خیر اور شر کی جنگ، انا اور ضمیر کا مکالمہ ۔ مدیحہ فاطمہ
وہ رو رہا تھا کیونکہ وہ آج پھر زخم خوردہ تھا۔ وہ اپنے ربّ سے لوگوں کی زیادتیوں کی شکایت کر رہا تھا۔ اس نے آسمان کی جانب ایک نگاہ ڈالی لیکن وہاں چار سو خاموشی تھی اس نے دوبارہ اپنے اندر جھانکا جہاں اس کے ضمیر اور انا کے بیچ سخت کشمکش جاری تھی۔ انا جو شکوہ کرتی اس کا ضمیر اسے اس کا جواب دے دیتا۔ یہ ایک طویل بحث تھی جو طول پکڑتی جا رہی تھی۔
آخر انسان نے تھک کر ضمیر کو مخاطب کیا:’’ تم مجھے سمجھا رہے ہو تمہیں معلوم بھی ہے کہ میں نے لوگوں کے ساتھ کبھی برا نہیں کیا پھر وہ میرے ساتھ برا کیوں کرتے ہیں؟
"ضمیر:’’ہاں میں جانتا ہوں تم جان بوجھ کر کچھ برا نہیں کرتے لیکن تم لوگوں کی ہر برائی پر انہیں برا بھلا کہتے ہو۔ ہو سکتا ہے یہی وجہ ہو کہ وہ تم سے محبت نہیں کر پاتے۔‘‘
انسان: ’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی برائی تو ان کی طرف سے ہوتی ہے اب میں انہیں برا بھی نہ کہوں ۔ میں کوئی فرشتہ تو نہیں جو کچھ بھی محسوس نہ کرے میں انسان ہوں اور یہ ہی میری کمزوری ہے۔‘‘
ضمیر: ’’ہاں مت کہو برا، صبر کرو۔ صبر میں بہت اجر ہے۔ بے شک تم فرشتہ نہیں لیکن انسان تو ہو، اور انسان صبر کر کے وہ مقام حاصل کرسکتا ہے جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں۔‘‘
انسان: ’’چلو مان لیا! لیکن میں صبر ہی تو کرتا ہوں کیا کبھی ان کو پلٹ کر جواب دیا یا کبھی ان سے قطع تعلق کیا۔ اللہ نے رشتوں کو جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے تبھی میں نے ان کے ہر ظلم پر چپ سادھی ہے کہ کہیں رشتے نہ ٹوٹ جائیں۔ لیکن اب بس! اب میں بھی ان کے ساتھ ویسے ہی پیش آؤں گا جیسا وہ مجھ سے پیش آتے ہیں۔‘‘
ضمیر: ’’نہیں تم یہاں غلط ہو اور تم ہرگز صبر نہیں کرتے۔‘‘
انسان(طیش میں آکر): ’’یہ صبر نہیں تو اور کیا ہے؟ کبھی ان سے بدلہ نہیں لیا، ان کے ظلم پر چپ رہا، ان کو پلٹ کر جواب نہیں دیا۔ لیکن اب میں برابر بدلہ لوں گا تا کہ انہیں اندازہ ہو کہ میں کوئی معمولی چیز نہیں۔ ہونہہ‘‘
ضمیرنے بھی فوراً جواب دیا: ’’صبر ہمیشہ پہلی چوٹ پر ہوتا ہے۔ ایسے نہیں کہ دل میں پہلے برا بھلا کہو گالیاں دو اور پھر چپ کر جاؤ اور کہو کہ اچھا! چلو میں نے صبر کر لیا۔ صبر تو تب تھا جب تمہیں تکلیف پہنچے تو تم دل میں بھی انہیں برا نہ کہو اور اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو۔‘‘
انسان(غصے سے): ’’اچھا! میں تو بہت برا ہوں نا تو پھر تم ہی بتا دو صبر کیا ہے۔‘‘
ضمیر(اسکے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے): ’’دیکھو! یہ جو مشکلات ہیں یہ اللہ ہی کی طرف سے تمہاری آزمائش ہیں، اور انکو کشادہ دلی سے قبول کرنا اور ان پر ترکِ شکایت ہی صبر ہے۔‘‘
انسان: ’’لیکن میرا دل لوگوں کے رویّے پربہت روتا ہے، میں کیا کروں؟‘‘
