جدید روحانیت اور اجنبی اسلام ۔ ابویحییٰ
روحانیت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی مذہب کی تاریخ ہے۔ روحانیت کی کوئی حتمی اور متعین تعریف کرنا تو بہت مشکل ہے مگر عام طور پر اس سے مراد مقدس ہستیوں یا تصورات سے وابستگی، عقل اور حواس سے ماوریٰ روحانی تجربات و مشاہدات، مراقبہ، ترک دنیا، زہد و ریاضت اور ضبط نفس پر مبنی زندگی رہی ہے۔
زمانہ قدیم میں روحانیت مذہب اور تصوف کے ملاپ سے وجود میں آتی تھی۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام جیسے آسمانی مذاہب کے علاوہ ہندو مت، بدھ مت اور جین مت جیسے مذاہب میں اس ملاپ سے پیدا ہونی والی روحانیت کی اساسات بہت مضبوط رہی ہیں۔ ان مذاہب کے روحانی لوگوں کی مشترکہ اقدار وہی ہوتی تھیں جو اوپر بیان ہوئی ہیں، البتہ اپنے اپنے مذاہب کے زیر اثر مقدس شخصیات، زہد و عبادت کے طریقے اور روحانی تجربات کی نوعیت میں کچھ تبدیلی ہوتی رہتی تھی۔ مگر ہر ایک کا مقصود مذہب کے قانونی پہلوؤں اور ظاہری مراسم سے بلند ہوکر اپنی ذات میں ڈوب کر دل کا سکون تلاش کرنا ہوتا تھا۔
تاہم دور جدید میں جب مذہب اور عقیدے کو انسان کی زندگی میں مرکزی مقام حاصل نہیں رہا ہے، روحانیت کی ایک نئی قسم عام ہوچکی ہے جسے غیر مذہبی روحانیت یا Non Religious Spirituality کہا جاتا ہے۔ ایک پہلو سے یہ دور جدید کے انسان کا نیا مذہب ہے جو مذہبی عقیدے، ظاہری شناخت، مراسم عبودیت سے ہٹ کر انسانیت کی اعلیٰ اقدار جیسے محبت، ہمدردی، رحم، درگزر اور باطنی اور ظاہری پہلوؤں سے انسان کو سکون اور آرام پہنچانے کا نام ہے۔ یہ رنگ و نسل سے بلند ہوکر کائناتی اور آفاقی انسانوں کی تشکیل پر مبنی مذہب ہے۔
مذہب سے بالاتر اس روحانیت کی مقبولیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اہل مذہب کا باہمی تفرقہ اور ایک دوسرے سے نفرت، اختلاف رائے پر عدم برداشت، متشددانہ اور انتہا پسندانہ سوچ، اپنے خیالات دوسروں پر ٹھونسنے اور بالجبر نافذ کرنے کا رویہ اور دہشت گردی کی حمایت اور تحفظ کا چلن ہے۔
انسان مذہب کی طرف امن اور سکون کے لیے آتا ہے۔ وہ خدا کے نام پر کھڑے لوگوں سے محبت اور رواداری کی توقع رکھتا ہے۔ وہ مذہبی لوگوں سے بے غرضی اور بے لوثی کی توقع رکھتا ہے۔ وہ انھیں عدل و انصاف کا علمبردار دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر ان چیزوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے جدید انسان مذہب سے بیزار ہوکر غیر مذہبی روحانیت کے دامن میں پناہ لے لیتا ہے۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ دین اسلام کو آج کے مسلمانوں کے بجائے اس کے اصل ماخذ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم یعنی قرآن مجید میں دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ یہاں ہر وہ چیز پائی جاتی ہے جسے دور جدید کا انسان موجودہ روحانیت میں ڈھونڈ رہا ہے۔ عدل، احسان، انفاق، امن، ایثار، عفو و درگزر، محبت، ہمدردی، خیرخواہی، صبر، رواداری یہاں بنیادی اقدار ہیں۔ رب کی بندگی، اس کے بندوں سے حسن سلوک، والدین، اہل خانہ، پڑوسیوں، ماتحتوں سے حسن سلوک، عورتوں، بچوں، بزرگوں، محروموں، کمزوروں، یتیموں اور ضعیفوں سے نیک برتاؤ اسلام کی اصل پہچان ہے۔ رشتہ داروں، ضرورت مندوں، فقیروں، مسکینوں، مانگنے والوں اور سفید پوشوں کو اللہ کی رضا کے لیے اپنا مال دینا اس دین کی تعلیمات ہیں۔ وہ کام جنھیں ہر انسان بے ہودہ کہے، ہر شخص منکر سمجھے، ہر نفس حق تلفی مانے، ہر ذی شعور فحش کہے، ہر بندہ زیادتی کہے یہاں ممنوع ہے۔
یہی اسلام ہے۔ یہی اصل روحانیت ہے۔ اسی کی آج کے انسان کو سب سے بڑھ کر ضرورت ہے۔ مگر یہ اسلام تو مسلمانوں کے لیے بھی اجنبی ہے۔ دوسروں کو وہ یہ اسلام کیا دیں گے۔