جہنم کا داروغہ مالک ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید میں جہنم کے عذاب کی شدت کو ایک مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اہل جہنم دوزخ کے داروغہ کو پکار کر کہیں گے کہ اے مالک! کچھ ایسا ہوجائے کہ تمھارا رب ہمارا خاتمہ کر دے،(الزخرف77:43)۔ یہ سوال اہل جہنم کی اس انتہائی مایوسی کا بیان ہے جس میں وہ عذاب کی شدت سے گھبرا کر اور کوئی راہ نجات نہ پاکر موت کی فرمائش کریں گے۔ وہ بھی رد کر دی جائے گی۔
داروغہ جہنم کے نام کے حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ مالک فرشتے کا نام نہیں، اس کا لقب ہے۔ یہ بات ٹھیک محسوس ہوتی ہے۔ فرشتوں کے نام ایسے نہیں ہوتے۔ اس لقب کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کریم و رحیم ہستی اہل جہنم کے حال سے بالکل لاتعلق ہوجائے گی اور داروغہ جہنم کو ان کے معاملات کا مالک بنا دیا جائے گا۔ اہل جہنم کو ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جائے گا جو انتہائی تند خو اور سخت مزاج ہیں۔ یہ فرشتے ان پر ہر قسم کے عذاب کی انتہا کو نافذ کر دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سخت سزا کس جرم کی ہے؟ مالک کا لقب ہی اس سوال کا جواب ہے۔
یہ عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا جواِس دنیا میں خدائے رحمن و کریم کو تنہا اپنا مالک و مولیٰ بنانے پر راضی نہیں ہوئے۔ انھیں خدائے کریم کے ساتھ ہمیشہ کسی دوسرے مالک، مولیٰ، آقا، ان داتا اور حامی و ناصر کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ ان کی نذر، نیاز، سجدہ، دعا، محبت، شوق کا مرکز و محور خدا کے سوا کوئی اور رہا۔ ایسے مجرموں کا انجام یہی ہے کہ اصل مالک روزِ قیامت ان کو جہنم کے داروغہ مالک کے حوالے کر دے جو ان کی زندگی کو سراپا جہنم بنا کر رکھ دے گا۔
آج لوگوں کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ سب کو چھوڑ کر رب رحمن سے لو لگا لیں۔ تنہا اسی پر ایمان لائیں، اسی کی مانیں، اسی پر توکل کریں، اسی سے امید رکھیں، اسی سے وفا کریں اور تن تنہا اسی کو اپنا مالک سمجھیں۔ جو لوگ آج یہ کریں گے کل ان کا بدلہ جنت کی ابدی بادشاہی ہے۔