ضمیر: ’’سب سے پہلے صبر کرنا سیکھو۔ یاد کرو! کفار مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے کیسے مظالم نہیں ڈھائے۔ لیکن رحمت دو جہاں نے کبھی کسی سے کچھ نہیں کہا۔ ہمیشہ ان کی بدتمیزیوں کے آگے خاموش رہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ اس وقت طاقتور نہ تھے یا ان کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے سب کو معاف کر دیا ان کو بھی جنہوں نے مظالم ڈھانے میں کوئی کثر نہ چھوڑی تھی۔ حالانکہ تب وہ تعداد میں سب سے ذیادہ اور طاقتور تھے۔ لیکن انہوں بدلہ نہیں لیا کیونکہ ان کی یہ معافی اللہ تعالیٰ کے لیے تھی اور ان کی وہ دشمنی بھی اللہ تعالیٰ کے لیے تھی۔‘‘
انسان(بے صبری سے): ’’لیکن اللہ نے تو بدلہ لینے کا کہا ہے کہ جیسا وہ ظلم کریں اتنا ہی بدلہ ہم بھی لے سکتے ہیں تو پھر میں کیوں نہیں لے سکتا بدلہ۔‘‘
ضمیر: ’’اللہ نے تو یہ بھی کہا ہے کہ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کوبہت پسند ہیں۔ اور ویسے بھی تمہیں بدلہ لے کر کچھ حاصل نہیں ہو گا صرف تمہارا نفس خوش ہوگا۔‘‘
انسان(غصے سے): ’’ تومیرا نفس ہی خوش ہو جائے۔ کچھ تو سکون ملے گا مجھے۔‘‘
ضمیر: ’’مسلمان نفس کو خوش نہیں کرتا۔ کسی بزرگ نے کہا تھا کہ جنت صرف دو قدم ہے۔ ایک قدم تم اپنے نفس پر رکھ دو، تو دوسرا قدم جنت میں ہو گا۔‘‘
انسان: (خاموشی۔۔۔ شاید اس کی انا پست ہو رہی تھی)
ضمیر: ’’ تم برا بھلا کہنا چھوڑ دو اور اچھا ہی سوچو تا کہ وہ تمہاری مثبت سوچ کے اثر سے بدل جائیں۔ تمہاری یہ منفی سوچیں انہیں تمہارا ہونے نہیں دیتیں۔‘‘
انسان: ’’تو میں کیا کروں؟ میں جب اچھا سوچنے لگتا ہوں تو وہ پھر برائی کرتے ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت کیوں نہیں دے دیتا۔‘‘
ضمیر: ’’ان کو ہدایت دینا اللہ کا کام ہے تم صرف دعا کر سکتے ہو۔ لیکن تم وہ کیوں بھول رہے ہو جو اللہ نے تمہیں عطا کیا۔‘‘
انسان: ’’کیا مطلب؟‘‘
ضمیر: ’’ ابھی نماز فجرمیں تم نے سورۃ الضحیٰ کی تلاوت کی تھی اسکا ترجمہ یاد ہے نا؟‘‘
انسان: ’’ہاں‘‘
’’قسم ہے روزِ روشن کی۔ اور رات کی جب وہ چھا جائے۔ نہیں چھوڑا آپکو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے رب نے اور نہ وہ ناراض ہوا۔ اور یقیناً آخرت آپ کے لیے پہلی (حالت یعنی دنیا) سے کہیں بہتر ہے۔ اور عنقریب آپکا ربّ آپ کو وہ کچھ عطا کرے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوجائیں گے۔ بھلا اس نے آپ کو یتیم پا کر جگہ نہیں دی( بیشک دی)۔ اور راستے سے ناواقف دیکھا تو رستہ دکھایا۔ اور تنگ دست پایا تو غنی کر دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یتیم پر ستم نہ کرے گا۔ اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیجیے گا۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہیے گا۔‘‘
ضمیر: ’’اس سورہ میں مخالفین کی بے پناہ اذیت پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی کے ساتھ ساتھ یقین دلایا کہ اللہ آپ کے ساتھ ہے اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مشکل حالات میں نہیں چھوڑا۔‘‘
