے غضب سے عافیت اور پناہ کی درخواست ہے۔ اس میں توحید ہے۔ اس میں حمد ہے۔ اس میں تفویض ہے۔ اس میں توکل ہے۔ اس میں رضا ہے۔
غرض اس دعا میں ہر وہ چیز جمع ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندوں کے حال پر توجہ کرتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس دعا میں دعا نہیں ہے۔ یعنی اس میں اللہ تعالیٰ سے براہ راست کچھ نہیں مانگا گیا ہے۔ س دعا کو بار بار پڑھنے سے جو بات واضح ہوتی ہے کہ مانگنے والا اپنا تن، من دھن راہ خدا میں لگا چکا ہے۔ اک آخری سرمایہ عزت نفس کی شکل میں بچا تھا۔ وہ بھی آج طائف کے بازاروں میں خدا کے لیے لٹا دیا۔ مگر پھر غم دل سنانے کے بجائے صرف یہ فکر دامن گیر ہے کہ یہ خدا ناراض نہ ہوجائے۔ جسم ہے کہ خون سے لہولہان ہے۔ دل ہے کہ ٹوٹ کے کرچی کرچی ہوگیا ہے۔ مگر لبوں پر جب التجا آتی ہے تو نہ دشمن کے لیے بددعا ہوتی ہے نہ اپنے لیے کچھ مانگا جاتا ہے۔
تاریخ ساز دعا
مگر یہ دعا تاریخ کا رخ موڑ دیتی ہے۔ احادیث، سیرت اور تاریخ کا مطالعہ صاف بتاتا ہے کہ اس دعا کے بعد سب کچھ بدل دیا گیا۔ فورا جبریل امین کو بھیجا گیا۔ ان کے ساتھ پہاڑوں پر مامور فرشتہ بھیجا گیا کہ ان گستاخوں کو پہاڑوں کے بیچ میں کچل دیا جائے۔ یہ اپنے محبوب کی وہ تالیف قلب کی گئی جو کبھی کسی دوسرے رسول کی نہیں کی گئی کہ قوم کا فیصلہ رسول کے ہاتھ میں دے دیا۔ مگر رحمت للعالمین نے انھیں معاف کر دیا۔ پھر واپسی میں جنوں کی جماعت کو آپ کے پاس بھیجا اور پھر بتایا کہ یہ انسان تمھاری بات نہیں مانتے تو جن مان رہے ہیں۔ مکہ میں ابولہب کی جگہ مطعم بن عدی نے آپ کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اعلان کر دیا کہ کوئی آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔ یہ تین کام تو اسی سفر سے واپسی پر کر دیے گئے۔
پھر اسی برس معراج و اسریٰ کے واقعات میں مستقبل کا فیصلہ واضح طور پر سنا دیا گیا کہ بنی اسماعیل سے مکہ اور بنی اسرائیل سے بیت المقدس لے کر اب قیامت تک کے لیے تمھیں اور تمھارے نام لیواؤں کو امامت عالم دے دی جائے گی۔ یہ محض وعدہ نہ تھا بلکہ اِسی سال یثرب کے لوگوں نے اسلام قبول کیا جس کے بعد ہجرت مدینہ ہوئی اور آپ ایک بادشاہ کی حیثیت سے مدینہ میں داخل ہوئے اور چند ہی برسوں میں فتح مکہ کے بعد پورے عرب کے تنہا حکمران بن گئے۔ پھر ربع صدی کے اندر نبی اخر ازماں کو ماننے والے پوری متمدن دنیا کے حکمران بن گئے۔ اور پھر قیامت تک کے لیے کروڑوں اربوں لوگ پیدا ہوئے جو نبی کا نام سن کر سرعقیدت سے جھکا دیتے ہیں۔
کوئی شخص وہ لمحہ اگر متعین کرنا چاہے جب یہ سب کچھ ظہور پذیر ہونا شروع ہوا تو بلاشبہ وہ لمحہ اس دعا کو مانگے کا لمحہ تھا۔ یہ دعا ایک غیر معمولی عارف اور غیر معمولی سیرت و کردار کی شخصیت کی زبان مبارک ہی سے ادا ہوسکتی ہے۔ جس میں سب کچھ تھا۔ بس دعا ہی نہیں تھی۔ خدا کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس دعا کو سن کر حیرت میں پڑ جاتا۔ مگر عالم الغیب کو کسی بات پر حیرت نہیں ہوتی۔ لیکن اس دعا نے صاحب عرش کے در پر اس طرح دستک دی کے ہر دروازہ کھل گیا۔ یہ ثمرہ بلاشبہ اس بات کا تھا کہ پکارنے والا آخری درجے میں اللہ تعالیٰ سے واقف ہے۔
مدنی زندگی کا واقعہ
