کمزور انسان اور بے عیب خدا ۔ ابویحییٰ
مجھ سے بہت سی خواتین یہ سوال کرتی ہیں کہ خدا نے ہمیں مردوں سے کمتر کیوں بنایا ہے؟ اسی طرح جو لوگ مالی اعتبار سے کمتر ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ کیوں خدانے ان کو غریب بنایا ہے؟ اس طرح کے سوالات کے دو پہلو ہیں۔ ایک خدا کی اسکیم کے حوالے سے جس میں واقعی کچھ لوگ مالی، جسمانی یا سماجی اعتبار سے دوسروں سے کمتر ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسرا پہلو انسانی لحاظ سے جہاں پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ برا معاملہ کیا جاتا ہے۔
خدائی اسکیم کے پہلو سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ خدا سراپا خیر ہے۔ وہ جو کرتا ہے اس میں خیر ہی ہوتا ہے۔ اس میں اگر کوئی شخص کسی پہلو سے کچھ بظاہر کم تر محسوس ہوتا ہے تو یہ درحقیقت خدائی اسکیم کی کمزوری نہیں ہوتی۔ یہ انسانوں کے زاویہ نظر اور طرز عمل کی خرابی ہوتی ہے جس کے بعد سماج میں کچھ لوگ کمتر یا کمزور سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ جو برا ہوتا ہے وہ انسانی رویہ ہوتا ہے نہ کہ خدا کی اسکیم کی کوئی خرابی۔
خدا کی اسکیم میں دنیا کے ساتھ آخرت بھی شامل ہے۔ دنیا عطا کی نہیں، امتحان کی جگہ ہے۔ جب یہاں کسی کو کسی پہلو سے زیادہ دیا جاتا ہے تو لازماً اس کی جواب دہی زیادہ ہوجاتی ہے۔ مگر یہ جواب دہی دنیا میں نہیں، آخرت میں کی جائے گی۔ کسی کواس جواب دہی کی سنگینی کا معمولی اندازہ بھی ہوجائے تو اس کی طاقت، اس کی برتری اور اس کی دولت اس کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ بن جائے گی۔ ایسا انسان خدا کی گرفت میں آنے کے بجائے کمتر اور غریب ہونا پسند کرے گا۔
مگر اکثر لوگوں کی نگاہ سے آخرت کی جوابدہی کا یہ پہلو اوجھل رہتا ہے۔ چنانچہ جن کو نہیں ملتا وہ ساری زندگی شکایت اور جن کو مل جاتا ہے وہ غفلت کا شکار رہتے ہیں۔ یوں دونوں ہی اپنے اپنے امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب قیامت کے دن تمام دولت مندوں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے مال کہاں سے اور کیسے کمایا؟ ہر مال والے کو حلال و حرام کا پورا حساب کتاب دینا ہوگا۔ وہ اپنے سارے سرمائے کو عین حلال ثابت کر بھی دے تب بھی اس کی جان نہیں چھوٹے گی۔ فوراً اگلا سوال کر دیا جائے گا کہ یہ مال کہاں اور کس طرح خرچ کیا۔ اسراف اور فضول خرچی تو نہیں کی تھی؟ نمود و نمائش اور دکھاوا تو نہیں کیا تھا؟ بخل اور کنز (یعنی مال جمع کرنے ) کے جذبے سے مال پر سانپ بن کر تو نہیں بیٹھے رہے تھے۔ مال کو حرام کے کھانے پینے، عیاشی و بدکاری، ظلم و نا انصافی میں خرچ تو نہیں کیا تھا؟ اچھا، جو مال پر دوسروں کا حق تھا اس کو ادا کیا تھا؟ والدین، رشتہ دار، مسافر، پڑوسی، ماتحت و ملازم، یتیم و مسکین، مانگنے والے اور غریب و بے سہارا لوگوں کے حقوق ادا کیے تھے؟
چلو یہ سب کچھ کرلیا تو یہ بتاؤ کہ انفاق کرتے وقت اللہ کی رضا کا جذبہ پیش نظر تھا یا لوگوں کی داد و تحسین سننا چاہتے تھے؟ جو خرچ کیا اس کے ساتھ کسی پر احسان تو نہیں جتلایا؟ ایذا تو نہیں دی؟ ان سب سے بھی اگر آدمی نکل گیا تو آخری بات یہ پوچھی جائے گی کہ جو خود پر خرچ کیا، اس کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ سب اسی کی عطا تھا اور جو دوسروں کو دیا تو انھیں دیتے وقت اسے رب کی عطا سمجھ کر دیا یا اپنی کمائی سمجھ کر اور خود کر بڑا سمجھ کر دیا؟
آج کا مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈھائی فی صد زکوٰۃ کا سوال پوچھ کر انسان کو فارغ کر دیں گے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زکوٰۃ مال پر کیا جانے والا پہلا سوال ہے۔ اس کے بعد یہ ڈھیر سارے سوال ہیں جن کا درست جواب دینے والے لوگ اس دنیا میں شاذ ہی پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں آنے سے قبل لوگوں کو اللہ کی پوری اسکیم سمجھا دی گئی تھی۔ یہ سوالات بھی لوگوں کو معلوم تھے۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر لوگوں نے عقلمندی کا مظاہرہ کر کے اپنے لیے امارت کے بجائے غربت کا پرچہ امتحان چن لیا تھا۔
لوگوں کو معلوم تھا کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں غریب رہنا بہت آسان ہے۔ مگر وہ زندگی جس کا پہلا دن ہی ہزاروں برس پر محیط ہوگا، وہاں کائنات کے بادشاہ کے سامنے اتنے سارے سوالات کا جواب درست دینا ایک ناممکن سا کام ہے۔ اس لیے لوگوں نے غربت کا پرچہ امتحان چنا جو دراصل بہت آسان امتحان ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس کو آخرت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے۔
یہی معاملہ خواتین یا دیگر کمزور طبقات کا ہے۔ مردوں کو اگر بحیثیت شوہر گھر میں اختیار دیا گیا ہے اور حکمرانوں کو سماج میں اقتدار دیا جاتا ہے تو ان کے لیے سولات کی ایک لمبی فہرست اللہ کے ہاں تیار ہوتی ہے۔ ان سوالات کا جواب دینا اتنا آسان نہیں ہے جتنا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔
مگر بدقسمتی سے ہم میں سے ہر شخص آخرت کو بھول کر جیتا ہے۔ اس کے بعد ہم زیادہ عافیت میں ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی شکایت کرنے سے باز نہیں آتے۔ ہم صبر نہیں کرتے۔ اگر ہم صبر کرنے والے بن جائیں تو دنیا میں بھی انشاء اللہ ہمارے لیے کشادگی اور آسانی پیدا کر دی جائے گی اور آخرت میں جنت کی ہمیشہ رہنے والی بادشاہی بہت سستے داموں مل جائے گی۔
اطمینان رکھیے کہ ہمارا خدا ہر عیب سے پاک ہے۔ اس عیب سے بھی کہ اسے کچھ لوگوں کو غریب بنانے اور کمتر بنانے کا الزام دیا جائے۔