انسان: ’’(اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ لیکن یہ اب شکوے کے آنسو نہیں تھے ضمیر کو معلوم تھا تبھی اس نے اپنی بات جاری رکھی۔)
ضمیر: ’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو معلوم تھا کہ تم آج پھر دل گرفتہ ہو گے تبھی اس نے تمہیں یہ سورہ تلاوت کرائی تاکہ میں اسے تمہارے سامنے حجت پیش کر سکوں۔ اگر تم غور کرو تو اللہ تم سے فرما رہے ہیں یہ تو دنیاوی آزمائشیں ہیں اور تم دنیا کی ہی فکر کر رہے ہو یہاں کے لوگوں کے رویے تمہیں تنگ کر رہے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آخرت کا اجر دنیا سے کہیں بہتر ہے۔ مجھ سے شکوے کر کے میری ناشکری نہ کرو۔ تم بے آسرا تھے کیا میں نے تمہیں آسرا نہیں دیا۔ تم تنگ دست تھے کیا میں نے تمہیں غنی نہیں کیا۔ تم محتاج تھے کیا تمہیں لوگوں کی محتاجی سے نہیں بچا لیا۔ تم میری نعمتیں یاد کرتے رہو گے تو کبھی دل گرفتہ نہیں ہو گے۔‘‘
ضمیر بول رہا تھا انسان سن رہا تھا۔ رو رہا تھا اور اللہ کی نعمتیں یاد کر رہا تھا۔ واقعی وہ تھا ہی کیا۔۔۔ کچھ سال پہلے وہ بے نمازی، گناہگار، نا شکرا اور بھٹکا ہوا تھا اور آج وہ ہدایت یافتہ تھا۔ وہ صراط مستقیم پر چلنا چاہتا تھا۔ اللہ نے اسے سیدھا راستہ دکھا دیا تھا۔ اس کو دنیا کی وہ تمام نعمتیں دی تھیں جو ایک عام انسان تصور کر سکتا ہے۔ ہدایت اور دل کی نرمی بھی تو اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ پھر بھی وہ شکوے کر رہا تھا۔ اگر اس کے ساتھ برا ہو رہا تھا تو اللہ اس کا نعم البدل بھی تو ان نعمتوں کی صورت میں دے رہے تھے۔ اللہ صحیح کہتے ہیں کہ’’اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔‘‘
ضمیر: ’’اگر اللہ ہمیں معاف کر دیتا ہے اور نعمتیں نچھاور کرتا ہے تو ہم کیوں نہیں اللہ کی خاطر اللہ کے بندوں کو معاف کر دیتے۔ کیوں صبر نہیں کرتے۔ آخرت کی بجائے دنیا والوں کی فکر میں لگے ہیں۔ تم صرف انہیں نظر انداز کرو بہتر ہے کہ معاف کر دو۔ اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اور انہیں ہرگز برا بھلا نہ کہو ورنہ صبر و برداشت کا کوئی فائدہ نہیں۔ دل وسیع کرلو۔ اور اپنے اوپر اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور اس کا شکر ادا کرتے رہا کرو۔‘‘
انسان کی انا جیسے جیسے ضمیر کی باتوں پر غور کرتی گئی وہ ٹوٹتی گئی یہاں تک کہ وہ غائب ہوگئی۔ اب انسان کا وہ روپ سامنے آگیا جسے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ اب صرف وہ اور اس کا بہترین ساتھی اس کا ’’ضمیر‘‘ باقی رہ گیا۔
انسان نے تھک کر آنکھیں بند کر لیں اس کو صبر آگیا تھا۔ وہ اب مسکرا رہا تھا اپنے پروردگار کی نعمتیں اور اپنے لیے اسکی محبت کو یاد کر کے۔ ضمیر بھی مسکرا رہا تھا اپنی کامیابی پر۔ لیکن دور کہیں کوئی رو رہا تھا۔ شیطان آج ناکام ہوا تھا اسے رونا تو تھا ہی کیونکہ آج پھر ضمیر کا خیر شیطان کے شر پر غالب آگیا تھا۔
آسمانوں پر بہت دور ربّ کا نور بہت زور سے چمکا جیسے وہ بہت خوش ہو۔ فرشتے سمجھ گئے کہ لگتا ہے آج پھر کوئی اہلِ ایمان جیت گیا۔