دوسرا واقعہ وہ ہے جس کا تعلق انسانوں سے ہے اور یہ انصار مدینہ کے حوالے سے فتح مکہ کے بعد پیش آیا۔ اس وقت صورتحال بہت بدل چکی تھی۔ مکہ فتح ہوچکا تھا۔ حنین کی وادی میں یقینی شکست کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت نے فتح میں بدل دیا تھا۔ اس موقع پر مسلمانوں کو بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ لگا۔ اس موقع پر مکہ کے ان نومسلموں کی بڑی تعداد جنگ میں شریک تھی جو ابھی ابھی ایمان لائے تھے۔ بصیرت نبوی نے یہ دیکھ لیا تھا کہ اس موقع پر ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کیا جائے گا تواس کا دوہرا فائدہ ہوگا۔ ایک یہ کہ فتح مکہ کے بعد گرچہ یہ لوگ ایمان لے آئے تھے، مگر یہ دراصل شکست خوردہ قوم کے لوگ تھے۔ ان کی انا بری طرح مجروح ہوئی تھی۔ ایسے میں اگر ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کر دیا جائے تو یہ ہر پہلو سے اسلام کے مخلص خادم بن جائیں گے۔
بلاشبہ یہ سوچ ایک حقیقت بھی تھی جسے وقت نے سچ ثابت کر دکھایا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب ہر طرف مرتدین، جھوٹے مدعیان نبوت اور منکرین زکوۃ نے بغاوت کر دی تھی تو اس وقت اہل مکہ پوری قوت کے ساتھ خلافت مدینہ کے ساتھ کھڑے رہے۔ اگر اہل مکہ بھی بغاوت کر دیتے تو پھر صورتحال کو سنبھالنا عملاً ناممکن تھا کیونکہ وہ صدیوں سے عرب کے سردار تھے۔ بغاوت کو قیادت مل جاتی تو خلافت ختم ہوجاتی ہے۔ مگر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے عفور و درگزر اور پھر اس احسان نے ان کے دل اس طرح جیت لیے کہ اس مشکل میں وہ ثابت قدم رہے۔
تاہم غزوہ حنین کے موقع پر ان پر کی جانے والی اِس خصوصی عنایت کی بنا پر قدیم الاسلام انصار اور خاص کر ان کے نوجوانوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم وطن اور ہم نسب قریش ایمان لے آئے ہیں۔ اور اس موقع پر ان کو عطا کرنا اور انصار کو نہ دینا اس بات کی علامت ہے کہ ہماری حیثیت ختم ہوچکی ہے۔ پھر ایک دوسرے پہلو سے انھیں اس عمل سے یہ محسوس ہوا کہ یہ ہماری خدمات کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی خدمت میں جو خدمات انصار کی تھیں اس میں ان کا مدمقابل عرب میں کوئی نہ تھا۔ پورے عرب کی دشمنی مول لے کر ایمان لانا اور مدینے کا اقتدار اپنی خوشی سے نبی اللہ کے حوالے کرنے سے لے کر ہر جنگ میں سب سے زیادہ شہادتیں دینا، مواخات میں اپنا مال و اسباب مہاجرین میں برابر تقسیم کرنے سے لے کر غزوہ حنین تک اس وقت رسول اللہ کی پکار کا جواب دینا جب دوسرے لوگ بھاگ رہے ہوں، بہت بڑی بات ہے۔
ایسے میں مال غنیمت میں بڑے حصے کی توقع کرنا اور اسے نہ ملنے پر دل گرفتہ ہونا ایک فطری عمل تھا۔ چنانچہ یہ باتیں پھیلیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں تک بھی جاپہنچیں۔ اس پر آپ نے تمام انصار کو ایک جگہ جمع کیا۔ اس موقع پر انصار سے جو گفتگو آپ نے فرمائی وہ بلاشبہ انتہائی غیر معمولی گفتگو تھی۔
آپ کا خطبہ
اس موقع پر جو گفتگو آپ نے فرمائی وہ درج ذیل ہے:
اللہ کی حمد و ثنا کے بعد آپ نے فرمایا:
