جوانی کی موت اور زندگی ۔ ابویحییٰ
مارلن منرو(1926-1962) کو فلمی تاریخ کی سب سے مشہور اداکارہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کی شہرت اور مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ اپنی فلمیں بنانے والے ادارے ان کی شرائط پر ان کو فلموں کے لیے سائن کیا کرتے تھے۔ پچاس کی دہائی میں دنیا بھر میں خوبصورتی اور نسوانی کشش کا استعارہ بن جانے والی یہ اداکارہ صرف 36 سال کی عمر میں خودکشی کرکے اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ ان کی جوان موت نے ان کے مرنے کے عشروں بعد بھی ان کی اہمیت اور ذکر کو عالمی میڈیا میں باقی رکھا۔
جوانی کی موت ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو دوسروں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ جوانی وہ زمانہ ہوتا ہے جب انسان کی طاقت، خوبصورتی، صحت اور جذبات اپنے نقطہ عروج پر ہوتے ہیں۔ جینے کی امنگ، کچھ کرنے کا جذبہ، ان تھک جدوجہد کا حوصلہ، مسلسل محنت، کام کرنے کی استعداد اور مقصد زندگی کو پالینے کا جنون جوانی ہی کے اوصاف ہیں۔ چنانچہ کسی جوان رعنا کی موت خاص کر وہ خودکشی ہو تو دوسروں کو جھنجھوڑنے کے لیے بہت ہوتی ہے۔
تاہم جوانی کی موت کا ایک مثبت پہلو یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جوانی میں اپنے پاس لوٹ آنے والوں پر ہلکا ہاتھ رکھتے ہیں۔قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چالیس سال کی عمر کو پختگی کی عمر قرار دیتے ہیں (الاحقاف15:46)۔ اس عمر کے مطلوبہ اوصاف میں اللہ تعالیٰ اور والدین کی شکر گزاری، اعمال صالح، اولاد کی اصلاح کی فکر، توبہ و فرمانبرداری شامل ہیں۔ اس عمر کو پہنچنے کے بعد دنیا سے رخصت ہونے والا اگر یہ اوصاف لے کر نہیں آیا تو اس کے لیے احتساب کا کڑا معیار ہوگا۔
اس سے پہلے جوانی میں دنیا سے رخصت ہونے والوں کے بارے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ایسے لوگوں کی ناپختگی کی بنا پر احتساب کا معیار ہلکا رکھیں گے اور اگر مرنے والے نے موت سے قبل اللہ کی طرف رجوع کرلیا ہو تو اس کی نجات کا امکان بہت زیادہ ہوگا۔ جوانی میں اللہ کی طرف رجوع کرنے کا یہی فائدہ نہیں بلکہ اور بھی کئی فائدے ہیں۔ پہلا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جوان آدمی اکثر حالات میں انا اور تعصب کی ان بیماریوں سے دور ہوتا ہے جو اکثر حالات میں قبول حق کا راستہ روک دیتی ہیں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے ہوں، ابتدا میں زیادہ تر لوگ جوان ہی تھے۔ خلفائے راشدین کی حیثیت میں جن بزرگوں سے ہم واقف ہیں وہ قبول اسلام کے وقت سب جوان یا نوجوان لوگ تھے۔ یہی معاملہ اصحاب کہف کا تھا جو جوانی میں پوری قوم اور اس کے ظلم کے خلاف کھڑے ہوکر ایمان لے آئے تھے اور اللہ نے ان کو باقی لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا تھا۔
جوانی میں اللہ کی طرف رجوع کا ایک دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان کو نیک عمل کرنے کے لیے بہت طویل وقت مل جاتا ہے۔ جوانی کسی انسان کی شعوری زندگی کا آغاز ہوتی ہے۔ جوانی کی توبہ اور رجوع الی اللہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص عملی طور پر پوری شعوری زندگی میں نیکیاں کرتا رہتا ہے۔ یوں اس کے نیک اعمال بہت زیادہ اور نتیجے کے طور پر اس کے درجات بہت بلند ہوجاتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ حقیقت ہے کہ جوانی کی مستی اور خواہش پر لگام ڈال کر نماز، روزہ، اچھے اخلاق، عفت اور حیا کو اختیار کرنے کی بنا پر جوانوں کے ہر عمل کا اجر پہلے ہی بہت زیادہ لکھا جاتا ہے۔
جوانی مادی لحاظ سے زندگی کا عروج ہے۔ لیکن کوئی شخص اس عمر میں حق پرستی اور نیکی کو شعار بنا لے تو یہ آخرت کے پہلو سے بھی اسے بام عروج پر پہنچانے کا ذریعہ بنے گی۔