جنم دن ۔ عثمان حیدر
جنم دن کے حوالے سے مختلف تاثرات اور رویے پائے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ کوئی اس پر کہتا ہے کہ افسوس ایک سال زندگی کا کم ہوگیا اور مہلت بھی کم رہ گئی۔ ۔ ۔ کوئی کہتا ہے کہ افسوس موت کے ایک سال اور قریب ہوگئے اور وہ نزدیک آگئی غرض وہ اسے ایسے دن کے طور پر لیتے ہیں جس میں خوشی کا کوئی سامان نہیں بلکہ افسوس اور فکر ہی کرنی چاہیے۔
کوئی اس دن باقاعدہ خوشی میں پارٹی ارینج کرتے ہیں تحفے تحائف دیے جاتے ہیں کیک کاٹے جاتے ہیں۔ گویا یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ اس نے سرانجام دے دیا ہے یعنی ان کے ہاں یہ دن سراسر خوشی والا ہے۔
ہمیں دونوں رویوں سے کوئی اختلاف نہیں کہ فکر کی جاتی ہے تو کی جانی بھی چاہیے کیونکہ حساب نزدیک آرہا ہے اور تیاری مایوس کن ہے۔
خوشی منائی جاتی ہے تو منائی جانی چاہیے کیوں کہ اس سے بڑی خوشی کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالی نے پورا ایک سال مہلت دیے رکھی اور آئندہ بھی مہلت دے رہا ہے۔ ہاں بہتر یہ سمجھتے ہیں کہ فکر ہونی چاہیے کیوں کہ بہرحال وہ وقت مزید ایک سال قریب ہوگیا جس کے بارے فرمان الٰہی یہ ہے ترجمہ: اس دن تم سے ہر نعمت کے بارے ضرور بالضرور پوچھا جائے گا۔ (التکاثر)
اور خوشی بھی ہونی چاہیے کہ آخرت کے قریب ہوگئے جو ہر حوالے سے دنیا سے بہتر ہے میں نہیں کہتا کہنے والا کہتا ہے۔
ترجمہ: آخرت بہتر ہے باقی رہنے والی ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ اس دن کی تیاری کتنی ہے۔ تو یہی اصل احساس ہے جو مطلوب ہے۔ یہی اصل سوال ہے جس کا سوال ہمیں اس دن ڈھونڈنا چاہیے۔ جنم دن اپنا آڈٹ کرنے کا دن ہے۔ جو لوگ اپنے جنم دن پر اپنا آڈٹ کرنے کے عادی ہیں۔ خدا کی رحمت ان کو اپنے گھیرے میں لے لے گی۔ باقی لوگوں کے حصے میں ان کی خوش گمانیوں کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