’’انصار کے لوگو! یہ تمہاری کیا چہ میگوئی ہے جو میرے علم میں آئی ہے! اور یہ کیا ناراضی ہے جو جی ہی جی میں تم نے مجھ پر محسوس کی ہے! کیا ایسا نہیں ہے کہ میں ایسی حالت میں تمہارے پاس آیا کہ تم گمراہ تھے، اللہ نے تمہیں ہدایت دی اور محتاج تھے، اللہ نے تمہیں غنی بنایا۔ اور باہم دشمن تھے، اللہ نے تمہارے دل جوڑ دیے؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں! اللہ اور اس کے رسول کا بڑا فضل و کرم ہے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، انصار کے لوگو! مجھے جواب کیوں نہیں دیتے؟ انصار نے عرض کیا، یا رسول اللہ بھلا ہم آپ کو کیا جواب دیں؟ اللہ اور اس کے رسول کا بڑا فضل و کرم ہے۔ آپ نے فرمایا: دیکھو! خدا کی قسم، اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو۔ اور سچ ہی کہو گے اور بات سچ ہی مانی جائے گی کہ آپ ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ کو جھٹلا دیا گیا، ہم نے آپ کی تصدیق کی۔ آپ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تھا، ہم نے آپ کی مدد کی۔ آپ کو دھتکار دیا گیا تھا، ہم نے آپ کو ٹھکانا دیا۔ آپ محتاج تھے، ہم نے آپ کی غمخواری و غمگساری کی۔
اے انصار کے لوگو! تم اپنے جی میں دنیا کی اس عارضی دولت کے لیے ناراض ہوگئے جس کے ذریعے سے میں نے لوگوں کا دل جوڑا تا کہ وہ مسلمان ہو جائیں اور تم کو تمہارے اسلام کے حوالے کر دیا تھا؟ اے انصار! کیا تم اس سے راضی نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم رسول اللہ کو لے کر اپنے ڈیروں میں پلٹو؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اگر سارے لوگ ایک راہ چلیں اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں بھی انصار ہی کی راہ چلوں گا۔ اے اللہ رحم فرما انصار پر اور ان کے بیٹوں پر اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں (پوتوں) پر۔‘‘، (الرحیق المختوم، 571)
رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا یہ خطاب سن کر لوگ اس قدر روئے کہ ڈاڑھیاں تر ہوگئیں اور کہنے لگے: ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہو گئے اور لوگ بھی بکھر گئے۔
انسان کی معرفت
یہ خطبہ اس بات کی بہترین مثال ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کس طرح انسانوں کے مزاج کو سمجھنے والے تھے اور کتنی خوبصورتی سے آپ نے اس صورتحال کو کنٹرول کیا۔ پہلے قانون اور حقائق کی سطح پر مخاطب ہوکر ان پر یہ واضح کیا کہ نعمتِ ایمان سے لے کر دنیا میں ملنے والی فراخی، اقتدار اور غلبے کی جو کیفیت انصار کو آج حاصل ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہی ہے۔ انھوں نے بلا تامل یہ بات مان لی۔ اگر آپ بات یہیں ختم کر دیتے تب بھی فوری مسئلہ ختم ہوجاتا۔ مگر اس کے بعد جو کچھ آپ نے کہا کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا۔ آپ نے انصار کے فضائل اور احسان بیان کیے اور اس خوبی سے انصار کی خدمات کا اعتراف کہ پتھر سے پتھر دل بھی پگھل جائے اور عناد و ناراضی کی ہر کیفیت دور ہوجائے۔ پھر آخر میں یہ کہنا کہ اے انصار! کیا تم اس سے راضی نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم رسول اللہ کو ساتھ لے جاؤ تو گویا لوگوں کے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دینے والی بات تھی۔ اس کے بعد ممکن ہی نہیں تھا کہ شیطان کسی کے ذہن میں وسوسہ انگیزی کر کے اسے بہکا سکے۔ چنانچہ وفات رسول کے بعد جب انصار کے کچھ لوگوں نے خلافت کا استحقاق انصار کے لیے ثابت کرنا چاہا تو سیدنا ابوبکر نے اسی موقع پر کیے جانے والے کچھ دیگر ارشادات یاد دلا کر مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ ہونے سے بچایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی وہ بے مثل شخصیت تھی جس کے سامنے جو پتھر بھی آیا پگھل کر رہ گیا۔ یہی شخصیت آج انسانیت کے سامنے پیش کرنے والی سب سے بڑی چیز ہے۔